أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّهُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّهِمۡ‌ۙ كَفَّرَ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ وَاَصۡلَحَ بَالَهُمۡ ۞

ترجمہ:

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی طرف سے سراسر حق ہے، اللہ نے ان کے گناہوں کو مٹا دیا اور ان کے حال کی اصلاح کردی

محمد : ٢ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے اور اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔

ایمان لانے کے بعد سابقہ گناہوں کے مٹانے اور گناہوں کے بدلہ میں نیکیاں عطا……عطا کرنے کی تحقیق

اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں : ایک قول یہ ہے : ان ایمان لانے والوں سے مراد انصار ہیں، جنہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کرکے کے آنے والے مسلمانوں کی غم گساری کی اور ان کی مدد کی، ان کو رہنے کے لئے مکان دئیے اور مال سے انکی مدد کی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد عموم ہے جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لائے اور انہوں نے اعمال صالحہ کیے اور وہ اس کتاب پر بھی ایمان لائے جو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے۔

اس کے بعد فرمایا : اللہ نے ان کے گناہوں کو مٹا دیا اور ان کے حال کی اصلاح کردی۔

اس سے مراد یہ ہے کہ ایمان لانے سے پہلے انہوں نے جو گناہ کیے تھے اللہ تعالیٰ نے ان گناہوں کو مٹا دیا اور یہ جو فرمایا ہے : اور ان کے حال کی اصلاح کردی، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کے بدلہ میں ان کو نیکیاں عطا فرمائے گا، جیسا کہ اس آیت میں ہے :

………(الفرقان : ٧٠۔ ٢٩ )

(مشرک، زانی اور قاتل) کو قیامت کے دن دگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ ذلت کے ساتھ اس عذاب میں ہمیشہ رہے گا، سوا اس شخص کے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ان لوگوں کو برائیوں کو بھی اللہ نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بےحد مہربان ہے

ہر چند کہ اس آیت میں مشرک کے متعلق فرمایا ہے کہ جب وہ توبہ کرے، ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بھی نیکیوں سے بدل دے گا لیکن بعض مسلمانوں کے گناہوں کو بھی اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا، حدیث میں ہے :

اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ کرم فرمائے تو نہ صرف یہ کہ وہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے بلکہ گناہوں کے بدلہ میں نیکیاں عطا فرما دیتا ہے۔

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اس شخص کو جانتا ہوں جس کو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا، اس کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا : اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کرو اور اس کے بڑے بڑے گناہوں کو مخفی رکھا جائے گا، اس سے کہا جائے گا : تو نے فلاں فلاں دن یہ یہ کام کے تھے، وہ ان گناہوں کا اقرار کرے گا اور انکار نہیں کرے گا اور وہ دل میں اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا، پھر کہا جائے گا : اس کو اس کے ہر گناہ کے بدلے میں نیکی دے دو ، میں نے دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس رہے تھے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٩٦، مسند احمد ج ٥ ص ١٧٠، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٧٥، مسند ابو عوانہ ج ا ص ١٢٩۔ ١٧٠)

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو ! اگر کوئی گناہ ہوجائے تو اس کے بعد کوئی نیکی کرلو وہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٨٧، مسند احمد ج ٥ ص ١٥٣، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٧٩٤، المستدرک ج ا ص ٥٤، حلیتہ الاولیاء ج ٤ ص ٣٧٨)

اسم محمد کی تشریح اور تحقیق

نیز اس آیت میں فرمایا : اور جو اس کتاب پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے۔

ہم نے اس سورت کے تعارف میں لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چار جگہ اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ہے، آل عمران : ١٤٤، الاحزاب : ٤٠، محمد : ٢ اور الفتح : ٢٩، سو ہم یہاں پر تفصیل کے ساتھ اسم محمد کی تشریح کرنا چاہتے ہیں اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے :

حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں، اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں، اللہ تعالیٰ میرے بعد حشر قائم کرے گا اور میں عاقب ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث ؛ ٣٥٣٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٥٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٨٤٠، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٥٩٠)

