أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ اَهۡلَكۡنَا مَا حَوۡلَـكُمۡ مِّنَ الۡقُرٰى وَصَرَّفۡنَا الۡاٰيٰتِ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور بیشک ہم نے تمہارے اردگرد کی بستیاں ہلاک کردیں اور ہم نے مختلف نوع کی نشانیاں دکھائیں تاکہ وہ حق کی طرف رجوع کریں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک ہم نے تمہارے اردگرد کی بستیاں ہلاک کردیں اور ہم نے مختلف نوع کی نشانیاں دکھائیں تاکہ وہ حق کی طرف رجوع کریں پس اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر جن کو معبود بنا رکھا تھا، انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی، بلکہ وہ (معبود) تو ان سے گم ہوگئے اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور بہتان تھا جس کو وہ تراشتے تھے (الاحقاف : ٢٨۔ ٢٧ )

اہل مکہ کے اردگرد کی بستیوں کو ہلاک کر کے ان کو عبرت دلانا

اردگرد کی بستیوں سے مراد ہے : یمن اور شام میں عاد اور ثمود کی بستیاں، جب کفارِ مکہ حجاز سے یمن اور شام کا سفر کرتے تھے تو ان کو ان تباہ شدہ بستیوں کے آثار نظر آتے تھے، اور عاد اور ثمود کی بستیوں کی ہلاکت کی خبریں ان تک صدیوں سے پہنچ رہیں تھیں اور گویا کہ ان کو تواتر سے معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان نہ لانے اور رسولوں کی تکذیب کرنے کی وجہ سے ان پر ہولناک عذاب آیا تھا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم نے مختلف نوع کی نشانیاں دکھائیں تاکہ وہ حق کی طرف رجوع کریں یعنی ان بستیوں میں رہنے والوں کے لئے ان کو ہلاک کرنے سے پہلے ہم نے طرح طرح کی نشانیاں دکھائیں تاکہ وہ ایمان لے آئیں۔ الاحقاف : ٢٨ میں فرمایا : پس اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر جن کو معبود بنا رکھا تھا، انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی بلکہ وہ (معبود) تو ان سے گم ہوگئے اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور بہتان تھا جس کو وہ تراشتے تھے

مشرکین کے لئے بتوں کی شفاعت کا باطل ہونا

اس آیت میں ” قربان “ کا لفظ ہے، ” قربان “ کا معنی ہے : ہر وہ مالی اور بدنی عبادت یا کسی جانور کا ذبیحہ جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے۔ مشرکین یہ کہتے تھے :

” ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللہ ِط “ (یونس : ١٨)

یہ بت اللہ کے پاس ہماری شفاعت کرنے والے ہیں۔

نیز وہ کہتے تھے :

” مَا نَعْبُدُھُمْ اِلاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللہ ِ زُلْفٰی ط “ (الزمر : ٣)

ہم ان کی صرف اس لئے عبادت کرتے ہیں کہ یہ (بت) ہمیں اللہ کے قریب کردیں۔

اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ بتارہا ہے کہ قیامت کے دن ان مشرکین کو اللہ کے عذاب سے چھڑانے کے لئے ان بتوں نے ان مشرکین کی مدد کیوں نہ کی، جن کی یہ مشرکین اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ان بتوں کے لئے قربانی پیش کیا کرتے تھے بلکہ ان کے وہ خود ساختہ معبود تو ان کے سامنے سے غائب ہوگئے۔

یا اس کا محمل یہ ہے کہ جب عاد اور ثمود پر اللہ کا عذاب آیا اس وقت ان بتوں نے ان کو اللہ کے عذاب سے کیوں نہ چھڑایا جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے تھے بلکہ مدد کے وقت وہ ان کے سامنے سے غائب ہوگئے، اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ ان کے بتوں کا ان کی سفارش کرنا محال ہے اور مشرکین کے حق میں بتوں کی سفارش اس لئے نہیں ہوسکی کہ ان مشرکین نے ان بتوں کو اللہ کا شریک بنا کر اور عبادت میں ان کو اللہ کا شریک قرار دے کر جھوٹ بولا تھا اور اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھا تھا کہ وہ اس کے شرکاء ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 27