وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَيۡهِ اِحۡسَانًا ؕ حَمَلَـتۡهُ اُمُّهٗ كُرۡهًا وَّوَضَعَتۡهُ كُرۡهًا ؕ وَحَمۡلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰـثُوۡنَ شَهۡرًا ؕ حَتّٰٓى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِيۡنَ سَنَةً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮهُ وَاَصۡلِحۡ لِىۡ فِىۡ ذُرِّيَّتِىۡ ؕۚ اِنِّىۡ تُبۡتُ اِلَيۡكَ وَاِنِّىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 15
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَيۡهِ اِحۡسَانًا ؕ حَمَلَـتۡهُ اُمُّهٗ كُرۡهًا وَّوَضَعَتۡهُ كُرۡهًا ؕ وَحَمۡلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰـثُوۡنَ شَهۡرًا ؕ حَتّٰٓى اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِيۡنَ سَنَةً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِىۡۤ اَنۡ اَشۡكُرَ نِعۡمَتَكَ الَّتِىۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ وَعَلٰى وَالِدَىَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰٮهُ وَاَصۡلِحۡ لِىۡ فِىۡ ذُرِّيَّتِىۡ ؕۚ اِنِّىۡ تُبۡتُ اِلَيۡكَ وَاِنِّىۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا تاکیدی حکم دیا، اس کی ماں نے اس کو مشقت کے ساتھ پیٹ میں اٹھایا اور تکلیف جھیل کر اس کو جنا، اور اس کو پیٹ میں اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس ماہ میں تھا، حتیٰ کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوگیا تو کہا اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہے اور میں ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو اور تو میری اولاد میں بھی نیکی رکھ دے، بیشک میں نے تیری طرف رجوع کیا اور بیشک میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کا تاکیدی حکم دیا، اس کی ماں نے اس کو مشقت کے ساتھ پیٹ میں اٹھایا اور تکلیف جھیل کر اس کو جنا، اور اس کو پیٹ میں اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس ماہ میں تھا، حتیٰ کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوگیا تو کہا : اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہے اور میں ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو اور تو میری اولاد میں بھی نیکی رکھ دے، بیشک میں نے تیری طرف رجوع کیا اور بیشک میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک کاموں کو ہم قبول فرماتے ہیں اور جن کی لغزشوں سے ہم درگزر کرتے ہیں (یہ) جنتی لوگوں میں سے ہیں، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو ان سے کیا جاتا تھا (الاحقاف : ١٦۔ ١٥)
اولاد پر ماں باپ کے حقوق خصوصاً ماں کے حقوق کے متعلق احادیث
سورة بنی اسرائیل میں فرمایا تھا : ” وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً ط “ (بنی اسرائیل : ٢٣) احسان کا معنی ہے : کسی کے ساتھ نیک سلوک اور اچھا برتائو کرنا، اس کی مفصل تفسیر وہاں گزر چکی ہے اور العنکبوت : ٨ میں فرمایا : ” ووصینا الانسان بوالدیہ حسنا ط “ اور حسن کا معنی اچھائی اور نیکی ہے اس سے بھی یہی مراد ہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھائی اور نیکی کی جائے۔ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ماں کے ساتھ زیادہ نیکی کرنے کی طرف متوجہ فرمایا ہے کہ اس کی ماں نے اس کو مشقت کے ساتھ اٹھایا اور مشقت کے ساتھ اس کو جنا۔
حضرت عائشہ ام المؤمنین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں، اس نے مجھ سے سوال کیا اور میرے پاس ایک کھجور کے سوا اور کوئی چیز نہیں تھی، میں نے اس کو وہی ایک کھجور دے دی، اس نے اس کھجور کو اپنی دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور اس میں سے خود کچھ نہیں کھایا، پھر وہ چلی گئی۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو میں نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص ان بیٹیوں کی پرورش میں مبتلا ہوا اور اس نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا وہ اس کے لئے دوزخ کی آگ سے حجاب ہوجائیں گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٩٥ ھ، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٢٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩١٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٦٨، مسند احمد ج ٦ ص ٨٧۔ ج ٦ ص ٩٢)
اس آیت میں ماں کا ذکر تین بار ہے اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار ماں کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی ہے اور چوتھی بار باپ کا ذکر فرمایا ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر سوال کیا : یا رسول اللہ میرے نیک سلوک کا سب سے زیادہ کون مستحق ہے ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری ماں، اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ فرمایا : تمہاری ماں اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ فرمایا : تمہاری ماں، اس نے کہا : پھر کون ہے ؟ فرمایا : تمہارا باپ۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٨، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ١١١٨، مسند احمد ج ٢ ص ٣٢٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٠٦)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پوچھا گیا : یا رسول اللہ ! کس کی ؟ فرمایا : جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کے بڑھاپے کو پایا اور جنت میں داخل نہیں ہوا۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٥١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٤٥، مسند احمد ج ٢ ص ٢٥٤ )
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور جہاد میں جانے کی اجازت طلب کی، آپ نے پوچھا : تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : ان کی خدمت میں جہاد کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٧٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٤٩، سنن ابو دائود و رقم الحدیث : ٢٥٢٩، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٦٧١، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٠٣، مصنف عبد الزاق رقم الحدیث : ٣٢٨٤، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٤٧٣، مسند احمد ج ٢ ص ١٦٥، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٥٨٥، الادب المفرد رقم الحدیث : ٢٠ )
حضرت معاویہ بن جاہمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر کہا : یا رسول اللہ ! میرا جہاد کرنے کا ارادہ ہے اور میں آپ کے پاس مشورہ کرنے کے لئے آیا ہوں، آپ نے فرمایا : کیا تمہاری ماں ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : تم اس کے پاس لازم رہو کیونکہ جنت اس کے پائوں کے پاس ہے۔(سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٨١، مسند احمد ج ٣ ص ٤٢٩، مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٣٨)
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں محبت کرتا تھا اور حضرت عمر اس کو ناپسند کرتے تھے، انہوں نے مجھ سے فرمایا : اس کو طلاق دے دو ، میں نے انکار کیا۔ پھر حضرت عمر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : اس کو طلاق دے دو ۔(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥١٣٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١١٨٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٨٨، مسند احمد ج ٢ ص ٢٠، جامع المسانید والسنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ١٦٠ )
حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں میری ماں میرے پاس آئیں اور وہ مشرکہ تھیں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میرے پاس میری ماں آئیں اور وہ اسلام سے اعراض کرنے والی ہیں کیا میں ان سے حسن سلوک کروں ؟ آپ نے فرمایا : تم اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٢٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٠٣، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٦٦٨، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٣١٨، مسند احمد ج ٦ ص ٣٤٤ )
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے کہا : یا رسول اللہ ! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کرلیا ہے، کیا میری توبہ ہوسکتی ہے ؟ آپ نے پوچھا : کیا تمہاری ماں ہے ؟ اس نے کہا : نہیں، آپ نے پوچھا : کیا تمہاری خالہ ہے ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! آپ نے فرمایا : اس کے ساتھ نیکی کرو۔(سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٤، مسند احمد ج ٢ ص ١٣)
حضرت مالک بن ربیعہ الساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس بنو سلمہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ ! کوئی ایسی نیکی ہے جو میں اپنے والدین کے فوت ہونے کے بعد ان کے ساتھ کرسکوں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ان کی نماز جنازہ پڑھ، ان کے لئے مغفرت کی دعا کرو، ان کے لئے کئے ہوئے عہد کو ان کے بعد پورا کرو اور ان کی وجہ سے ان کے رشتہ داروں سے حسن سلوک کرو اور ان کے دوستوں کی عزت کرو۔(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥١٤٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٦٤، مسند احمد ج ٣ ص ٤٩٧)
حضرت ابوالطفیل (رض) بیان کرتے ہیں، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقام جعرانہ میں گوشت تقسیم کر رہے تھے اور میں اس وقت نوجوان تھا اور اونٹ کی ہڈیاں اٹھا رہا تھا، ایک عورت آئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوئی، آپ نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی جس پر وہ بیٹھ گئی، میں نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : یہ آپ کی وہ ماں ہے جس نے آپ کو دودھ پلایا تھا۔ (سنن ابودائود درقم الحدیث : ٥١٤٤، الادب المفرد رقم الحدیث : ١٢٩٥)
حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کی طرف سے حج کیا تو یہ اس کو کفایت کرے گا اور ان کی روح کو آسمان میں بشارت دی جائے گی اور اللہ کے نزدیک اس شخص کو نیک لکھا جائے گا خواہ وہ ان کا عاق شدہ ہو، ایک روایت میں ہے کہ جس نے اپنے ماں باپ میں سے کسی کے لئے حج کیا تو ان کے لئے ایک حج لکھا جائے گا اور اس کے لئے ساتھ حج لکھے جائیں گے۔(جامع الاصول رقم الحدیث : ٢١٠، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٢٨٢)
میں نے اس آیت کی تفسیر میں تلاش کر کے ماں کے اولاد پر عظیم حقوق کی احادیث درج کی ہیں، میری والدہ ماجدہ بہت عاب زاہدہ تھیں سب سے زیادہ اللہ عزوجل سے محبت کرتی تھیں۔ ٧ اگست ٢٠٠٣ ء شب جمعہ کو وہ وفات پا گئیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ایک مرتبہ سورة فاتحہ اور تین بار سورة اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب میری والدہ محترمہ کو پہنچا دیں، میں بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کروں گا۔
دودھ پلانے کی انتہائی مدت میں فقہاء احناف کا مذہب
اس کے بعد فرمایا : اور اس کو پیٹ میں اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس ماہ میں تھا۔
علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر المرغینانی الحنفی المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :
دودھ پلانے کی مدت امام ابوحنیفہ کے نزدیک تیس ماہ ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک دو سال ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کی دلیل یہ آیت ہے اور اس کو پیٹ میں اٹھانا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس ماہ میں تھا۔ (الاحقاف : ١٥)
اور کم از کم حمل کی مدت چھ ماہ ہے تو دودھ چھڑانے کے لئے دو سال بچے اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو سال کے بعد دودھ پلانا (شرعاً معتبر) نہیں ہے۔(سنن بیہقی ج ٧ ص ٤٦٢، الکامل لابن عدی ج ٧ ص ١٠٣)
اور امام ابوحنیفہ (رح) کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا ذکر فرمایا (یعنی حمل کا اور دودھ چھڑانے کا) اور دونوں کی مدت تیس ماہ بیان کی، پس ان میں سے ہر ایک (حمل اور دودھ چھڑانے) کی مدت مکمل تیس ماہ ہے، جیسے دو قرضوں کی مدت بیان کی جائے، لیکن ان میں سے ایک (یعنی حمل) کی مدت اڑھائی سال سے چھ ماہ کم ہونے پر دلیل قائم ہے (اور وہ حضرت عائشہ کی حدیث ہے) تو دوسرے (یعنی دودھ چھڑانے) کی کل مدت اپنے ظاہر پر تیس ماہ رہے گی اور اس لئے بھی کہ غذا کا متغیر ہونا ضروری ہے، تاکہ بچہ کے جسم کی نشو و نما جو دودھ سے ہو رہی تھی وہ غذا کی طرف منتقل ہو سکے اور اتنی مدت گزر جائے گا بچہ کا جسم دوسری غذا کا عادی ہو سکے اس لئے اس کی مدت کا اندازہ دو سال کے بعد کم از کم مدت حمل سے کیا گیا، اس لئے کہ وہ مدت تغیر کرنے والی ہے، کیونکہ پیٹ کے بچہ کی غذا دودھ پیتے بچے کی غذا کے مغائر ہے، جس طرح دودھ پیتے بچے کی غذا روٹی کھانے والے بچے کی غذا کے مغائر ہے اور حدیث میں جو ارشاد ہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانا نہیں ہے، اس کا مطلب ہے دو سال کے بعد دودھ پلانے کا استحقاق نہیں ہے۔ سو یہ مدت استحقاق ہے مدت جواز نہیں ہے اور قرآن مجید میں جو ہے : ” وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ “ (البقرہ : ٢٣٣) اور مائیں مکمل دو سال دودھ پلائیں، یہ دو سال کی مدت بھی بچہ کے استحقاق کی مدت ہے، دودھ پلانے کے جواز کی مدت نہیں ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا :
” فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَاط وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْآ اَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ “ (البقرہ : ٢٣٣)
پھر اگر ماں باپ اپنی رضا مندی اور باہمی مشورہ سے دودھ چھڑانا چاہیں تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں، اور اگر تمہارا ارادہ اپنی اولاد کو دودھ پلوانے کا ہو تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں۔(ہدایہ اوّلین ٣٥٠، موضحاً ، مکتبہ شرکت علمیہ، ملتان)
علامہ محمد بن محمد حصکفی حنفی متوقی ١٠٨٧ ھ لکھتے ہیں :
امام ابوحنیفہ کے نزدیک دودھ پلانے کی انتہائی مدت اڑھائی سال ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک یہ مدت فقط دو سال ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے اور اسی پر فتویٰ ہے (علامہ شامی نے علامہ طحطاوی کے حوالے سے لکھا ہے : ان دونوں قولوں میں سے ہر ایک پر فتویٰ دیا گیا ہے) ۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ آیت ہے : ” َحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًاط “ (الاحقاف : ١٥) یعنی حمل اور دودھ چھڑانے، ان میں سے ہر ایک کی مدت تیس ماہ ہے۔ البتہ حضرت عائشہ کی حدیث کی بناء پر حمل کی مدت سے چھ ماہ کم کئے گئے ہیں، وہ حدیث یہ ہے :
حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حمل کی مدت دو سال سے صرف اتنی زیادہ ہے جتنی مدت میں چرخے کا سایہ پھرتا ہے یعنی بہت کم۔
ایک روایت میں ہے جتنی دیر چرخے کی لکڑی کا سایہ پھرتا ہے۔(سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٣٨١٤۔ ٣٨١٣، سنن بیہقی ج ٧ ص ٤٤٣ )