اس حدیث کی شرح میں علامہ محمد بن خلیفہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ لکھتے ہیں :

نام محمد کے فضائل اور خصوصیات

علامہ ابی مالکی نے بعض علماء سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار سماء ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی اتنے ہی اسماء ہیں اور ساٹھ سے زیادہ اسماء کا انہوں نے بالتفصیل ذکر کیا ہے۔

” محمد “ حمد سے ماخوذ ہے اور مفعل کے وزن پر اسم مفعول کا صیغہ ہے، اس کا معنی ہے : بہت زیادہ حمد کیا ہوا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس اس کے زیادہ حق دار ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ایسی حمد کی ہے جو کسی اور کی نہیں کی اور آپ کو وہ محامد عطا کیے ہیں جو کسی اور کو عطاء نہیں کیے اور قیامت کے دن آپ کو وہ چیزیں الہام کرے گا جو کسی اور کو الہام نہیں کرے گا، جس شخص میں خصال محمودہ کامل ہوں اس کو محمد کہا جاتا ہے، ایک قول یہ ہے کہ یہ باتب، تکثیر کے لئے ہے یعنی جس کی بہت زیادہ حمد کی جائے وہ محمد ہے، ابن قتیبہ نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ آپ سے پہلے کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا، جیسے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) سے پہلے کسی کا نام یحییٰ نہیں رکھا گیا تھا۔ (اکمال اکمال المعلم ٨ ص ٩٣، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :

” محمد “ تمحید کا اس مفعول ہے، اس کو وصفیت سے اسمیت کی طرف مبالغتہ نقل کیا گیا ہے، بہ کثرت خصال محمودہ کی بناء پر آپ کا نام محمد رکھا گیا ہے یا اس لئے کہ آپ کی بار بار حمد کی جاتی ہے یا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بہت حمد کرے گا، اسی طرح ملائکہ، انبیاء اور اولیاء آپ کی حمد کریں گے، یا نیک فال کے لئے آپ کا نام محمد رکھا گیا، یا اس لئے کہ اوّلین اور آخرین آپ کی حمد کریں گے اور قیامت کے دن تمام اولین اور آخرین آپ کی حمد کے جھنڈے تلے ہوں گے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھر والوں کے دل میں یہ الہام کیا کہ وہ آپ کا نام ” محمد “ رکھیں۔

نیز ملا علی قاری لکھتے ہیں : احادیث میں آپ کے اسماء کے بیان میں ” محمد “ کو احمد پر مقدم کیا گیا ہے، کیونکہ ” محمد “” احمد “ سے زیادہ ظاہر اور زیادہ مشہور ہے، بلکہ ابو نعیم نے روایت کیا کہ مخلوق کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے آپ کا نام محمد رکھا گیا اور کعب احبار نے روایت کیا ہے کہ عرش کے پائے پر، سات آسمانوں، جنت کے محلات اور بالاخانوں پر، حوروں کے سینوں پر، جنت کے درختوں پر اور درختوں کے پتوں پر، سدرۃ المنتہیٰ اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان ” محمد “ لکھا ہوا ہے، اس نام کو تمام ناموں پر فضیلت ہے، ابو نعیم نے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم ! جو شخص تمہارا نام رکھے گا میں اس کو جہنم میں نہیں ڈالوں گا اور یہ بھی روایت ہے کہ جس کا نام محمد یا احمد ہوگا میں اس کو آگ میں نہیں ڈالوں گا اور ویلمی نے حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے کہ جس دستر خوان پر محمد یا احمد نام کا شخص ہوگا میں اس گھر کو دن میں دو بار پاک کروں گا۔ ابن قتیبہ نے کہا کہ آپ کی نبوت کی علامت میں سے یہ ہے کہ آپ سے پہلے کسی کا نام ” محمد “ نہیں رکھا گیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :” لم نجعل لہ من قبل سمیا “ ان سے پہلے ہم نے یہ نام نہیں رکھا، البتہ جب آپ کی ولادت کا زمانہ قریب آیا اور اہل کتاب نے آپ کی ولات کے زمانہ کے قریب آنے کی بشارت دی تو بہت سے لوگوں نے اپنے بچوں کا نام محمد رکھا کہ شاید ان میں سے کوئی وہ نبی ہو، لیکن اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے کس کو رسول بنانا ہے، زیادہ مشہور یہ ہے کہ پندرہ بچوں کا نام ” محمد “ رکھا گیا۔ (جمع الوسائل ج ٢ ص ٢٢٧۔ ٢٢٦، نور محمد اصح المطابع، کراچی)

