أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَيۡكَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ يَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ‌ۚ فَلَمَّا حَضَرُوۡهُ قَالُوۡۤا اَنۡصِتُوۡا‌ۚ فَلَمَّا قُضِىَ وَلَّوۡا اِلٰى قَوۡمِهِمۡ مُّنۡذِرِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور (اے رسول مکرم ! ) یاد کیجئے جب ہم نے جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا جو آپ سے بہ غور قرآن سنتے تھے، پس جب وہ (نبی کے پاس) پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے : چپ ہو جائو، پھر جب قرآن پڑھا جا چکا تو وہ اپنی قوم کی طرف عذاب سے ڈراتے ہوئے واپس گئے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (اے رسول مکرم ! ) یاد کیجئے جب ہم نے جنات کی ایک جماعت کو آپ کی طرف متوجہ کیا جو آپ سے بہ غور قرآن سنتے تھے، پس جب وہ نبی کے پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے : چپ ہو جائو، پھر جب قرآن پڑھا جا چکا تو وہ اپنی قوم کی طرف عذاب سے ڈراتے ہوئے واپس گئے انہوں نے کہا : اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے وہ پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور حق کی طرف ہدایت دیتی ہے اور سیدھے راستے کی طرف اور ہماری قوم ! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا پیغام مان لو اور اس پر ایمان لے آئو اللہ تمہارے گناہوں میں سے بخش دے گا اور دردناک عذاب سے تمہیں پناہ میں رکھے گا اور جو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کے پیغام کو قبول نہیں کرے گا وہ زمین میں (کہیں بھاگ کر) اللہ کو عاجز کرنے والا نہیں ہے، اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہے اور وہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں (الاحقاف : ٣٢۔ ٢٩ )

قرآن سن کر جنات کے ایمان لانے سے اہل مکہ کو ملامت کرنا کہ وہ قرآن سن کر کیوں ایمان نہیں لاتے ؟

اس سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا تھا : آپ اپنی قوم کو قوم عاد کا تذکرہ سنائیے تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں کہ جب قوم عاد نے نافرمانی اور سرکشی کی اور اللہ کے رسول کو جھٹلایا اور اللہ کی توحید پر ایمان نہیں لائی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آندھیوں کا عذاب مسلط کر کے ان کو ہلاک کردیا اور ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ آپ اپنی قوم کو وہ قصہ سنائیے جب ہم نے جنات کے ایک نفر (وفد یا جماعت) کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ وہ آپ سے قرآن مجید کی تلاوت سنیں اور وہ اپنے جہل پر متنبہ ہوں اور قرآن کریم سن کر اپنے کفر سے تائب ہوں، وہ پہلے اس چیز سے ناواقف تھے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، اللہ سبحانہٗ کے رسول ہیں، اہل مکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہم زبان اور آپ کی جنس سے انسان اور بشر تھے، اس کے برخلاف جنات نہ آپ کے ہم زبان تھے اور نہ آپ کی جنس سے انسان اور بشر تھے تو جب وہ قرآن کریم سن کر آپ کی نبوت اور رسالت پر ایمان لے آئے تو اہل مکہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ وہ آپ سے قرآن مجید سن کر اس پر ایمان لائیں اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور آپ کی رسالت کا اقرار کریں۔

اس آیت میں ” نفر “ کا لفظ ہے، مشہوریہ ہے کہ اس کا اطلاق تین مردوں سے لے کر دس مردوں تک پر کیا جاتا ہے اور تحقیق یہ ہے کہ اس کا اطلاق دس سے زیادہ افراد پر بھی کیا جاتا ہے اور ” رھط “ اور ” نفر “ کا اطلاق چالیس افرادتک پر کیا جاتا ہے اور ” نفر “ کا لفظ انسانوں اور مردوں کے ساتھ خاص نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں اس کا اطلاق جنات پر کیا گیا ہے۔

نیز اس آیت میں فرمایا ہے :” فلما حضروہ “ اس کا معنی ہے : وہ قرآن مجید کی تلاوت پر حاضر ہوئے اگرچہ یہ اطلاق مجازی ہے، اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلاوت کے موقع پر حاضر ہوئے۔