اور حضرت عائشہ (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سماع کے بغیر اس مدت کو نہیں بیان کرسکتیں اور امام ابو یوسف اور امام محمد نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ اس آیت میں حمل کی کم از کم مدت کا بیان ہے اور وہ چھ ماہ ہے اور دودھ چھڑانے کی زیادہ سے زیادہ مدت کا بیان ہے اور وہ دو سال ہے اور آیت میں دونوں کی مجموعی مدت کا بیان ہے اور وہ تیس ماہ ہے، اور مقلد پر واجب ہے کہ وہ مجتہد کے قول پر عمل کرے خواہ اس کی دلیل ظاہر نہ ہو خواہ مفتی امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دے، خواہ صاحبین کے قول پر فتویٰ دے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ اعتبار قوت دلیل کا ہے۔(الدرالمختار و رد المحتار ج ٤ ص ٢٩٤۔ ٢٩٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)
صدر الشریعۃ مولانا امجد علی متوفی ١٣٧٦ ھ لکھتے ہیں :
بچہ کو دو برس تک دودھ پلایا جائے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں، دودھ پینے والا لڑکا ہو یا لڑکی اور یہ جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ لڑکی کو دو برس تک اور لڑکے کو اڑھائی برس تک دودھ پلا سکتے ہیں یہ صحیح نہیں، یہ حکم دودھ پلانے کا ہے اور نکاح حرام ہونے کے لئے اڑھائی برس کا زمانہ ہے یعنی دو برس کے بعد اگرچہ دودھ پلانا حرام ہے، مگر اڑھائی برس کے اندر اگر دودھ پلا دے گی حرمت نکاح ثابت ہوجائے گی اور اس کے بعد اگر پیا تو حرمت نکاح نہیں اگرچہ پلانا جائز نہیں۔(بہار شریعت حصہ ٧ ص ١٩، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
دودھ پلانے کی انتہائی مدت میں ائمہ ثلاثہ کے مذاہب
قاضی ضیاء الدین ابو عمر و مارانی شافعی الموتفی ٦٠٢ ھ لکھتے ہیں :
ہمارے امام شافعی (رض) ، امام ابو یوسف، امام محمد اور ایک روایت میں امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ بچہ کو دودھ پلانے کی انتہائی مدت سے دو سال ہے اور صحابہ میں سے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ (رض) کا بھی یہی مذہب ہے اور حضرت عائشہ کے علاوہ دیگر امہات المؤمنین کا بھی یہی مذہت ہے اور امام مالک سے ایک روایت یہ ہے کہ اس کی مدت پچیس ماہ ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کی مدت تیس ماہ ہے اور امام زفر کے نزدیک اس کی مدت تین سال یعنی چھتیس ماہ ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے :
” وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَط “ (البقرہ ٢٣٣)
اور مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو سال تک دودھ پلائیں، یہ (مدت) ان کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت کو مکمل کرنے کا ارادہ کریں۔
اور امام بیہقی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ دودھ پلانے کی مدت صرف دو سال ہے۔
(سنن بیہقی ج ٧ ص ٤٦٢ )
اور اسی طرح قرآن مجید میں ہے :
” وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ “ (لقمان : ١٤)
دودھ چھڑانا دو سال میں ہے۔
اور قرآن مجید میں ہے :
” َحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًاط “ (الاحقاف : ١٥)
اور حمل کی مدت اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔
اور بعض صحابہ کا یہ مذہب ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے تو پھر واجب ہے کہ دودھ چھڑانے کی مدت دو سال ہو اور ابن کثیر نے کہا ہے کہ اس آیت سے یہ استنباط کرنا کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے بہت قوی استنباط ہے۔
امام محمد بن اسحٰق نے بعجۃ بن عبد اللہ الجہنی سے روایت کیا ہے کہ ہم میں سے ایک شخص نے جہینہ کی عورت سے نکاح کیا، نکاح کے پورے چھ ماہ بعد اس نے بچہ کو جنم دیا، اس کے شوہر نے حضرت عثمان کے پاس جا کر یہ واقعہ بیان کیا، حضرت عثمان نے اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا، جب حضرت علی کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے حضرت عثمان سے فرمایا : یہ آپ کیا کر رہے ہیں ؟ حضرت عثمان نے کہا : اس نے نکاح کے پورے چھ ماہ بعد بچہ کو جنم دیا ہے کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ حضرت علی نے فرمایا : کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے ! کہا : کیوں نہیں ! حضرت علی نے فرمایا : قرآن میں ہے : ” َحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًاط “ (الاحقاف : ١٥) حمل کی مدت اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے اور دوسری آیت میں فرمایا : ” وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ “ (لقمان : ١٤) دودھ چھڑانا دو سال میں ہے، اور جب تیس ماہ میں سے دودھ چھڑانے کے دو سال نکال لئے تو حمل کی مدت کے لئے چھ ماہ بچے تب حضرت عثمان نے فرمایا : میں اس نکتہ کو پہلے نہیں سمجھا تھا۔
(حافظ سیوطی نے اس واقعہ کو امام ابن المنذر اور امام ابن ابی حاتم سے روایت کیا ہے۔ (الدرالمنثور ج ٧ ص ٣٨٢) اور امام عبدالرزاق نے اس واقعہ کو حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کر کے روایت کیا ہے۔ (مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ١٣٥١٧۔ ١٣٥١٦، طبع جدید، ١٤٢١ ھ) اور امام عبد الرزاق نے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نے نکاح کے چھ ماہ بعد بچہ کو جنم دیا تو حضرت عمر (رض) نے اس عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابن عباس (رض) نے اسی طرح الاحقاف : ١٥ اور لقمان : ١٤ سے استدلال کر کے ثابت کیا کہ حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے تو حضرت عمر (رض) نے اپنے حکم سے رجوع کرلیا اور اس عورت پر حد جاری نہیں کی۔ (مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ١٣٥١٤۔ ١٣٥١٣۔ ج ٧ ص ٢٨٠۔ ٢٧٩، طبع جدید)
اور امام ابوحنیفہ نے یہ کہا ہے کہ الاحقاف : ١٥ میں حمل سے مراد بچے کو پیٹ میں اٹھانا نہیں ہے، کیونکہ اس کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ (سنن دارقطنی رقم الحدیث : ٣٨١٣، سنن بیہقی ج ٧ ص ٤٤٣) بلکہ حمل سے مراد بچہ کو ہاتھ میں یا گود میں اٹھانا ہے یعنی بچہ کو ہاتھ میں اٹھانے اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے۔ اس استدلال پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حمل کی یہ تفسیر خلاف ظاہر ہے اور اس کے معارض حضرت علی اور حضرت ابن عباس (رض) کی احادیث ہیں جنہوں نے تصریح کی ہے کہ حمل سے مراد بچہ کو پیٹ میں اٹھانا ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث نہیں ہے۔(تکملۃ المجوع من شرح المہذب ج ٢٢ ص ١٥٠۔ ١٤٨، ملخصا و موضحا، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٣ ھ)
علامہ موفق الدین عبد اللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :
جس دودھ پلانے سے تحریم ثابت ہوتی ہے اس کی مدت دو سال ہے یہ اکثر اہل علم کا قول ہے۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عمر، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ (رض) کا یہی مذہب ہے اور حضرت عائشہ (رض) کے علاوہ باقی امہات المؤمنین کا بھی یہی مذہب ہے، ائمہ میں شے شعبی، ابن شبرمہ، اوزاعی، شافعی، اسحاق، ابو یوسف، محمد اور ابو یوسف کا بھی یہی مذہب ہے اور امام مالک سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ (المغنی ج ٨ ص ١٤٢، دارالفکر، بیروت، ١٤٠٥ ھ)
چالیس سال کی عمر میں انسان کا اپنی قوت کے کمال کو پہنچ جانا
اس کے بعد فرمایا : حتی کہ جب وہ پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوگیا۔
