وَمَنۡ لَّا يُجِبۡ دَاعِىَ اللّٰهِ فَلَيۡسَ بِمُعۡجِزٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَيۡسَ لَهٗ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءُ ؕ اُولٰٓئِكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞- سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 32
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنۡ لَّا يُجِبۡ دَاعِىَ اللّٰهِ فَلَيۡسَ بِمُعۡجِزٍ فِى الۡاَرۡضِ وَلَيۡسَ لَهٗ مِنۡ دُوۡنِهٖۤ اَوۡلِيَآءُ ؕ اُولٰٓئِكَ فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞
ترجمہ:
اور جو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کے پیغام کو قبول نہیں کرے گا وہ زمین میں (کہیں بھاگ کر) اللہ کو عاجز کرنے والا نہیں ہے اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہے اور وہ لوگ کھلی ہوئی گم راہی میں ہیں
الاحقاف : ٣٢ میں فرمایا : اور جو اللہ کی طرف دعوت دینے والے کے پیغام کو قبول نہیں کرے گا وہ زمین میں (کہیں بھاگ کر) اللہ کو عاجز کرنے والا نہیں ہے اور اللہ کے سوا اس کا کوئی مددگار نہیں ہے اور وہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں ہیں
اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی احادیث میں مثالیں
اس آیت کے مضمون پر حسب ذیل احادیث دلالت کرتی ہیں :
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوئے ہوئے تھے آپ کے پاس چند فرشتے آئے، انہوں نے آپس میں کہا : تمہارے اس پیغمبر کی ایک مثال ہے، تم وہ مثال بیان کرو۔ بعض نے کہا : وہ سوئے ہوئے ہیں، بعض دوسرے فرشتوں نے کہا : ان کی آنکھیں سوئی ہوئی ہیں اور ان کا دل بیدار ہے، پھر انہوں نے کہا : ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اس میں عام دعوت کی اور ایک دعوت دینے والے کو بھیج دیا پس جس نے اس دعوت کو قبول کیا وہ اس گھر میں داخل ہوگا اور ان کے ساتھ اس دعوت سے کھائے گا اور جس نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا وہ اس گھر میں داخل نہیں ہوگا اور اس دعوت سے کھانا نہیں کھائے گا، پھر انہوں نے کہا : اس مثال کی وضاحت کرو تاکہ یہ اس کو سمجھیں، بعض فرشتوں نے کہا : وہ سوئے ہوئے ہیں اور بعض نے کہا : ان کی آنکھیں سوئی ہوئی ہیں اور ان کا دل بیدار ہے، پس انہوں نے کہا : گھر سے مراد جنت ہے اور دعوت دینے والے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، پس جس نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے درمیان تفریق کردی یعنی مسلمان اور کافر کو الگ الگ کردیا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٢٨١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٨٦٠ )
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جس دین کو دے کر مجھے بھیجا ہے اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی قوم کے پاس گیا اور کہا : اے میری قوم ! میں نے اپنی آنکھوں سے ایک لشکر دیکھا ہے اور میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں، پس بچو، بچو۔ قوم میں سے ایک گروہ نے اس کی اطاعت کی پس وہ سکون سے اندھیرے میں آگئے اور نجات پا گئے اور ایک گروہ نے اس کو جھٹلایا اور صبح کے وقت اپنی جگہ پہنچے، پس صبح کے وقت لشکر نے ان پر حملہ کیا اور سب کو ہلاک کر ڈالا، یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے میری اطاعت کی اور میرے دین کی پیروی کی اور جس نے میری نافرمانی کی اور میرے لائے ہوئے دین کی تکذیب کی۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٢٨٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٣)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس سے اس کا اردگرد روشن ہوگیا تو پروانے اور حشرات الارض اس آگ پر آ آ کر گرنے لگے اور وہ ان کو روک رہا ہے اور وہ پروانے اس پر غالب آ کر اس آگ میں گر رہے ہیں، پھر میں تم کو کمر سے پکڑ کر آگ میں گرنے سے منع کر رہا ہوں اور تم زبردستی آگ میں گر رہے ہو۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٨٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٨٤، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٨٧٤، مسند احمد ج ٢ ص ٢٤٤ )
حضرت ربیعہ الجرشی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کسی (فرشتے) کو لایا گیا، پس آپ سے کہا گیا کہ آپ کی آنکھ کو سو جانا چاہیے اور آپ کے کان کو سننا چاہیے اور آپ کے دل کو غور کرنا چاہیے، آپ نے فرمایا : پھر میری آنکھ سو گئی اور میرے کان سنتے رہے اور میرا دل غور کرتا رہا، پھر مجھ سے کہا گیا : ایک سردار نے گھر بنایا اور اس میں دستر خوان بچھایا اور ایک دعوت دینے والے کو بھیج دیا، پس جس نے دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرلی، وہ گھر میں داخل ہوجائے گا اور دستر خوان سے کھائے گا اور اس کا سردار راضی ہوجائے گا اور جس نے دعوت دینے والے کی دعوت قبول نہیں کی وہ گھر میں داخل نہیں ہوگا اور دستر خوان سے نہیں کھا سکے گا، آپ نے فرمایا : پس سردار اللہ ہے اور دعوت دینے والے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور گھر اسلام ہے اور دستر خوان جنت ہے۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : ١١)
القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 32