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :

آپ کا نام محمد ہونا آپ کے کمال مطلق ہونے کی دلیل ہے۔

قاضی عیاض نے کہا ہے کہ پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احمد تھے اور اس کے بعد محمد ہوئے، کیونکہ پہلی کتابوں میں آپ کا نام احمد تھا اور قرآن مجید میں آپ کا نام محمد ہے اور آپ نے لوگوں میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی، اسی طرح آپ آخرت میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گی اور اس کے بعد شفاعت کریں گے اور آپ سے سن کر لوگ اللہ کی حمد کریں گے، آپ سورة الحمد، لواء حمد (حمد کے جھنڈے) اور مقام محمود کے ستھ مخصوص ہیں، کھانے، پینے، دعا اور سفر سے واپسی کے بعد آپ کے لئے حمد مشروع کی گئی ہے، آپ کی امت کا نام حمادین رکھا گیا ہے اور آپ کے لئے حمد کے تمام معانی اور اقسام جمع کیے گئے ہیں۔ (فتح الباری ج ٦ ص ٥٥٥، لاہور)

حمد کسی حسن اور کمال پر کی جاتی ہے اور آپ علی الاطلاق محمد ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ علی الاطلاق حسن اور کمال ہیں، اگر آپ میں کسی وجہ یا کسی اعتبار سے کوئی نقص اور عیب ہوتا تو آپ علی الاطلاق محمد نہ ہوتے کیونکہ نقص اور عیب کی مذمت ہوتی ہے، حمد نہیں ہوتی اور آپ کو کسی زیدیا بکر نے محمد نہیں کہا، آپ کو اللہ تعالیٰ نے محمد کہا ہے، اگر آپ میں کسی وجہ سے کوئی نقص یا عیب ہو تو اللہ تعالیٰ کا آپ کو مطلقاً محمد کہنا صحیح نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ کا کلام غلط ہوسکتا ہے، نہ آپ میں کوئی نقص اور عیب ہوسکتا ہے۔ یہ بات مشرکین عرب کو بھی معلوم تھی، وہ آپ میں عیب نکالتے، پھر آپ کو محمد کہتے، انہیں خیال آیا کہ محمد کہہ دینے سے تو آپ سے ہر عیب کی نفی ہوجاتی ہے اس لئے وہ آپ کو مذمم (مذمت کیا ہوا) کہنے لگے کہ مذمم میں یہ عیب ہے اور مذمم ایسا ہے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سنا تو فرمایا : وہ مجھ میں عیب نہیں نکالتے کسی مذمم میں عیب نکالتے ہیں، میں مذمم نہیں، محمد ہوں۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

…………(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٣٣)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم اس پر تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے قریش کے سب و شتم کو کس طرح دور کردیا ؟ وہ مذمم کو برا کہتے ہیں اور مذمم کو لعنت کرتے ہیں اور میں محمد ہوں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٣٣)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم اس پر تعجب نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے قریش کے سب و شتم کو کس طرح دور کردیا ؟ وہ مذمم کو برا کہتے ہیں اور مذمم کو لعنت کرتے ہیں اور میں محمد ہوں۔