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت میں اشد (پوری قوت کو پہنچا) کی تفسیر میں اختلاف ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس سے مراد اٹھارہ سال ہے اور اکثر مفسرین نے کہا : اس سے مراد تینتیس (٣٣) سال ہے۔ فراء نے اس پر یہ دلیل قائم کی ہے کہ اٹھارہ کی بہ نسبت تینتیس سال چالیس سال کے زیادہ قریب ہے۔ زجاج نے کہا : تینتیس سال اس لئے راجح ہے کہ اس عمر میں انسان کے بدن کی قوت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ انسان کی عمر کے تین درجات ہیں : (١) عمر کا وہ حصہ جس میں انسان کی رطوبت غریزۃ حرارت غریزۃ سے زیادہ ہوتی ہے اس وقت وہ اپنی ذات میں طول، عرض اور عمق میں زیادتی کے قابل ہوتا ہے اور یہ اس کی نشو و نما کی عمر ہوتی ہے۔ (٢) یہ متوسط مرتبہ ہے اس عمر میں رطوبت غریزہ، حرارت غریزۃ کی حفاظت کے لئے کافی ہوتی ہے اور یہ سن شباب ہے۔ (٣) یہ سن انحطاط ہے اس عمر میں رطوبت غریزہ، حرارت غریزہ کی حفاظت کے لئے ناکافی ہوتی ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاند کا دوران چار ہفتوں میں مکمل ہوتا ہے، ان چار ہفتوں کو انسان کی عمر پر تقسیم کیا تو عمر کے پہلے ہفتہ یعنی پہلے سات سال مکمل ہونے پر اس کا لڑکپن ہوتا ہے اور عمر کے دوسرے ہفتہ یعنی چودہ سال مکمل ہونے پر وہ بالغ ہوتا ہے اور اس وقت وہ احکام شرعیہ کا مکلف کیا جاتا ہے، اس عمر میں اس کی حرارت غریزہ قوی ہوجاتی ہے اور رطوبات کم ہوجاتی ہیں اور علامات بلوغ ظاہر ہونے لگتی ہیں اور عمر کے تیسرے ہفتہ میں جب وہ اکیس سال کا ہوجاتا ہے تو اس کی قوت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے اور اس کی ڈاڑھی آجاتی ہے اور عمر کے چوتھے ہفتہ میں اس کی قویٰ اور بڑھ جاتی ہے اور اپنے کمال کو پہنچتی ہیں اور جب اس کی عمر کا پانچواں ہفتہ مکمل ہوتا ہے اور وہ پینتیس (٣٥) سال ہوجاتا ہے تو اس کا شباب اپنے تمام و کمال کو پہنچ چکا ہوتا ہے اس کی نشو و نما رک جاتی ہے اور اس کی قوتوں میں مزید اضافہ نہیں ہوتا اور بعض مزاجوں کے اختلاف سے کبھی اس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے اور کبھی کمی ہوتی ہے اس لئے قوت میں اضافہ کی غایت چالیس سال مقرر کردی گئی اور یہی عمر کا وہ حصہ ہے جس میں انسان شرعی اور طبعی طور سے اپنے تمام اور کمال کو پہنچ جاتا ہے اور یہ اس کے شباب کی آخری حد ہے اور چالیس سال کی عمر کے بعد انسان کا جسم گھٹنے لگتا ہے اور اس کی قوتوں کا زوال شروع ہوجاتا ہے اور ہم نے جو یہ تقریر کی ہے اس کی تائید قرآن مجید کی اس آیت میں ہے، کیونکہ اس میں فرمایا ہے : ” حتیٰ کہ جب وہ پوری قوت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا “۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو معمر شخص اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنون، جذام اور برص سے محفوظ کردیتا ہے اور جب وہ پچاس سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس سے حساب آسان کردیتا ہے، اور جب وہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے اور جب اس کی عمر ستر سال کی ہوجائے تو اللہ اس سے محبت کرتا ہے اور آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں اور جب اس کی عمر اسی سال کی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کو برقرار رکھتا ہے اور اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور جب اس کی عمر نوے سال کی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے اور پچھلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اس کو اس کے گھر والوں کے حق میں شفاعت کرنے والا بنا دیتا ہے اور آسمان میں لکھ دیا جاتا ہے کہ وہ زمین میں اللہ کا قیدی ہے۔
(مسند احمد ج ٣ ص ٢١٨ طبع قدیم، مسند احمد ج ٢١ ص ١٢۔ رقم الحدیث : ١٣٢٧٩، مؤسسۃ السالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
اس حدیث کی سند بہت ضعیف ہے، حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کو حضرت عثمان بن عفان (رض) سے روایت کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی متعدد اسانید ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٧١، دارالفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ، مسند احمد ج ٢ ص ٨٩، کنز العمال رقم الحدیث : ٤٢٦٦٢، القول المسدد ص ٨۔ ٧)
چالیس سال کی عمر پوری ہونے کے بعد نبی کا مبعوث ہونا
علامہ علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :
زید بن اسلم نے کہا : اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو مبعوث نہیں کیا حتیٰ کہ وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا۔
(النکت و العیون ج ٥ ص ٢٧٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
امام علی بن احمد واحدی متوفی ٤٦٨ ھ نے کہا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر چالیس سال کی ہوگئی تو آپ کو نبی بنایا گیا۔ (الوسیط ج ٤ ص ١٠٧)
امام الحسین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :
جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چالیس سال کو پہنچ گئے تو آپ کو نبی بنایا گیا۔
(معالم التنزیل ج ٤ ص ١٩٥، دارالحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
مفسرین نے کہا ہے کہ جس نبی کو بھی مبعوث کیا گیا ہے تو اس کو چالیس سال کے بعد مبعوث کیا گیا ہے، میں کہتا ہوں کہ اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اشکال ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی عمر کے اول میں ہی نبی بنادیا تھا، مگر اس کا جواب یہ ہے کہ اغلب یہ ہے کہ ان پر وحی آنے کا سلسلہ چالیس سال کے بعد شروع ہوا ہو اور ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں بھی معاملہ اسی طرح ہوا تھا۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ١٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی بنایا گیا تو آپ کی عمر چالیس سال تھی۔
(الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٨١، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
قاضی عبد اللہ بن عمر البیضاوی المتوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں :
ایک قول یہ ہے کہ جس کو بھی نبی بنایا گیا ہے چالیس سال کے بعد نبی بنایا گیا ہے۔
(تفسیر البیضاوی مع الخفا جی ج ٨ ص ٤٧٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٧ ھ)
علامہ علی بن محمد خازن متوفی ٧٢٥ ھ لکھتے ہیں :
جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر چالیس سال کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر نبوت کا اکرام کیا اور آپ کو رسالت کے ساتھ خاص کرلیا۔ (تفسیر خازن ج ٤ ص ١٢٥، مطبوعہ دارالکتب العربیہ، پشاور)
علامہ ابراہیم بن عمر البقاعی المتوفی ٨٨٥ ھ لکھتے ہیں :
اسی وجہ سے چالیس سال کی عمر انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت کا وقت ہے۔ (نظم الدررج ٧ ص ١٢٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ محمد بن مصلح الدین القوجوی الحنفی المتوفی ٩٥١ ھ لکھتے ہیں :
علامہ بیضاوی نے کہا ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بد مبعوث کیا جاتا ہے اس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اشکال ہوتا ہے کہ ان کو بچپن کی ابتداء ہی میں نبی بنادیا گیا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ اغلب یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) پر وحی چالیس سال کے بعد کی جاتی ہے، ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھی اسی طرح ہوا تھا۔
(حاشیہ شیخ زادہ علی البیضاوی ج ٧ ص ٥٩٩، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
قاضی ابو السعود محمد بن محمد الحنفی المتوفی ٩٨٢ ھ لکھتے ہیں :
کہا گیا ہے کہ کسی نبی کو چالیس سال سے پہلے مبعوث نہیں کیا جاتا۔ (تفسیر ابو السعود ج ٦ ص ٧٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ لکھتے ہیں :
کہا گیا ہے کہ کسی نبی کو چالیس سال سے پہلے مبعوث نہیں کیا گیا اس پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ سے اعتراض ہوتا ہے کیونکہ ان کو چالیس سال سے پہلے مبعوث کیا گیا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غالب اور اکثری قاعدہ ہے، کلیہ نہیں ہے۔
