يٰقَوۡمَنَاۤ اَجِيۡبُوۡا دَاعِىَ اللّٰهِ وَاٰمِنُوۡا بِهٖ يَغۡفِرۡ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُجِرۡكُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَ لِيۡمٍ ۞- سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 31
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰقَوۡمَنَاۤ اَجِيۡبُوۡا دَاعِىَ اللّٰهِ وَاٰمِنُوۡا بِهٖ يَغۡفِرۡ لَـكُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِكُمۡ وَيُجِرۡكُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَ لِيۡمٍ ۞
ترجمہ:
اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا پیغام مان لو اور اس پر ایمان لے آئو، اللہ تمہارے گناہوں میں سے بخش دے گا اور دردناک عذاب سے تمہیں پناہ میں رکھے گا
الاحقاف : ٣١ میں فرمایا : (جنات نے کہا :) اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا پیغام مان لو، اور اس پر ایمان لے آئو اللہ تمہارے گناہوں میں سے بخش دے گا اور دردناک عذاب سے تمہیں پناہ میں رکھے گا
کافر جب ایمان لے آئے تو آیا اس کے تمام گناہوں کی مغفرت ہوگی یا بعض گناہوں کی ؟
اللہ کی طرف دعوت دینے والے سے ان کی مراد اللہ کا پیغام ہے یعنی اللہ کا پیغام مان لو اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو مان لو اور یہ کہ صرف وہی اکیلا عبادت کا مستحق ہے، یا اس سے مراد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئو۔
نیز اس آیت میں فرمایا ہے : ” یغفرلکم من ذنوبکم “ اس پر یہ اشکال ہے کہ بہ ظاہر ” من “ تبعیضیہ ہے اور اس کا معنی ہے : اللہ تمہارے بعض گناہوں کو بخش دے گا، حالانکہ ایمان لانے کے بعد زمانہ کفر کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اس اشکال کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) اس آیت میں ” من “ زائدہ ہے لیکن یہ جواب صحیح نہیں ہے کیونکہ فصیح وبلیغ کلام میں کوئی لفظ زائد نہیں ہوتا۔
(٢) اللہ ان بعض گناہوں کو بخش دے گا جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور جن گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہے ان کو نہیں بخشے گا، لیکن ابن المنیر نے اس جواب پر یہ اعتراض کیا ہے کہ کافر جب لوگوں کا مال لوٹے یا خون ریزی کرے اور حقوق العباد کو ضائع کرے تو اس کے اسلام لانے سے یہ گناہ بھی بخش دیئے جاتے ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے کہ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سیدنا حمزہ (رض) کے قاتل وحشی کو بلایا اور اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے کہا : یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مجھے اپنے دین کی کس طرح دعوت دے رہے ہیں، حالانکہ آپ نے یہ کہا ہے کہ جس نے شرک کیا یا قتل ناحق کیا یا زنا کیا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا، قیامت کے دن اس کے عذاب کو دگنا کردیا جائے گا اور وہ اس عذاب میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ (الفرقان : ٦٨۔ ٦٩) اور میں یہ تمام کام کرچکا ہوں، کیا آپ میرے لئے کوئی رخصت پاتے ہیں ؟ تو آپ نے یہ آیت پڑھی : سوا اس کے جس نے توبہ کرلی اور ایمان لایا اور اس نے نیک کام کئے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بےحد رقم فرمانے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠) الحدیث (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠١٣٩، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٤١٧) خلاصہ یہ ہے کہ کافر کے اسلام لانے کے بعد اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو خواہ حقوق العباد سے ہو، تو پھر اصل اعتراض باقی رہا کہ ان جنات نے دوسرے جنات سے یہ کہا کہ تم اسلام لے آئو تمہارے بعض گناہ بخش دیئے جائیں گے جب کہ کافر کے اسلام لانے سے اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