ایک دفعہ میں نے تقریر میں آپ کے مطلقاً حسن اور کمال ہونے میں آپ کے محمد ہونے سے استدلال کیا اور کہا کہ آپ کا محمد ہونا اس کو مستلزم ہے کہ آپ میں کسی وجہ سے نقص اور عیب نہ ہو، اس پر ایک شخص نے یہ اعتراض کیا کہ بتلائو غیر کا محتاج ہونا حسن ہے یا عیب ؟ اگر یہ حسن ہو تو تمام محاسن اور کمالات کا جامع اللہ تعالیٰ ہے پھر اللہ تعالیٰ کو بھی غیر کا محتاج ہونا چاہیے اور اگر یہ عیب ہو تو آپ میں یہ عیب ثابت ہوگیا کہ آپ اپنے غیر کے محتاج ہیں کیونکہ آپ بہرحال اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں، میں نے کہا : یہ آپ کے لئے کمال ہے اور اللہ کے لئے نقص ہے جیسے عبادت کمال ہے مگر یہ مخلوق کے لئے کمال ہے اللہ کے لئے عبادت کرنا نقص اور عیب ہے، بعض چیزیں حسن لذاتہٖ اور قبیح لغیرہ ہوتی اور بعض چیزیں قبیح لذاتہٖ اور حسن لغیرہ ہوتی ہیں، غیر کا محتاج ہونا قبیح لذاتہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس عیب سے پاک ہے اور حسن لغیر وہ ہے، کیونکہ کا یہ کمال ہے کہ وہ اپنے مولیٰ کا محتاج ہو اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنے مولیٰ کا محتاج ہونا آپ کا حسن اور کمال پر ہوتی ہے، اس لئے آپ ہمیشہ سے حسن اور کمال ہیں، بلکہ تمام محاسن اور کمالات کی اصل ہیں، حسن اور کمال وہی ہے جو آپ میں ہے اور جو چیز آپ میں نہیں ہے وہ حسن ہے نہ کمال۔ باقی انبیاء اور رسل اپنی عظمت میں کسی خیر اور نیکی کے حصول کے تابع تھے یہاں معاملہ الٹ ہے، یہاں خیر اور نیکی اپنے خیر اور نیکی ہونے میں آپ کی طرف نسبت کے تابع ہے جس کو آپ نے کرلیا وہ خوب ہے اور جس سے آپ نے منع کردیا وہ ناخوب ہے۔

نام محمد وصف اور علمیت کا جامع ہے اور نداء یا محمد

علامہ ابن قیم جو زیہ متوفی ٧٥١ ھ اس محمد کی تحقیق میں لکھتے ہیں :

………(جلاء الافہام ص ٩٣، دار الکتاب الاعلامی، بیروت، ١٤١٧ ھ)

کہا جاتا ہے : اس کی حمد کی گئی تو وہ محمد ہے، جس طرح کہا جاتا ہے : اس نے تعلیم دی تو وہ معلم ہے، لہٰذا یہ (لفظ محمد) (نام) بھی ہے اور صفت بھی اور آپ کے حق میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں۔

نیز علامہ ابن قیم لکھتے ہیں :

………(جلاء الافہام ص ٩٣، دار الکتاب الاسلامی، بیروت، ١٤١٧ ھ)

محمد اور حمد میں وصفیت علمیت (نام ہونے) کے منافی نہیں ہے اور ان دونوں معنوں کا قصد کیا جاتا ہے۔

ملا علی قاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :

آیت……(مرقات ج ا ص ٥١، ملتان، ١٣٩٠ ھ)

(جب حضرت جبرائیل نے آپ کو یا محمد کہا) تو اس سے لفظ محمد کے وصفی معنی کا ارادہ کیا اور علمی (نام کے) معنی کا ارادہ نہیں کیا۔

شیخ شبیر احمد عثمانی نے بھی ملا علی قاری کے حوالے سے اس جواب کا ذکر کیا ہے۔ (فتح الملہم ج ا ص ١٠٤)

لفظ محمد سے آپ کا علم اور نام ہی مقصود ہو، لیکن آپ کو بلانا مقصود نہ ہو صرف اظہارِ محبت اور ذوق و شوق سے محض آپ کے نام کا نعرہ لگانا مقصود ہو تو یا محمد کہنا جائز ہے۔

امام مسلم حضرت براء بن عازب (رض) سے ایک طویل حدیث روایت کرتے ہیں، اس میں ہے :