(روح البیان ج ٨ ص ٦٣٩، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
ایک جماعت نے یہ تصریح کی ہے کہ اعم اور اغلب یہ ہے کہ نبی کو چالیس سال کے بعد مبعوث کیا جاتا ہے جیسا کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے واقع ہوا۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ٣٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
صدرالافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ لکھتے ہیں :
جب سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر شریف چالیس سال کی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت و رسالت کے ساتھ سرفراز فرمایا۔ (خزائن العرفان علی ہامش کنز الایمان ص ٨٠١، تاج کمپنی لمیٹڈ)
بعثت سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی نبوت اور رسالت کا علم تھا اس پر دلائل
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی ؟ آپ نے فرمایا : اس وقت جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٠٩)
حافظ ابوبکر محمد بن عبد اللہ ابن العربی مالکی متوفی ٥٤٣ ھ لکھتے ہیں :
اللہ سبحانہ ٗ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کئی وجوہ سے نبوت کو واجب فرمایا : (١) آپ کی نبوت اس لئے واجب ہے کہ اللہ کے علم میں تھا کہ آپ نبی ہیں جیسا کہ ہر چیز کا وجود اللہ تعالیٰ کے علم سے واجب ہے اور آپ کی نبوت اس وقت واجب ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا : لکھ، تو اس نے قیامت تک ہونے والی ہر چیز کو لکھا، سو اس میں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آپ کی صفات کریمہ اور آپ کے حلیہ شریفہ کے ساتھ ذکر تھا اور آپ کے لئے نبوت اس وقت واجب ہوئی جب حضرت آدم (علیہ السلام) کا پتلا بنا کر زمین پر رکھا گیا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے وقت آپ کی نبوت کے وجوب کے ذکر میں یہ حکمت ہے کہ حضرت آدم کی تخلیق سے پہلے آپ کی نبوت قول میں تھی، فعل میں نہیں تھی اور جب حضرت آدم کی تخلیق ہوئی تو آپ کی نبوت بالفعل ہوگئی کیونکہ اصل کی تخلیق فرع کی تخلیق ہے، خصوصاً جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی تمام اولاد کو ان کی پشت سے نکالا گیا تو وہ سب زندہ موجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنی ربوبیت پر شاہد بنایا (اور ان میں آپ بھی اپنے وصف نبوت کے ساتھ موجود تھے) ۔ (عارضۃ الاحوذی ج ٧ جز ١٣ ص ٨٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)
حضرت عرباض بن ساریہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت بھی اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا جب حضرت آدم (علیہ السلام) اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔
(شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٦٢٦، مسند احمد ج ٤ ص ١٢٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٩٣، المستدرک ج ٢ ص ٦٠٠)
عالم ارواح میں آپ کی نبوت کا معنی
شیخ عبد الحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس جگہ یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت جو تخلیق آدم سے پہلے تھی اس سے کیا مراد ہے ؟ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ آپ اللہ سبحانہٗ کے علم میں اس وقت نبی تھے تو اس پر یہ اشکال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تو اس وقت تمام انبیاء (علیہم السلام) نبی تھے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ آپ اس وقت بالفعل نبی تھے تو آپ کا بالفعل نبی ہونا تو دنیا میں تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کے وجود عنصری سے پہلے آپ کی نبوت کا فرشتوں اور روحوں میں اظہار ہے، جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ آپ کا اسم شریف عرش پر، آسمان پر، جنت کے محلات اور بالا خانوں پر، حورانِ بہشت کے سینوں پر، درختوں کے پتوں پر، جنت کے درختوں پر اور فرشتوں کی بھوئوں اور آنکھوں پر لکھا ہوا تھا اور بعض عارفین نے کہا ہے کہ اس وقت آپ کی روح شریف نبی تھی اور عالم ارواح میں روحوں کی تربیت کر رہی تھی جیسا کہ اس عالم عنصری میں آپ کا جسم شریف اجسام کی تربیت کر رہا ہے اور یہ چیز ثابت ہے کہ ارواح کو اجسام سے پہلے پیدا کیا گیا ہے۔
(اشعۃ اللمعات ج ٤ ص ٤٧٥۔ ٤٧٤، مطبع تیج کمار، لکھنؤ )
بعث سے پہلے آپ کو اپنی نبوت کا علم ہونے کی تحقیق
اب ایک یہ بحث رہتی ہے کہ چالیس سال کی عمر میں آپ کو مبعوث کیا گیا یعنی اعلان نبوت کا حکم دیا گیا تو اس سے پہلے بھی آپ نبی تھے یا نہیں اور آپ کو اپنی نبوت کا علم تھا یا نہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ اس سے پہلے بھی نبی تھے اور آپ کو اپنی نبوت کا علم تھا۔ امام مسلم اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسولوں اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں مکہ کے ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت (اعلان نبوت) سے پہلے مجھ پر سلام عرض کیا کرتا تھا میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٧٧، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ١٥٣ )
اس صحیح حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعثت سے پہلے اپنے نبی بنائے جانے کا علم تھا اور آپ نے بعثت سے پہلے ابو طالب کے ساتھ شام کا جو سفر کیا تھا، اس میں بھی یہ تصریح ہے کہ راہب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ سیدالعلمین ہیں، یہ رسول رب العلمین ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ رحمۃ للعلمین بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٢٠) عنقریب ہم اس حدیث کو متعدد حوالوں کے ساتھ نقل کریں گے۔
حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مکہ میں ایک پتھر تھا جو ان راتوں میں مجھ پر سلام پیش کیا کرتا تھا جن میں مجھ کو مبعوث کیا گیا میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٢٤، مسند ابودائود الطیالسی رقم الحدیث : ١٩٠٧، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٤٦٤، مسند احمد ج ٥ ص ١٠٥۔ ٨٩، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٠، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٧٤٦٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤٨٢، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٩٠٧، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٠٣٣، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ١٦٧، دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث : ٣٠٠، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ١٥٣، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٧٠٩)
اور جب آپ کی بعثت سے پہلے پتھروں کو آپ کی نبوت کا علم تھا تو آپ کو بعثت سے پہلے اپنی نبوت کا علم کیوں نہیں ہوگا ؟
اس پر سید مودودی نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر آپ کو پہلے سے یہ علم تھا کہ آپ نبی ہیں تو غار حراء میں جب حضرت جبریل آپ کے پاس پہلی وحی لے کر آئے تو آپ پر اس قدر خوف اور گھبراہٹ کیوں طاری ہوئی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ آپ پر اب نبوت کی ذمہ داری بالفعل ڈال دی گئی تھی، اس وجہ سے فطری طور پر آپ کو یہ خوف ہوا کہ کہیں فرائض نبوت کی ادائیگی میں مجھ سے کوئی تقصیر نہ ہوجائے۔ جیسے جب کسی انسان کو ابتداء ً کوئی اہم اور بڑی ذمہ داری سپرد کردی جائے تو اس کو خوف ہوتا ہے اور وہ گھبراتا ہے، سو ایسا ہی خوف اور گھبراہٹ آپ پر طاری تھی۔
الاحقاف : ١٥ میں حضرت ابوبکر (رض) کی منفرد فضیلت اور خصوصیت