(٣) انہوں نے دوسرے جنات سے یہ کہا کہ ایمان لانے سے تمہارے بعض گناہ بخشے جائیں گے اور یہ نہیں کہا کہ ایمان لانے سے تمہارے کل گناہ بخشے جائیں گے تاکہ اس سے یہ وہم نہ ہو کہ ایمان لانے کے بعد کل گناہ بخش دیئے جاتے ہیں یعنی ایمان لانے سے پہلے کے گناہ اور ایمان لانے کے بعد کے گناہ بھی، بلکہ یہ کہا کہ ایمان لانے سے پہلے کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، خواہ ان کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے اور ایمان لانے کے بعد کے گناہ یا توبہ سے معاف ہوتے ہیں یا شفاعت سے یا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے۔
آیا اطاعت گزار جنات کو ثواب ہوگا یا نہیں ؟
نیز انہوں نے دوسرے جنات سے کہا : اور اللہ دردناک عذاب سے تمہیں پناہ میں رکھے گا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنات بھی مکلف ہیں اور کفر کی وجہ سے وہ بھی دائمی عذاب کے مستحق ہوتے ہیں، اس آیت میں صرف یہ بتایا کہ وہ کفر کی وجہ سے دائمی عذاب کے مستحق ہیں اور یہ بتایا ہے کہ ایمان لانے سے ان کو دائمی عذاب سے نجات مل جائے گی۔ لیکن آیا ایمان لانے اور اطاعت کرنے کی وجہ سے ان کو ثواب بھی ہوگا یا نہیں ؟ یہ نہیں بتایا لیکن جن آیات میں عمومی طور پر نیک اعمال کی جزا جنت بتائی ہے ان کا تقاضایہ ہے کہ ان کو بھی نیک اعمال کی نیک جزا دی جائے، جیسے یہ آیت ہے :
” اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا “ (الکہف : ١٠٧)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے ان کے لئے جنات الفردوس کی مہمانی ہے
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ان کو نیک کاموں پر ثواب ہوگا اور برے کاموں پر عذاب ہوگا اور اس آیت میں صرف دوزخ کے عذاب سے نجات کا ذکر فرمایا ہے اور ثواب کا ذکر نہیں فرمایا کیونکہ یہ مقام ان کو عذاب سے ڈرانے کا ہے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ جنات میں سے اطاعت گزاروں کو صرف دوزخ سے نجات ہوگی اور ان کو ثواب نہیں ہوگا اور ان سے صرف یہ کہا جائے گا : کہ تم مٹی ہو جائو سو وہ مٹی ہوجائیں گے اور یہ لیث بن ابی سلیم اور ایک جماعت کا مذہب ہے اور امام ابوحنیفہ (رض) کی طرف بھی یہی مذہب منسوب ہے اور علامہ نسفی نے ” تیسیر “ میں کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے جنات کے ثواب کے متعلق توقف کیا ہے کیونکہ بندہ کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے صرف مغفرت کا اور عذاب سے پناہ میں رکھنے کا وعدہ کیا ہے اور جنت کی نعمتوں کا عطا فرمانا ایک الگ دلیل پر موقوف ہے۔
عمر بن عبد العزیز نے یہ کہا ہے کہ مؤمنین جن، جنت کے گرد ہوں گے جنت میں نہیں ہوں گے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کو تسبیح اور ذکر کا الہام کیا جائے گا اور وہ اس سے لذت پائیں گے اور علامہ نووی نے ” صحیح مسلم “ کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ جنات جنت میں داخل ہوں گے اور جنت کی نعمتوں سے لذت پائیں گے اور کھائیں گے اور پئیں گے اور حسن بصری، مالک بن انس، ضحاک اور ابن ابی لیلیٰ وغیرہم کا یہی مذہب ہے۔
(روح المعانی جز ٢٦ ص ٥٠، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
علامہ آلوسی نے یہ تمام مذاہب علامہ قرطبی کی ” الجامع الاحکام القرآن “ جز ١٦ ص ٢٠١ سے نقل کئے ہیں، اس بحث میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ مؤمنین جن بھی جو اطاعت گزار ہوں گے وہ جنت میں جائیں گے اور تفصیلی دلائل کے لئے ” تبیان القرآن “ ج ٣ ص ٢٥٧۔ ٢٥٥ کا مطالعہ فرمائیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 46 الأحقاف آیت نمبر 31