آیت……(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٠٩، الحدیث المسلسل : ٧٣٨٧) ۔

(جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ تشریف لائے تو) مرد اور عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام، راستوں میں پھیل گئے اور وہ نعرے لگا رہے تھے : یا محمد، یا رسول اللہ ‘ یا محمد، یا رسول اللہ۔

حافظ ابن کثیر، حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے زمانہ خلافت کے احوال میں لکھتے ہیں :

آیت……(البدایہ والنہایہ ج ٥ ص ٣٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

اس زمانہ میں مسلمانوں کا شعار یا محمد اہ کہنا تھا۔

حافظ ابن اثیر نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔ (کامل ابن اثیر ج ٢ ص ٢٤٦، بیروت، ١٤٠٠ ھ)

لفظ یا محمد کہہ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کرنا اور آپ کو یاد کرنا مقصود ہو پھر بھی یا محمد کہنا جائز ہے۔ امام بخاری روایت کرتے ہیں :

آیت……(الادب المفردص ٢٥٠، لائل پور)

عبد الرحمن بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر کا پیر سن ہوگیا، ایک شخص نے کہا : اس کو یاد کرو، جو تم کو سب سے زیادہ محبوب ہو، حضرت ابن عمر نے کہا : یا محمد۔

اسم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصی عظمتیں

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کے پاس دو سیاہ فام، نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں، ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہا جاتا ہے، وہ کہیں گے : تم اس شخص کے متعلق کیا کہتے تھے ؟ وہ آپ کو دنیا میں جو کچھ کہتا تھا وہی کہے گا، وہ کہے گا : یہ اللہ کے عبد اور اس کے رسول ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، فرشتے کہیں گے : ہم کو معلوم تھا کہ تم یہی کہو گے، پھر اس کی قبر میں ستر ضرب ستر (٧٠ x ٧٠) وسعت کردی جائے گی، پھر اس کے لئے اس کی قبر منور کردی جائے گی۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٠٧١، السنتہ لابن ابی عاصم رقم الحدیث : ٨٢٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣١١٧، الشریعہ للاجری رقم الحدیث : ٣٢٥، سنن بہیقی رقم الحدیث : ٥٦ )

حضرت البراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب لوگ میت کو دفن کرکے چلے جاتے ہیں تو اس کے پاس دو فرشتے آکر اس کو بٹھا دیتے ہیں اور اسے پوچھتے ہیں : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے، پھر پوچھتے ہیں : تیرا دن کون سا ہے ؟ وہ کہتا ہے : میرا دین اسلا ہے، پھر پوچھتے ہیں : وہ شخص کون تھا جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا ؟ وہ کہتا ہے : وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، (الی قولہ) پھر آسمان سے نداء کی جائے گی میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت سے فرش بچھا دو اور اس کو جنت کا لباس پہنچا دو اور اس کے لئے جنت کی کھڑکی کھول دو ، الحدیث بطولہ۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٧٥٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ١١٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٦٩ )

دیکھئے ! قبر میں نورانی فرشتے آتے ہیں تو قبر منور نہیں ہوتی، قبر والا، اللہ کا نام لیتا ہے، تب بھی قبر منور نہیں ہوتی، نہ قبر میں جنت کی کھڑکی کھلتی ہے، وہ کہتا ہے : میرا دین اسلام ہے پھر بھی قبر منور نہیں ہوتی، نہ جنت کی کھڑکی کھلتی ہے، وہ جب نام محمد لیتا ہے تو اس کی قبر منورہوجاتی ہے اور جنت کی کھڑکی کھل جاتی ہے، اگر کوئی ان حدیثوں پر اعتراض کرے کہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرتبہ اللہ سے بڑھ جائے، اس کے دو جواب ہیں :

(١) اگر کوئی شخص ساری عمر صرف ” لا الہ الا اللہ “ پڑھتا رہے اور ” محمد رسول اللہ “ نہ پڑھے تو وہ جنتی نہیں ہوگا اور اگر مرنے سے پہلے صرف ایک بار ” لا الہ الا اللہ “ کے ساتھ ” محمد رسول اللہ “ پڑھ لے تو وہ جنتی ہوجائے گا، اس سے معلوم ہوا کہ جنت تو آپ کے نام سے ملتی ہے اور یہ سب کے نزدیک متفق علیہ اور مسلم ہے۔