اس آیت میں فرمایا ہے : اور جب وہ (انسان) اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کا ہوگیا تو کہا : اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہے اور میں ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو اور تو میری اولاد میں بھی نیکی رکھ دے، بیشک میں نے تیری طرف رجوع کیا اور بیشک میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں
بہ کثرت مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت میں انسان کا مصداق حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں اور اس آیت میں ان کی فضیلت بیان کی گئی ہے کیونکہ اس آیت میں اس انسان کی فضیلت بیان فرمائی ہے جس نے چالیس سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کیا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) اڑتیس سال کی عمر میں اسلام لائے تھے جو چالیس سال کے قریب ہیں اور اس آیت میں جس انسان کا ذکر فرمایا ہے اس کے ماں باپ دونوں مسلمان تھے اور عہد رسالت میں صرف ابوبکر واحد انسان تھے جن کے ماں باپ دونوں مسلمان تھے اور اس آیت میں جس انسان کا ذکر ہے اس نے اپنی اولاد کے لئے نیکی کی دعا کی ہے اور تمام اصحاب میں صرف حضرت ابوبکر ایسے تھے کہ عہد رسالت میں ان کا بیٹا بھی مسلمان تھا اور ان کا پوتا بھی مسلمان تھا، اس لئے یہ اوصاف حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے سوا اور کسی میں متحقق نہیں ہیں، حضرت علی بچپن میں اسلام لائے تھے، ان کے والد یعنی ابو طالب اسلام نہیں لائے اور ان کے بیٹے تو صحابی تھے، ان کے پوتے صحابی نہیں تھے، سو یہ آیت صرف حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت میں ہے اور ان کی ایسی خصوصیت ہے جس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے۔
امام ابو الحسن علی بن احمد الواحدی النیشاپوری المتوفی ٤٦٨ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) نے روایت کیا ہے کہ اس سے مراد حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں، ان کا حمل اور ان کا دودھ چھوٹنا اسی مدت میں تھا اور یہ پوری آیت ان ہی کے متعلق ہے اور اس سے بعینہ حضرت ابوبکر صدیق مراد ہیں۔ عطاء نے کہا : اس آیت میں ہے : ” حتی اذا بلغ اشدہ “ حتیٰ کہ جب وہ اپنی قوت کو پہنچ گیا اس سے مراد ان کی عمر کے اٹھارہ سال ہیں اور اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر بیس سال تھی جب آپ تجارت کے لئے شام کے علاقے میں گئے اور حضرت ابوبکر سفر اور حضر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جدا نہیں ہوتے تھے۔ پس جب حضرت ابوبکر کی عمر چالیس سال کی ہوگئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا کردی گئی تو حضرت ابوبکر نے اپنے رب سے دعا کی : اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہے، یعنی تو نے مجھے ہدایت دی اور ایمان لانے کی توفیق دی حتیٰ توفیق دی حتیٰ کہ میں تیرا شرک نہ کروں اور میرے باپ ابوقحافہ عثمان بن عمر اور میری ماں ام الخیربنت صخر بن عمر پر بھی یہ انعام کیا کہ وہ بھی ایمان اور اسلام کی دولت سے سرفراز ہوگئے اور حضرت علی بن ابی طالب (رض) نے کہا : اس آیت سے حضرت ابوبکر (رض) مراد ہیں، ان کے ماں باپ دونوں نے اسلام قبول کیا اور صحابہ میں سے کسی کے ماں باپ دونوں مسلمان نہیں ہوئے اور انہوں نے دعا کی : اور میں ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو، حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حضرت ابوبکر نے ان متعدد غلاموں کو خرید کر آزاد کیا جو مسلمان ہوچکے تھے اور اسلام لانے کی وجہ سے ان کو عذاب دیا جا رہا تھا۔
(حافظ علی بن الحسن ابن عساکر المتوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں : حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے ان سات غلاموں اور باندیوں کو خرید کر آزاد کیا، جن کو اسلام لانے کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا تھا، حضرت بلال، حضرت عامر بن فہیرہ، زنیرہ، ام عبس، ہندیہ اور ان کی بیٹی اور بنی عمرو بن مومل کی باندی۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٣٢ ص ٤٦، بیروت)
نیز امام واحدی لکھتے ہیں : اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کی اولاد کے متعلق ان کی دعا قبول فرمائی، انہوں نے دعا کی تھی : اور میری اولاد میں بھی نیکی رکھ دے، پس ان کی اولاد، ان کی والدہ اور ان کے والد سب ایمان لے آئے۔ امام واحدی اپنی سند کے ساتھ موسیٰ بن عقبہ سے روایت کرتے ہیں : حضرت ابوبکر خود بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایمان لائے، ان کے والد حضرت ابوقحافہ بھی آپ کے عہد میں ایمان لائے، ان کے بیٹے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر بھی آپ کے عہد میں مسلمان ہوئے اور ان کے پوتے ابوعتیق بن عبد الرحمن بن ابوبکر بھی آپ کے عہد میں اسلام لائے۔ امام بخاری نے کہا : ابو عتیق نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پایا اور وہ عبدالرحمان بن ابی بکر کے بیٹے ہیں۔
علامہ علی بن محمد الجزری ابن الاثیر متوفی ٦٣٠ ھ لکھتے ہیں : صحابہ میں صرف چار شخص نسل بعد نسل مسلمان ہوئے اور انہوں نے شرف صحابیت پایا : حضرت ابوقحافہ، ان کے بیٹے حضرت ابوبکر اور ان کے بیٹے حضرت عبد الرحمن بن ابوبکر اور ان کے بیٹے محمد بن عبد الرحمن ابوعتیق۔ (اسد الغابہ ج ٣ ص ٤٦٢۔ رقم الحدیث : ٣٣٤٤) لہٰذا تمام صحابہ میں صرف حضرت ابوبکر (رض) کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ خود بھی صحابی ہیں، ان کے والد بھی صحابی ہیں، ان کے بیٹے بھی صحابی ہیں اور ان کے پوتے بھی صحابی ہیں اور ان کی چار نسلوں میں صحابیت ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس انسان (یعنی حضرت ابوبکر) نے کہا : بیشک میں نے تیری طرف رجوع کیا اور بیشک میں اطاعت گزاروں میں سے ہوں۔
حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا : میں نے ہر اس کام کی طرف رجوع کیا جس کو تو پسند فرماتا ہے اور میں نے اپنے دل اور زبان سے تیری اطاعت کی۔ (الوسیط ج ٤ ص ١٠٨، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
دیگر مستند مفسرین نے بھی اسی طرح لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی فضیلت کے بیان میں نازل ہوئی ہے :
(١) علامہ محمود بن عمر زمخشری خوارزمی متوفی ٥٣٨ ھ لکھتے ہیں :
یہ آیت حضرت ابوبکر (رض) ، ان کے والد ابوقحافہ، ان کی والدہ ام الخیر اور ان کی اولاد کے متعلق نازل ہوئی ہے اور ان کی دعا کے مقبول ہونے کے بیان میں ہے اور مہاجرین اور انصار میں کوئی صحابی ایسا نہیں تھا جو خود بھی اسلام لایا ہو، اس کے والدین بھی اسلام لائے ہوں اور اس کے بیٹے اور بیٹیاں بھی اسلام لائے ہوں، ماسوا حضرت ابوبکر (رض) کے۔
(الکشاف ج ٤ ص ٣٠٧۔ ٣٠٦، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٧ ھ)
(٢) امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : حضرت ابوبکر (رض) کے سوا صحابہ میں سے کسی کے لئے بھی یہ اتفاق نہیں ہوا کہ اس کے والدین بھی اسلام لائے ہوں اور ان کی تمام اولاد بھی اسلام لائی ہو خواہ مذکر ہو یا مؤنث۔
(تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٢٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