اور انہوں نے ایک دوسرے سے کہا : ” خاموش رہو “ اس میں یہ تعلیم ہے کہ علم حاصل کرتے وقت خاموشی سے استاذ کی تقریر سننی چاہیے اور استاذ کی تقریر کے درمیان ایک دوسرے سے باتیں نہیں کرنی چاہیے اور آپ سے قرآن مجید کی تلاوت سننے کے بعد وہ مختلف شہروں میں چلے گئے اور راستے میں ان کو جنات میں سے جو بھی ملتا اس کو وہ اللہ عزوجل کے غضب اور اس کے عذاب سے ڈراتے تھے۔

جنات کا یہ نفر یا وفد کون سے جنات پر مشتمل تھا ؟ اس سلسلے میں زیادہ روایات یہ ہیں کہ یہ نصیبین کے جنات تھے اور یہ علاقہ شام کے قریب دیار بکر کا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ نینوی کا علاقہ ہے اور یہ بھی دیاربکر ہے لیکن یہ علاقہ موصل کے قریب ہے اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ جنات شیصان سے تھے اور جنات کی زیادہ تعداد ان ہی سے ہے اور ابلیس کا عام لشکر بھی یہی ہیں اور جس مقام پر یہ گئے تھے وہ مکہ مکرمہ سے ایک رات کی مسافت پر وادی نخلہ ہے (یعنی وہاں کھجوروں کا باغ ہے) ۔(روح المعانی جز ٢٦ ص ٤٧۔ ٤٦، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

اب ہم ان احادیث کا ذکر کر رہے ہیں جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جنات کی ایک جماعت کے آنے اور آپ سے قرآن مجید سننے، اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانے اور واپس جاکر دوسرے جنات کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کا ذکر ہے۔

جنات کا نماز فجر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سننا

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ عکاظ کے بازار کا قصد کر کے گئے، اس اثناء میں شیاطین (جنات) اور آسمان کی خبروں کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی تھی اور ان کے اوپر آگ کے گولے پھینکے جاتے تھے، پھر شیاطین واپس آجاتے تھے، وہ ایک دوسرے سے پوچھتے : اب کیا ہوگیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا ہمارے اور آسمانوں کی خبروں کے درمیان کوئی چیز حائل ہوگئی ہے اور ہم پر آگ کے گولے پھینکے جاتے ہیں، انہوں نے کہا تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان وہی چیز حائل ہوئی ہے جو تازہ ظہور میں آئی ہے، تم زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کرو اور دیکھو کہ کون سی نئی چیز ظہور میں آئی ہے، پھر وہ روانہ ہوئے اور انہوں نے زمین کے مشارق اور مغارب میں سفر کیا اور وہ اس پر غور کرتے ر تھے کہ ان کے اور آسمان کی خبروں کے درمیان کیا چیز حائل ہوئی ہے، پھر وہ جنات تہامہ میں پہنچے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک کھجور کے درخت کے پاس تھے اس وقت آپ عکاظ کے بازار کا قصد کرنے والے تھے اور آپ اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، جب جنات نے قرآن مجید سنا تو انہوں نے کہا : غور سے سنو یہی وہ چیز ہے جو تمہارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حائل ہوئی ہے پھر وہ وہیں سے اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے اور انہوں نے کہا : اے ہماری قوم !

” اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا یَّہْدِیْٓ اِلَی الرُّشْدِ فَاٰ مَنَّا بِہٖط وَلَنْ نُّشْرِکَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا “ (الجن : ٢۔ ١)

ہم نے عجیب قرآن (کلام) سنا ہے جو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، ہم اس کے ساتھ ایمان لائے اور ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں کریں گے

اور اللہ عزوجل نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی :

” قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّہُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ “ (الجن : ١)

(اے رسول مکرم ! آپ کہیے کہ میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے قرآن مجید سنا اور کہا۔

اور آپ کی طرف جنات کے قول کی وحی کی گئی تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩٢١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٤٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٣، مسند احمد ج ١ ص ٢٥٢ طبع قدیم، مسند احمد ج ٤ ص ١٢٩ طبع جدید۔ رقم الحدیث : ٢٢٧١، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٦٢٥۔ ١١٦٢٤، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٣٦٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٥٢٦، المستدرک ج ٢ ص ٥٠٣، سنن کبری للبیہقی ج ٢ ص ٢٢٦۔ ٢٢٥ )

لیلۃ الجن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حضرت ابن مسعود بھی تھے یا نہیں ؟

اس میں اختلاف ہے کہ جس رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جنات سے ملاقات ہوئی اس رات آپ کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ تھے یا نہیں ؟

علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے پوچھا : کیا آپ میں سے کوئی شخص اس رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھا جب آپ کی جنات سے ملاقات ہوئی تھی ؟ انہوں نے کہا : ہم میں سے کوئی آپ کے ساتھ نہیں تھا، لیکن ایک رات ہم نے آپ کو گم پایا اور ہم کو یہی خیال آتا تھا کہ کسی دشمن نے آپ کو دھوکا دے دیا، یا آپ کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا، ہم نے انتہائی پریشانی میں وہ رات گزاری، جب صبح ہوئی تو ہم نے آپ کو غار حرا کی طرف سے آتے دیکھا، ہم نے کہا : یا رسول اللہ ! اور ہم نے آپ سے اپنی پریشانی بیان کی، آپ نے فرمایا : میرے پاس ایک جن دعوت دینے آیا، میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان کے سامنے قرآن پڑھا، پھر آپ ہم کو لے کر گئے اور ان کے نشانات اور آگ کے نشانات ہمیں دکھائے۔ شعبی نے بیان کیا کہ انہوں نے آپ سے ناشتہ طلب کیا تھا۔ عامر نے کہا : یہ ایک جزیرہ کے جن تھے، آپ نے فرمایا : ہ وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام پڑھا گیا ہو جب وہ تمہارے ہاتھوں میں آئے گی تو گوشت سے بھر جائے گی اور اسی طرح گوبر تمہارے جانوروں کا چارہ بنے گا، پس اے مسلمانو ! ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کیا کرو یہ تمہارے بھائی جنات کی (اور ان کے جانوروں کی) خوراک ہیں۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔

(مسند احمد ج ١ ص ٤٣٦، طبع قدیم، مسند احمد ج ٧ ص ٢١٥۔ ٢١٤، طبع جدید۔ رقم الحدیث : ٤١٤٩، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٦ ھ، دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٢٢٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٥٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٨، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٥٢٣٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٣٢٠، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٨٢، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص ١٥٥، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٥، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٨، دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٢٢٩ )

حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ وہ جنات سے ملاقات کی رات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، پس ان سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عبد اللہ ! کیا تمہارے ساتھ پانی ہے ؟ میں نے کہا : میرے ساتھ ایک مشکیزہ میں پانی ہے، آپ نے فرمایا : مجھ پر وہ ڈالو، پھر آپ نے وضو کیا سو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عبد اللہ بن مسعود ! یہ پاک مشروب ہے اور پاک کرنے والا ہے۔

شعیب الارنؤـط نے کہا : اس حدیث کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں ابن لہیعہ ہے اور وہ ضعیف راوی ہے۔

(مسند احمد ج ١ ص ٣٩٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ٦ ص ٣٢٣۔ رقم الحدیث : ٣٧٨٢ طبع جدید، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، ١٤١٦ ھ، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٥، سنن دارقطنی ج ١ ص ٧٨ طبع قدیم)

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات سے ملاقات کی رات میں حضرت ابن مسعود کے گرد ایک خط کھینچ دیا، اور فرمایا : تم اس جگہ سے کہیں نہ جانا، پھر آپ نے جنات کو اللہ عزوجل کی کتاب پڑھائی جب ابن مسعود نے مکھیوں کی طرح بھنبھناہٹ دیکھی تو انہوں نے دل میں کہا : گویا کہ یہی جنات ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا : کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے کہا : آپ نے پوچھا : کیا تمہارے ساتھ نبیذ ہے ؟ میں نے کہا : جی ہاں ! پھر آپ نے اس کے ساتھ وضو کیا۔

شعیب الارنؤط نے کہا : اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں علی بن زید ہے اور وہ ضعیف راوی ہے، اور اس کے باقی راوی ثقہ اور صحیح ہیں۔

(مسند احمد ج ١ ص ٤٥٥ طبع قدیم، مسند احمد ج ٧ ص ٣٦٧۔ رقم الحدیث : ٤٣٥٣، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٦ ھ، سنن دارقطنی ج ١ ص ٧٧ طبع قدیم)