(٢) قبر اللہ کے نام سے ہی منور ہوتی ہے لیکن اللہ کے نزدیک اس کا نام لینا اس وقت مقبول ہوتا ہے جب اس کے نام کے ساتھ نام محمد لیا جائے ‘ اسی طرح انسان ” لا الہ اللہ اللہ “ پڑھنے سے ہی جنتی ہوتا ہے لیکن اللہ سبحانہ ‘ کے نزدیک ” لا الہ الا اللہ “ پڑھنا مقبول اس وقت ہوتا ہے جب ” لا الہ الا اللہ “ کے ساتھ محمد رسول اللہ پڑھا جائے۔

سوا سلام کا دروازہ بھی نام محمد سے کھلتا ہے اور اسلام لانے کے بعد اگر کوئی گناہ ہوجائے تو توبہ کا دروازہ بھی آپ کے نام سے کھلتا ہے اور آپ کی قبر انور پر حاضری سے کھلتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

آیت………(النسائ : ٢٤)

اور اگر یہ مسلمان اپنی جانوں پر کوئی ظلم کر بیٹھتے تو یہ آپ کے پاس آجاتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لئے استغفار کرتے تو ضرور یہ مسلمان اللہ تعالیٰ کو بہت توبہ قبول کرنے والا بہت رحم فرمانے والا پاتے

اور شعب معراج جب حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آسمان کے دربان سے کہا کہ آسمان کا دروازہ کھول دو تو دروازہ نہیں کھلا، اس وقت دروازہ کھلا جب انہوں نے کہا : میرے ساتھ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور ان کو بلایا گیا ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٣ )

اسی طرح قیامت کے دن شفاعتِ کبریٰ کا دروازہ اسی وقت کھلے گا جب آپ شفاعت کریں گے، حدیث میں ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ دو زانو بیٹھے ہوں گے، ہر امت اپنے نبی کے پاس جائے گی، وہ کہیں گے : اے فلاں ! شفاعت کیجئے، حتیٰ کہ یہ (طلب) شفاعت نبی و پر ختم ہوگی، پس یہی وہ دن ہے جب اللہ آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧١٨)

حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس کے آخر میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

مین قیامت کے دنعرش کے نیچے سجدہ کروں گا، اللہ تعالیٰ اس دن مجھے اپنی حمد وثناء کے چند کلمات کا الہام کرے گا، وہ کلمات مجھ سے پہلے کسی کو الہام نہیں فرمائے، پھر مجھ سے کہا جائے گا : اے محمد ! اپنا سر اٹھائیے، آپ سوال کیجئے، آپ کو عطا کیا جائے گا، آپ شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧١٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٤٣٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٠٧، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٢٨٦)

اسی طرح جنت کا دروازہ بھی آپ کے نام سے کھلے گا، حدیث میں ہے :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آئوں گا اور اس کو کھلوائوں گا تو جنت کا خازن کہے گا : آپ کون ہیں ؟ میں کہوں گا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ خازن کہے گا : مجھے آپ ہی کے نام سے جنت کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا گیا ہے، آپ سے پہلے میں کسی کے لئے جنت کا دروازہ نہیں کھولوں گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٧، رقم حدیث الباب : ٣٣٣، رقم المسلسل : ٤٧٨، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢٠٩)

خلاصہ یہ ہے کہ اسلام میں دخول اسم محمد سے ہوتا ہے، توبہ اسی نام سے قبول ہوتی ہے، قبر میں اجالا اسی نام سے ہوتا ہے، قبر میں جنت کی کھڑکی اسی نام سے کھلتی ہے، آسمان کے دروازے اسی نام سے کھلتے ہیں، شفاعتِ کبریٰ اسی نام سے ہوگی اور جنت کا دروازہ بھی اسی نام سے کھلے گا۔

القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 2