(٣) علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے کہ شام کے سفر میں حضرت ابوبکر، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی اور وہاں راہب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کہا تھا : یہ محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب ہیں اور اللہ کی قسم ! یہ نبی ہیں۔ اس وقت سے حضرت ابوبکر کے دل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق تھی، حتیٰ کہ اس واقعہ کے بیس سال بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی بنادیا گیا۔ (الیٰ قولہ) حضرت علی (رض) نے فرمایا : یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق کے متعلق نازل ہوئی ہے، ان کے ماں باپ دونوں اسلام لائے اور حضرت ابوبکر کے سوا مہاجرین میں سے کسی کے ماں باپ دونوں اسلام نہیں لائے، اس آیت میں ذکر ہے کہ حضرت ابوبکر نے دعا کی : اور میں ایسے نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو، ان کی یہ دعا قبول ہوئی، انہوں نے نو غلام آزاد کئے جن میں حضرت بلال اور عامر بن فہیرہ بھی تھے اور ہر نیک کام میں اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی، صحیح حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا : تم میں سے آج کون شخص روزہ دار ہے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا : میں ہوں، آپ نے پوچھا : آج تم میں سے کون شخص جنازہ کے ساتھ گیا تھا ؟ حضرت ابوبکر نے کہا : میں، آپ نے پوچھا : آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا : میں نے، آپ نے پوچھا : آج تم میں سے کس شخص نے مریض کی عیادت کی ہے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا : میں نے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص میں بھی یہ اوصاف جمع ہوں گے وہ جنتی ہوگا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٢٨ )
حضرت ابن عباس (رض) کے سوا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے کوئی ایسا شخص نہیں جو خود بھی ایمان لایا ہو، اس کے ماں باپ بھی ایمان لائے ہوں اور اس کے تمام بیٹے اور بیٹیاں بھی ایمان لائی ہوں۔
(الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٨٢۔ ١٨١، ملخصاً ، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
(٤) قاضی عبد اللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں :
یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے اور ان کے سوا مہاجرین اور انصار میں سے کوئی بھی ایسا صحابی نہیں ہے جو خود بھی اسلام لایا ہو اور اس کے ماں باپ بھی اسلام لائے ہوں۔
(تفسیر البیضاوی مع الکازرونی ج ٥ ص ١٨٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٦ ھ)
حسب ذیل مفسرین نے بھی اسی طرح لکھا ہے :
(٥) امام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ۔ (الکشف و البیان ج ٩ ص ١٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٢ ھ)
(٦) امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ١٩٥، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
(٧) امام عبد الرحمان بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی ٥٩٧ ھ۔ (زاد المسیر ج ٧ ص ٣٧٦۔ ٣٧٥، مکتب اسلامی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)
(٨) علامہ ابوالبرکات احمد بن محمد نسفی حنفی متوفی ٧١٠ ھ۔ (مدارک علی ھامش الخازن ج ٤ ص ١٢٦، دارالکتب العربیہ، پشاور)
(٩) علامہ علی بن محمد خازن شافعی متوفی ٧٢٥ ھ۔ (لباب التاویل ج ٤ ص ١٣١۔ ١٣٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
(١٠) علامہ نظام الدین حسین بن محمد قمی متوفی ٧٢٨ ھ۔ (غرائب القرآن ور غائب الفرقان ج ٦ ص ١٢١، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤٠٩ ھ)
(١١) حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ۔ (جلالین ص ٥٠٤، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
(١٢) شیخ سلیمان بن عمر الجمل المتوفی ١٢٠٤ ھ۔ (الفتوحات الالٰہیہ ج ٤ ص ١٢٩، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
(١٣) علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی متوفی ١٢٢٣ ھ۔ (تفسیر صاوی ج ٥ ص ١٩٣٧، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ)
(١٤) علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :
یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے متعلق نازل ہوئی ہے کیونکہ مہاجرین اور انصار میں سے حضرت ابوبکر کے سوا کوئی صحابی ایسا نہیں تھا جو خود بھی اسلام لایا ہو اور اس کے والدین بھی اسلام لائے ہوں۔ امام واحدی نے بیان کیا ہے کہ ان کی عمر اٹھارہ سال تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر بیس سال تھی جب وہ تجارت کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شام گئے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیکر کے ایک درخت کے نیچے بیٹھے۔ راہب نے کہا : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اس درخت کے سائے میں آپ کے سوا کوئی نہیں بیٹھا، تب حضرت ابوبکر کے دل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق بیٹھ گئی اور وہ کبھی سفر اور حضر میں آپ سے جدا نہیں ہوئے اور جب حضرت ابوبکر کی عمر ٣٨ سال تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر ٤٠ سال تھی تو آپ کو نبی بنادیا گیا۔
(روح المعانی جز ٢٦ ص ٣٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
شام کے سفر کے متعلق حدیث ترمذی
مفسرین کی عبارات میں شام کے تجارتی سفر کا ذکر آیا ہے، اس کے متعلق یہ حدیث ہے :
حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابو طالب شام کی طرف گئے، ان کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش کے شیوخ تھے، جب وہ ایک راہب کے پاس پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے اور انہوں نے اپنا سامان سفر کھول دیا، ان کے پاس وہ راہب آیا، اس سے پہلے وہ وہاں سے گزرتے تھے تو وہ راہب ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ ابھی وہ اپنا سامان کھول رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان آیا اور اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ پکڑ کر کہا : یہ سید العلمین ہے، یہ رسول رب العلمین ہے، ان کو اللہ رحمۃ للعالمین بنا کر مبعوث فرمائے گا، قریش کے شیوخ نے راہب سے کہا : تمہیں اس بات کا کیسے علم ہوا ؟ راہب نے کہا : جب تم گھاٹی سے اترے تھے تو ہر پتھر اور درخت سجدہ میں گرگیا تھا اور وہ نبی کے علاوہ اور کسی کو سجدہ نہیں کرتے اور میں ان کو مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو ان کے کندھے کے پٹھے کے نیچے سیب کی طرح ابھری ہوئی ہے، پھر وہ لوٹ گیا اور ان سب کے لئے کھانا بنا کر لایا، پھر جب وہ ان کے پاس پہنچا تو وہ اونٹوں کو چرا رہے تھے، اس نے کہا : ان کو بلائو، آپ آئے اور اس وقت بادل آپ کا سایہ کر رہا تھا جب آپ لوگوں کے پاس پہنچے تو سب لوگ درخت کے سائے میں پہلے ہی بیٹھ چکے تھے، جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ کی طرف مڑ گیا، جب راہب لوگوں کے پاس کھڑا تھا تو وہ ان سے کہنے لگا : ان کو روم کی طرف نہ لے جانا، کیونکہ اگر رومیوں نے ان کو دیکھ لیا تو ان کی صفت سے ان کو پہچان کر قتل کردیں گے، پھر اس نے دیکھا تو سات رومی ان کے سامنے آگئے، اس نے کہا : تم کیوں آئے ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم کو معلوم ہوا کہ وہ نبی اس مہینہ آنے والا ہے اور ہم نے ہر راستہ میں اس کی تلاش میں لوگوں کو مامور کردیا ہے اور ہم کو معلوم ہوا ہے کہ وہ اس راستہ میں آنے والا ہے، راہب نے کہا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کام کو کرنا چاہتا ہو، کیا اس کو کوئی شخص رد کرسکتا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں، پھر انہوں نے آپ کی بیعت کی اور وہاں پر ٹھہر گئے۔ پھر انہوں نے کہا : میں تم لوگوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں بتائو ان کا ولی کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابو طالب ہیں، پھر وہ راہب ان سے باتیں کرتا رہا، حتیٰ کہ ابو طالب نے اس کو واپس بھیج دیا اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر اور حضرت بلال کو بھی بھیج دیا اور روٹی اور زیتون بہ طور زادراہ دی۔ امام ترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٢٠، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٤٧٩، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٢٤ )
