أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيَوۡمَ يُعۡرَضُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا عَلَى النَّارِ ؕ اَذۡهَبۡتُمۡ طَيِّبٰـتِكُمۡ فِىۡ حَيَاتِكُمُ الدُّنۡيَا وَاسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِهَا ‌ۚ فَالۡيَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡهُوۡنِ بِمَا كُنۡـتُمۡ تَسۡتَكۡبِرُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ بِغَيۡرِ الۡحَقِّ وَبِمَا كُنۡتُمۡ تَفۡسُقُوۡنَ۞

ترجمہ:

اور جس دن کفار کو دوزخ میں جھونک دیا جائے گا (تو ان سے کہا جائے گا) تم اپنی لذیذ چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو، پس آج تم کو ذلت والا عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم زمین میں ناحق میں ناحق تکبر کرتے تھے اور کیونکہ تم نافرمانی کرتے تھے ؏

تفسیر:

الاحقاف : ٢٠ میں فرمایا : اور جس دن کفار کو دوزخ میں جھونک دیا جائے گا (تو ان سے کہا جائے گا، ) تم اپنی لذیذ چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو، پس آج تم کو ذلت والا عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے تھے اور کیونکہ تم نافرمانی کرتے تھے

پسندیدہ اور لذیذ چیزوں کے حصول کی اجازت

اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ جس دن کفار دوزخ میں داخل ہوں گے اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ جس دن کفار کو دوزخ دکھائی جائے گی تاکہ وہ دوزخ کے ہولناک عذاب کو دیکھیں۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے لئے تمہاری پسندیدہ اور لذیذ چیزیں جو مقدر کی گئی تھیں تم ان کو دنیا میں لے چکے ہو اور جب تم دنیا میں اپنا حصہ پورا پورا لے چکے ہو تو آخرت میں تمہارے لئے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔

امام رازی نے کہا ہے کہ نیک لوگ دنیا میں تقشف اور زہد کو اختیار کرتے ہیں تاکہ ان کا آخرت میں ثواب زیادہ کامل ہو، لیکن اس آیت میں مؤمنوں کے لئے دنیا کی لذتوں سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت نہیں ہے، کیونکہ یہ آیت کافروں کے حق میں نازل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کافروں کی مذمت کی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے تھے اور وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے تھے اور نہ اس کی طاعت اور عبادت کر کے اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے تھے، رہا مومن تو وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اور اس کی اطاعت اور عبادت کر کے اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے لہٰذا وہ اس زجر و توبیخ اور مذمت میں داخل نہیں ہے اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

” قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللہ ِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ط “ (الاعراف : ٣٢)

آپ کہیے کہ جس زینت کو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے نکالا ہے اور پاکیزہ رزق کو، اس کو کس نے حرام کیا ہے ؟

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زیب وزینت کی چیزوں اور پاکیزہ رزق اور لذیذ چیزوں کو استعمال کرنے اور انہیں کھانے اور پینے کی ترغیب دی ہے، البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آرام اور آسائش اور مرغوبات نفس سے احتراز کرنا افضل اور اولیٰ ہے کیونکہ انسان جب عیش و عشرت کا عادی ہوجاتا ہے تو اس پر ان چیزوں کا چھوڑنا دشوار ہوجاتا ہے اور اگر اس پر سختی اور تنگ دستی کے ایام آجائیں تو وہ ناشکری کے کلمات کہنے کے خطرہ میں ہوتا ہے اور عیش و عشرت میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ اس خطرہ میں بھی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کی اطاعت اور عبادت سے غافل ہوجائے۔

آخرت کے ثواب میں اضافہ کی خاطر پسندیدہ اور لذیذ چیزوں کا ترک کرنا اور زہد کو اختیار کرنا

امام ابو الحسن علی بن احمد الواحدی النیشاپوری المتوفی ٤٦٨ ھ لکھتے ہیں :

چونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں لذات اور عیش و عشرت کے حصول کی مذمت کی ہے اور اس بات پر کافروں کو ملامت کی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے تھے، اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، آپ اور دیگر صالحین امت دنیا کے عیش و عشرت اور لذتوں سے کنارہ کش رہتے تھے اور تقشف اور زہد کو اختیار کرتے تھے تاکہ آخرت میں ان کا ثواب زیادہ کامل ہو۔

(الوسیط ج ٤ ص ١١٠، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا زہد

حسب ذیل احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب کی دنیا کے عیش اور لذتوں سے اجتناب کی دلیل ہے :

حضرت عثمان بن عفان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابن آدم کا ان چیزوں کے سوا اور کسی چیز میں حق نہیں ہے : اس کے رہنے کے لئے گھر ہو، اتنا کپڑا جو اس کی شرم گاہ چھپانے کے لئے کافی ہو، روٹی اور پانی۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٤١، مسند احمد ج ١ ص ٦٢ )

مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے تو آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے : ” الھکم التکاثر “ (التکاثر : ١) زیادہ کی طلب نے تمہیں غافل کردیا۔ آپ نے فرمایا : ابن آدم کہتا ہے : میرا مال، میرا مال اور تمہارا مال صرف وہی ہے جس کو تم نے صدقہ کر کے روانہ کردیا، یا جس کو تم نے کھا کر فنا کردیا یا جس کو تم نے پہن کر پرانا کردیا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٤٦، صحیح مسلم الرقم المسلسل : ٧٣٤٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٦١٥، مسند احمد ج ٤ ص ٢٤ )

حضرت محصن خطمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کو اٹھے کہ اس کی جگہ پرامن ہو اور اس کا جسم عافیت سے ہو اور اس کو اس دن کی روزی میسر ہو تو گویا اس کے لئے تمام دنیا اکٹھی کردی گئی ہے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٤٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٤١ )

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ پیشکش کی کہ میرے لئے مکہ کی وادی سونے کی بنا دے، میں نے کہا : نہیں، اے میرے رب ! میں ایک دن پیٹ بھر کر کھائوں گا اور ایک دن بھوکا رہوں گا، پھر جب میں بھوکا ہوں گا تو تجھ سے فریاد کروں گا اور تجھے یاد کروں گا اور جب میں سیر ہو کر کھائوں گا تو میں تیرا شکر کروں گا اور تیری حمد کروں گا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٤٧، مسند احمد ج ٥ ص ٢٥٢ )

مسروق بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے میرے لئے کھانا منگوایا اور فرمایا : میں کبھی سیر ہو کر نہیں کھاتی پھر میں رونا چاہتی ہوں تو روتی ہوں، میں نے پوچھا : کیوں ؟ فرمایا : میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ حال یاد کرتی ہوں جس حال میں آپ دنیا سے تشریف لے گئے تھے، اللہ کی قسم ! آپ نے کبھی لگاتار دو دن روٹی اور گوشت سیر ہو کر نہیں کھایا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٥٦، مسند احمد ج ٦ ص ٤٢ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل نے کبھی مسلسل تین دن گندم کی روٹی نہیں کھائی حتیٰ کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٣٥٨، صحیح مسلم الرقم المسلسل : ٧٣٨٣، مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٤)

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) فرماتے ہیں کہ میں وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں خون بہایا اور میں وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس نے اللہ کی راہ میں تیر چلایا اور ہم سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے ساتھ جہاد کرتے تھے اور ہم صرف درخت کے پتے اور اس کی چھال کھاتے تھے اور ہم میں سے ہر شخص بکری کی طرح مینگنیاں کرتا تھا۔ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٦٥، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٢٨، صحیح مسلم الرقم المسلسل : ٧٣٥٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣١)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں بھوک کی شدت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر اور حضرت عائشہ (رض) کے حجرے کے درمیان گرپڑتا تھا۔ (الحدیث) یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

حضرت فضالہ بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو نماز پڑھاتے تھے تو بھوک کی شدت کی وجہ سے وہ نماز میں گرجاتے تھے، حتیٰ کہ اعرابی لوگ ان کو مجنون کہتے تھے، پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ لیتے تو ان کی طرف مڑ کر فرماتے : اگر تم کو یہ پتا چل جائے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس تمہارا کتنا اجر ہے تو تم یہ ضرور چاہو گے کہ تمہارے فقر اور فاقہ میں اور زیادتی کی جائے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٦٨، مسند احمد ج ٦ ص ١٨)

حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہٗ کی قسم ! جس کے سوا کوئی عیادت کا مستحق نہیں ہے، میں بھوک کی وجہ سے اپنے جگر کو زمین کے ساتھ لگائے ہوئے تھے اور میں بھوک کی شدت سے اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھے ہوئے تھا۔ (الحدیث) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٥٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٦٦، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٦٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣١)

حضرت ابوطلحہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھوک کی شکایت کی اور ہم نے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا کر آپ کو پیٹ پر باندھے ہوئے پتھر دکھائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیٹ پر باندھے ہوئے دو پتھر دکھائے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٧١)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدہ فاطمہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا دیا تو آپ نے فرمایا : یہ پہلا طعام ہے جس کو تمہارے باپ نے تین دن کے بعد کھایا ہے (اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں) ۔ (مسنداحمد ج ٣ ص ٢١٣، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٥٠ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاحیات چھلنی نہیں دیکھی نہ کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کھائی (اس کی سند میں سلیمان بن رومان غیر معروف ہے، باقی تمام راوی ثقہ ہیں) ۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٧١)

حضرت ابو حجیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثرید (گوشت کے سالن میں روٹی کے ٹکڑے بھگوئے ہوئے) کھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور میں نے آپ کے پاس ڈکار لی تو آپ نے فرمایا : اے ابوحجیفہ ! قیامت کے دن سب سے زیادہ بھوکے وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں زیادہ سیر ہو کر کھاتے تھے (اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں) ۔(مسند البزار رقم الحدیث : ٣٦٧٠۔ ٣٦٦٩ )

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک پیالہ میں دودھ اور شہد آیا، آپ نے فرمایا : تم ایک گھونٹ پی کر ایک پیالہ میں رکھ دو ، مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ حرام ہے، میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مجھ سے دنیا کی زائد چیز کے متعلق سوال کرے، میں اللہ کے لئے تواضع کرتا ہوں اور جو اللہ کے لئے تواضع کرے اللہ اس کو سربلند کرتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے اللہ عزوجل اس کو سرنگوں کرتا ہے اور جو میانہ روی کرے اللہ اس کو مستغنیٰ کردیتا ہے اور جو موت کو زیادہ یاد کرے اللہ اس سے محبت کرتا ہے (اس حدیث کی سند میں ایک راوی نعیم بن مورع عنبری ہے اس کی توثیق میں اختلاف ہے اور اس کے باقی راوی ثقہ ہیں) ۔ (مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٨٢٩٤)

صحابہ کرام کا زہد اختیار کرنا اور ترک زہد کی مذمت کرنا

امام عبد الرزاق، ابن عینیہ سے اور وہ مدینہ کے ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) کے ساتھ ایک شخص کو دیکھا وہ کوئی چیز اٹھائے ہوئے تھا، حضرت عمر نے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا : یہ گوشت ہے جس کو میں نے ایک درہم کا خریدا ہے، حضرت عمر نے کہا : تم میں سے ایک شخص گوشت کھانے کے شوق میں ایک درہم خرچ کر کے گوشت خریدتا ہے کیا تم نے اللہ عزوجل کا یہ ارشاد نہیں سنا :

” اَذْہَبْتُمْ طَیِّبٰـتِکُمْ فِیْ حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَاج “ (الاحقاف : ٢٠ )

تم اپنی لذیذ چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو۔(تفسیر عبد الرزاق ج ٢ ص ١٧٦، دارالمعرفۃ، بیروت، ١٤١١ ھ)