عبد اللہ بن عمرو بن غیلان ثقفی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابن مسعود (رض) سے کہا : مجھے یہ بتایا گیا کہ جنات سے ملاقات کی رات آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا : ہاں ! ، ابن غیلان نے پوچھا : اس رات کیا ہوا تھا ؟ حضرت ابن مسعود نے بتایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خط کھینچ دیا اور فرمایا : اس جگہ سے نہ جانا، اور انہوں نے بتایا کہ سیاہ دھوئیں کی مثل ایک چیز نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈھانپ لیا اور حضرت ابن مسعود تین بار خوف زدہ ہوئے، صبح کے قریب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور آپ نے پوچھا : کیا تم سو گئے ہو ؟ میں نے کہا : نہیں ! اور اللہ کی قسم ! میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ میں لوگوں کو مدد کے لئے بلائوں حتیٰ کہ میں نے سنا، آپ اپنی لاٹھی سے ان کو ضرب لگا کر فرما رہے ہیں بیٹھ جائو۔ آپ نے فرمایا : اگر تم اس خط سے باہر نکلتے تو مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تم کو اچک کرلے جاتے، پھر آپ نے فرمایا : کیا تم نے کوئی چیز دیکھی ؟ میں نے کہا : میں نے سیاہ فام مردوں کو دیکھا جو سفید لباس پہنے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا : وہ نصیبین کے جن تھے، انہوں نے جھ سے ناشتہ کا سوال کیا تو میں نے ان کو ہر ہڈی، مینگنی اور لیددی، میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! ان کو اس سے کیا ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : جب کوئی ہڈی ان کے ہاتھ میں آئے گی تو اس میں پہلے کی طرح گوشت آجائے گا، اسی طرح لید پر دانے آجائیں گے، سو تم میں سے کوئی شخص ہڈی، لید اور گوبر سے استنجاء نہ کرے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٢٣٠)

لیلۃ الجن کی مختلف روایات میں تطبیق

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ نے بھی ان احادیث کو روایت کیا ہے، بعض احادیث میں ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) لیلۃ الجن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں تھے اور بعض احادیث میں ہے کہ وہ اس شب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے اور بعض احادیث میں ہے کہ جنات نے از خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن مجید سنا تھا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہامہ میں کھجوروں کے جھنڈ کے پاس اپنے بعض اصحاب کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ قصداً انہیں تبلیغ کرنے کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ حافظ ابن کثیر ان احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

یہ تمام احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قصداً جنات کی طرف گئے تھے اور آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی طرف دعوت دی اور ان کے لئے وہ احکام شرعیہ بیان کئے جن کی انہیں ضرورت تھی، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی بار جنات نے آپ سے قرآن مجید سنا ہو اور اس وقت آپ کو یہ علم نہ ہو کہ جنات قرآن سن رہے ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) کی روایت میں ہے اور اس کے بعد جنات کا وفد آپ کے پاس آیا ہو جیسا کہ حضرت ابن مسعود (رض) کی روایت میں ہے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنات سے خطاب فرما رہے تھے، اس اثناء میں حضرت ابن مسعود آپ کے ساتھ نہ تھے اور آپ سے دور تھے اور حضرت ابن مسعود کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے اور کوئی آپ کے ساتھ نہیں گیا تھا اور یہ ” سنن بیہقی “ کی روایت میں ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب پہلی بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنات کی طرف تشریف لے گئے اس بار آپ کے ساتھ حضرت ابن مسعود (رض) تھے نہ کوئی اور صحابی تھے جیسا کہ ” مسند احمد “ کی حدیث میں ہے اور یہ حدیث ” صحیح مسلم “ میں بھی ہے اور حضرت ابن مسعود کے ساتھ جانے کے واقعات پہلی بار جانے کے بعد پیش آئے۔(تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٨١، دارالفکر، بیروت، ١٨١ ھ)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد بار جنات کے سامنے قرآن مجید پڑھا ہے جیسا کہ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے پاس آئے اور ان کے سامنے سورة رحمن اوّل سے آخر تک پڑھی، صحابہ نے خاموش ہو کر آپ کی تلاوت سنی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے لیلۃ الجن میں جنات کے سامنے یہ سورت پڑھی تو وہ تمہاری بہ نسبت اچھی طرح اس کو لوٹا رہے تھے، میں جب بھی ” فبای آلاء ربکما تکذبان “ (پس اے جن اور انس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے ؟ ) تو وہ جواب میں کہتے : ” لا بشیء من نعمک ربنا نکذب فلک الحمد “ (اے ہمارے رب ! ہم تیری کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے، سو تیرے لئے ہی حمد ہے) ۔(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٢٩١، الکامل لابن عدی ج ٣ ص ١٠٧٤، المستدرک ج ٢ ص ٤٧٣، دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٢٣٢)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 29