حدیث ترمذی پر علامہ ذہبی کی تنقید
حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی متوفی ٧٤٨ ھ اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ حدیث سخت منکر ہے اور اس وقت حضرت بلال (رض) کہاں تھے ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد خریدا تھا اور اس وقت تو حضرت بلال پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور جب بادل آپ پر سایہ کر رہا تھا تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ درخت کا سایہ آپ کی طرف مڑ گیا ہو کیونکہ بادل کے سایے کی وجہ سے درخت کا سایہ معدوم ہوجاتا ہے جو اس کے نیچے تھا اور ہم نے نہیں دیکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کبھی ابو طالب کو راہب کے قول کا حوالہ دیا ہو اور نہ کبھی قریش نے ابو طالب سے اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی قریش کے شیوخ نے اس کا ذکر کیا، حالانکہ راہب کے قول کو نقل کرنے کے لئے ان کے پاس بہت ذرائع تھے، اگر یہ واقعہ ہوا ہوتا تو یہ ان کے درمیان مشہور ہوجاتا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی نبوت کا احساس ہوجاتا اور پھر جب آپ کے پاس غار حرا میں پہلی وحی آئی تھی تو وہ آپ کو اس قدر عجیب و غریب نہ معلوم ہوتی اور آپ حضرت خدیجہ کے پاس اس قدرگھبرائے ہوئے نہ آتے اور وحی نہ آنے پر اپنے آپ کو پہاڑ سے گرانے کا ارادہ نہ کرتے، نیز اگر ابو طالب کو شام کے رومیوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر خطرہ ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ حضرت خدیجہ کے تجارتی سفر کے لئے آپ کو شام کی طرف لے جاتے ؟ (سیر اعلام النبلاء ج ١ ص ٤٩۔ ٤٨، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
بحیریٰ راہب کا واقعہ کتب سیرت میں
اس کے بعد علامہ ذہبی نے متعدد کتاب سیرت کے حوالوں سے اس واقعہ کا بیان کیا ہے اور اس واقعہ پر علامہ ذہبی کے مذکور الصدر اعتراضات وارد نہیں ہوتے، علامہ ذہبی لکھتے ہیں :
امام ابن اسحاق نے ” السیرۃ النبویہ “ میں کہا ہے کہ ابو طالب شام کی طرف تجارتی سفر میں گئے اور ان کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تھے اور اس وقت آپ کم عمر تھے، جب وہ لوگ مقام بصریٰ پر ٹھہرے تو بحیرا راہب اپنے گرجے میں گیا اور وہ نصرانیت کا بڑا عالم تھا، بحیرا نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا، ان لوگوں پر بادل سایہ کر رہا تھا، ابو طالب ایک درخت کے سائے میں ٹھہر گئے، بحیرا نے ان لوگوں کو کھانے کی دعوت دی اور کہا : آپ لوگ ہمارے مہمان ہیں، کھانے کے وقت قریش نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کم عمر ہونے کی وجہ سے ساتھ نہیں لے گئے، بحیرا نے آپ کو بلوایا، بحیرا آپ کو غور سے دیکھتا رہا، اور تنہائی میں اس نے آپ سے کہا : میں تم کو لات اور عزیٰ کی قسم دیتا ہوں کہ میں تم سے جو بھی سوال کروں تم اس کا جواب دینا، آپ نے اس سے فرمایا : تم مجھے لات اور عزیٰ کی قسم نہ دو ، میں سب سے زیادہ ان سے بغض رکھتا ہوں، پھر اس نے آپ سے آپ کے احوال کے متعلق متعدد اشیاء پوچھیں اور اس کو آپ کی صفات کے متعلق جو علم تھا وہ اس کے موافق تھیں، پھر اس نے آپ کی مہر نبوت دیکھی، پھر اس نے ابو طالب سے پوچھا : ان کا تم سے کیا رشتہ ہے ؟ ابو طالب نے کہا : وہ میرے بیٹے ہیں، اس نے کہا : ان کے باپ تو زندہ نہیں ہونے چاہئیں، تب ابو طالب نے کہا : وہ میرے بھتیجے ہیں، اس نے کہا ،: اب تم واپس چلے جائو اور یہودیوں سے ان کی حفاظت کرنا۔ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج ١ ص ٩٧۔ ٩٦، ملخصاً ، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ، السیرۃ النبویہ لابن ہشام ج ١ ص ٢١٨۔ ٢١٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ، البدایہ والنہایہ ج ٢ ص ٢٤٤۔ ٢٤٣، دارالفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ) (سیر اعلام النبلاء ج ١ ص ٥١۔ ٤٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
احسن اعمال پر ایک اشکال کا جواب
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک کاموں کو ہم قبول فرماتے ہیں، اور جن کی لغزشوں سے ہم درگزر کرتے ہیں، (یہ) جنتی لوگوں میں سے ہیں، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو ان سے کیا جاتا تھا۔
اس آیت میں فرمایا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جن کے احسن کاموں کو ہم قبول فرماتے ہیں اور احسن اسم تفضیل کا صیغہ ہے، اس کا معنی ہے : زیادہ اچھے اور زیادہ نیک کام۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے زیادہ اچھے اور زیادہ نیک کام مقبول ہوتے ہیں اور جو کافی نفسہ اچھے اور نیک ہوں وہ قبول نہیں ہوتے، اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات احسن، حسن کے معنی میں ہوتا ہے یعنی ان کے اچھے اور نیک کام مقبول ہوتے ہیں، جیسا کہ مذکورذیل آیت میں بھی احسن، حسن کے معنی میں ہے :
” وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَـآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ “ (الزمر : ٥٥ )
اور اس بہترین چیز کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔
اس آیت میں بھی احسن کا لفظ ہے اور اس کا ظاہر معنی یہ ہے : جو سب سے اچھے احکام تمہاری طرف نازل کئے گئے ہیں حالانکہ اللہ کی طرف سے جو بھی احکام نازل کئے گئے ہیں وہ سب اچھے ہیں۔ لہٰذا اس آیت میں احسن کا معنی صحیح ہے۔ امام رازی نے فرمایا : اس آیت میں اسم تفضیل زیادتی کے معنی سے مجرد ہے جیسے ضرب المثل ہے : ” الناقص “ (ٹنڈا یا لنگڑا) اور ” اشج “ (جس کے سر پر چوٹ لگی ہو اس سے مراد عمر بن عبد العزیز ہیں) بنو مروان میں اعدل ہیں، یعنی بنو مروان میں سب سے زیادہ عدل کرنے والے ہیں، حالانکہ بنو مروان میں عادل لوگ نہیں تھے سب ظالم تھے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں اسم تفضیل میں زیادتی کا معنی نہیں ہے اور اعدل کا لفظ عادل کے معنی میں ہے۔
الاحقاف : ١٥ میں حضرت ابوبکر کی فضیلت پر ایک اعتراض کا جواب
اس آیت پر ایک اور اعتراض یہ ہے کہ اس آیت میں جمع کے صیغہ کے ساتھ فرمایا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جن کے نیک کاموں کو ہم قبول فرماتے ہیں اور اس سے اشارہ پہلی آیت میں مذکور ” ووصینا الانسان “ کی طرف ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں انسان سے مراد عام مسلمان ہیں جو چالیس سال کی عمر کو پہنچ کر یہ دعا کریں کہ اے اللہ ! مجھے اپنی ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی توفیق دے جو تو نے مجھ کو اور میرے والدین کو عطا فرمائی ہیں اور میری اولاد کو بھی نیکی عطا فرما اور یہ آیت خصوصیت کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے متعلق نازل نہیں ہوئی۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہم قوی دلائل کے ساتھ ثابت کرچکے ہیں کہ یہ آیت صرف حضرت ابوبکر (رض) کے متعلق نازل ہوئی اور کسی شخص پر یہ آیت صادق نہیں آتی اور اس کے بعد والی زیر تفسیر آیت میں جو جمع کے صیغے ہیں وہ اس کے منافی نہیں ہیں اور اس کا معنی یہ ہے کہ جو لوگ بھی حضرت ابوبکر کی سیرت پر عمل کرتے یا کریں گے ہم ان کے نیک کاموں کو قبول فرمائیں گے اور ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائیں گے۔
الہ العٰلمین ! میرے بھی نیک کاموں کو قبول فرما اور میری لغزشوں سے درگزر فرما۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 15
[…] تفسیر […]