حضرت عبد الرحمان بن عوف (رض) روزہ دار تھے ان کے پاس کھانا لایا گیا، انہوں نے کہا : حضرت مصعب بن عمیر (رض) شہید ہوگئے، وہ مجھ سے بہتر تھے ان کو ایک چادر میں کفن دیا گیا، اگر ان کا سر ڈھانپا جاتا تو ان کے پیر کھل جاتے اور اگر ان کے پیر ڈھانپے جاتے تو ان کا سر کھل جاتا اور حرت حمزہ (رض) شہید ہوگئے اور وہ مجھ سے بہتر تھے، پھر ہمارے لئے دنیا میں وسعت کی گئی جو وسعت کی گئی اور ہم کو دنیا سے وہ کچھ دیا گیا جو دیا گیا اور ہمیں یہ اندیشہ ہے کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ ہمیں جلدی سے دنیا میں ہی دے دیا گیا ہے، پھر حضرت عبد الرحمن بن عوف رونے لگے اور کھانے کو چھوڑ دیا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٧٥، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٠١٨، دلائل النبوۃ ج ٣ ص ٢٩٩، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٩٧٩)

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے حضرت عمر (رض) نے فرمایا : اگر میں چاہوں تو سب سے لذیذ کھانا کھائوں اور سب سے خوبصورت لباس پہنوں، لیکن میں اپنی پسندیدہ چیزوں کو آخرت کے لئے باقی رکھتا ہوں اور جب حضرت عمر ملک شام میں گئے تو ان کے لئے ایسا لذیذ کھانا تیار کیا گیا کہ اس سے پہلے اتنا لذیذ کھانا دیکھا نہیں گیا تھا، حضرت عمر نے کہا : یہ کھانا ہمارے لئے ہے تو ان فقراء مسلمین کے لئے کیا تھا جو اس حال میں فوت ہوگئے کہ انہوں نے بھی جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی ؟ حضرت خالد بن ولید (رض) نے کہا : ان کے لئے جنت ہے، تو حضرت عمر (رض) کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، حضرت عمر کہنے لگے : کاش ! ہمارے لئے دنیا کا حصہ چند لکڑیاں ہوتیں، وہ فقراء مسلمین اپنے حصے میں جنت لے گئے اور ہم میں اور ان میں بہت فرق ہے، اور ” صحیح مسلم “ وغیرہ میں ہے کہ حضرت عمر (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے، آپ اس وقت اپنے مچان میں تھے، جب آپ اپنی ازواج سے الگ تھے، حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ادھر ادھر دیکھا تو مجھے ایک کچی کھال نظر آئی جس کی بومتغیر ہوچکی تھی، میں نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ اللہ کے رسول ہیں اور سب سے بہتر ہیں اور یہ قیصر اور کسریٰ ہیں جو ریشم کا لباس پہنتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا : اے ابن الخطاب ! کیا تم کو (اپنے دین میں) شک ہے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کی پسند کی چیزیں ان کی دنیا کی زندگی میں دے دی گئیں، میں نے کہا : میرے لئے استغفار کیجئے، آپ نے فرمایا : اے اللہ ! اس کو معاف کر دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٩١٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٧٩)

حفص بن ابی العاص بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر (رض) کے پاس صبح کو کھانا کھا رہا تھا جس کھانے میں روٹی اور زیتون کا تیل تھا اور روٹی اور سرکہ تھا اور روٹی اور دودھ تھا اور روٹی اور سکھایا ہوا گوشت تھا اور تھوڑا سا تازہ گوشت تھا اور حضرت عمر فرما رہے تھے : آٹے کو چھانا نہ کرو کیونکہ وہ پورے کا پورا طعام ہے، پھر ان کے پاس ان چھانے آٹے کی سخت موٹی روٹی لائی گئی، حضرت عمر اس کو کھا رہے تھے اور فرما رہے تھے : کھائو، اور ہم نہیں کھا رہے تھے، فرمایا : تم کیوں نہیں کھاتے ؟ ہم نے کہا : اے امیرالمؤمنین ! اللہ کی قسم ! ہم یہاں سے واپس جا کر آپ کے کھانے سے زیادہ نرم روٹیاں کھائیں گے، آپ نے فرمایا : اے ابو العاص کے بیٹے ! کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر میں چاہوں تو ایک فربہ بکرے کو بھنوائوں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر میں چاہوں تو چار کلو یا آٹھ کلو منقیٰ منگوائوں اور ان کو ایک مشک پانی میں ڈال کر نبیذ بنوائوں ؟ میں نے کہا : اے امیرالمؤمنین ! آپ ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم ! جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ قیامت کے دن میری نیکیاں کم ہوجائیں گی تو میں خوش گوار زندگی میں تمہارا شریک ہوجاتا لیکن میں نے کچھ لوگوں کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :

” اَذْہَبْتُمْ طَیِّبٰـتِکُمْ فِیْ حَیَاتِکُمُ الدُّنْیَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِہَاج “ (الاحقاف : ٢٠ )

تم اپنی لذیذ چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے ہو اور ان سے فائدہ اٹھا چکے ہو۔

حضرت جابر (رض) نے کہا : میرے گھر والوں کو گوشت کی خواہش ہوئی تو میں نے ان کے لئے گوشت خریدا، پھر میں حضرت عمر بن الخطاب (رض) کے پاس سے گزرا، آپ نے فرمایا : یہ کیا ہے ؟ اے جابر ! تو میں نے ان کو خبر دی، آپ نے فرمایا : کیا تم میں سے جب بھی کسی کو خواہش ہو تو وہ گوشت سے اپنا پیٹ بھر لیتا ہے، کیا تم کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ تم اس آیت کا مصداق بن جائو : ” اَذْہَبْتُمْ طَیِّبٰـتِکُمْ “ (الاحقاف : ٢٠ ) ۔

قاضی ابوبکر ابن العربی نے کہا : یہ حضرت عمر کا حضرت جابر پر عتاب تھا کہ انہوں نے گوشت خریدنے کی وسعت کو اختیار کیا اور روٹی اور پانی کی سادہ غذا سے خروج کیا، کیونکہ جب انسان رزق حلال سے لذیذ اور پسندیدہ غذائوں کو کھانے کی عادت بنا لے اور پھر کبھی اس کو حلال رزق کی بجائے مشتبہ رزق ملے گا تو وہ اس سے بھی اپنی خواہش پوری کرے گا اور اگر پھر اس کو مشتبہ رزق کے بجائے حرام رزق ملے گا تو وہ اس سے بھی اپنی خواہش پوری کرے گا کیونکہ اس پر عادت اور نفس امارہ کا غلبہ ہوگا، اس لئے حضرت عمر نے ابتداء سے ہی اپنے آپ کو لذیذ اور پسندیدہ چیزوں سے دور رکھا۔

اس باب میں ضابطہ یہ ہے کہ انسان کو جو چیز ملے وہ اس کو کھالے خواہ وہ لذیذ ہو یا نہ ہو اور لذیذ چیزوں کے حصول میں تکلف نہ کرے اور ان کو عادت نہ بنائے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی چیز مل جاتی تو اس کو سیر ہو کر کھالیتے اور جب نہیں ملتی تو صبر کرتے اور جب آپ کو قدرت ہوتی تو میٹھی چیز کھاتے اور جب اتفاق سے شہد ملتا تو اس کو پی لیتے اور جب گوشت میسر ہوتا تو اس کو کھالیتے اور ان کو کھانے کی عادت نہ بناتے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت معلوم ہے اور صحابہ کا طریقہ منقول ہے اور آج لوگوں پر حرام خوری کا غلبہ ہے اور اس سے چھٹکارا مشکل ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے نجات عطا فرمائے۔

اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی لذیذ اور پسندیدہ حلال چیزوں کو حاصل کرنا مذموم نہیں ہے، مذموم یہ ہے کہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا جائے اور یہ قول بہت عمدہ ہے، کیونکہ حلال اور طیب چیز کے حصول اور اس سے نفع اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے لیکن بندہ جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے اور ان کا شکر ادا نہ کرے تو اس کی مذمت فرمائی ہے یا حلال چیزوں کے بجائے حرام چیزوں سے فائدہ اٹھائے تو اس کی سخت مذمت فرمائی ہے۔

(الجامع لاحکام القرآن جز ١٦ ص ١٨٨۔ ١٨٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 20