حدیث یبدل پر سنابلی اعتراضات کا تحقیقی جائزہ:

تحریر (الف)

ابوالعالیہ کی حضرت ابوذر سے سماع کی تحقیق اور سنابلی کا تعاقب…!!!

 

کہتے ہیں بندہ جب کسی کی محبت میں اندھا ہو جاتا ہے تو اسے حقیقت نظر نہیں آتی انہی میں سے ایک سنابلی ہندی صاحب بھی ہیں جو یزید کی محبت میں اتنے اندھے ہو گے کہ ہر بات کو بنا تحقیق کےایسے ہی رد کر دیتے ہیں مثلا جیسے جناب سنابلی صاحب امام ابن عساکر کے قول کے بارے میں لکھتے ہیں (جو انہوں نے ابوالعالیہ رفیع بن مہران کے ترجمہ میں لکھا) :

امام ابن عساکر (المتوفی 571ھ) نے کہا :

وقدم الشام مجاهدا وسمع بها أبا ذر وقيل إنه وفد على عمر بن عبد العزيز

اور یہ جہاد کرنے کے لئے شام آئے اور وہاں ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا اور یہ بھی کہا گیا ہےکہ عمر بن عبدالعزیزکے پاس آئے۔

آگے سنابلی صاحب زبیر علی زئی کا رد کرتے ہو ئے لکھتا ہے:

قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ ابن عساکر کی بے سند بات موصوف کی نظر میں حجت ہوگی ہے حالانکہ کہ امام ابن عساکر نے اس بات کو معروف بھی نہیں کہا اور اس کے برعکس ائمہ فن کی شہادتین بھی موجود ہیں مثلا خود موصوف نے اس سے قبل ابن معین سے نقل کیا وہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابوالعالیہ کے سماع کا انکار کررہے ہیں۔

[یزید بن معاویہ ص 168-169]

آگے سنابلی صاحب لکھتا ہے:

جمہور اہل فن نے ابوذررضی اللہ عنہ سے ابوالعالیہ کے سماع کا انکار کیا ہے اس میں تنہا ابن عساکر کی بات غیر مسموع ہے۔۔الخ

[یزید بن معاویہ ص 168]

البانی صاحب کی تصحیح کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

شیخ البانی کی تصحیح کردہ سند عبدالوہاب والی نہیں ہے یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر کا واسطے کا ذکر نہیں اور ابوذر سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں۔ ناقدین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے۔

[یزید بن معاویہ ص 176]

آگے اپنی بات کی تصحیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

یہاں سبقت قلم کے نتیجے میں “ابوالعالیہ” کی جگہ “ابومسلم” کا نام درج ہو گیا یعنی صحیح عبارت یوں ہونے چاہیے “اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابوالعالیہ کے سماع پر کوئی ثبوت قطعا نہیں۔”

[یزید بن معاویہ ص 176]

 

الجواب : سنابلی صاحب نے امام ابن عساکر کے قول کو بنا تحقیق رد کر دیا ہے جب کہ امام ابن عساکر نے اپنے قول کو ثابت کرنے کے لیے پوری سند بیان کی ہے جو یہ ہے:

خبرنا أبو علي الحداد حدثني أبو مسعود العدل عنه أنا أبو نعيم الحافظ أخبرني الحسين بن علي النيسابوري في كتابه إلي نا علي بن الحسين بن سالم أنا أحمد بن أبان الأصبهاني نا محمد بن أبان نا سفيان عن عوف عن خالد أبي المهاجر عن أبي العالية قال كنا بالشام مع أبي ذر فقال سمعت رسول الله ( صلى الله عليه و سلم ) يقول أول رجل يغير سنتي رجل من بني فلان فقال يزيد أنا هو قال لا

[تاریخ دمشق لابن عساکر ج 18 ص 160]

یہ سند مع متن تاریخ الاصبہان لابی نعیم [ج1 ص 54] میں بھی موجودہے۔

اس حدیث کے متن میں واضح الفا ظ موجود ہیں ” كنا بالشام مع أبي ذر جس ابوالعالیہ خود کہہ رہے کہ میں حضرت ابوذر کے ساتھ شام میں تھا ” اب سنابلی صاحب کو مزید کیا دلیل چاہئے سماع کی؟؟

اگر سنابلی صاحب اور ان کا گروہ امام ابن عساکر کی سند کے ضعف پر اعتراض کرتا ہے تو عرض ہے کہ یہ روایت اور حسن سند سے بھی ثابت ہے اور یہ موجودہ مطبوع مسند ابی یعلی میں موجود نہیں لیکن اس کو حافظ ابن کثیر نے امام ابویعلی کی مکمل سند سے لکھا ہے جو یہ ہے:

وقال أبو يعلى حدثنا عثمان بن أبى شيبة ثنا معاوية بن هشام عن سفيان عن عوف عن خالد بن أبى المهاجر عن أبى العالية قال كنا مع أبى ذر بالشام فقال أبو ذر سمعت رسول الله ص يقول أول من يغير سنتى رجل من بنى أمية

[البداية والنهاية لابن كثير ج 8 ص 231]

الحمدللہ اس میں بھی ” كنا مع أبى ذر” کے الفاظ موجود ہیں۔

اور امام ابن حجر عسقلانی نے بھی اس اسی سند کا ذکر اسی روایت کے تحت کیا ہے اپنی کتاب میں جس کا ثبوت یہ ہے:

“رواہ معاویۃ بن ھشام عن سفیان عن عوف، فلم یذکر بین ابی العالیۃ و ابی ذر احدا۔

[اتحاف المھرۃ لابن حجر ج14 ص 224]

اس سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں سوائے معاویہ بن ہشام کے وہ صدوق اور حسن الحدیث ہے۔

لہذا امام ابن عساکر کا قول قوی دلیل کے ثابت ہے اور اسے بے سند کہنا باطل ہے۔ الحمدللہ

لہذا سماع پر ایک قوی سند ملنے کے بعد اب اعتراض کرنا فضول ہے۔

سنابلی صاحب لکھتے ہیں:

یعنی اگر دو رراویوں کے مابین سماع ثابت ہے تو وہ کسی بھی صیغے سے روایت کریں سماع پر محمول کیا جائے گا۔

[یزید بن معاویہ ص 156]

اب ابوالعالیہ کی سماع کی تصریح کی دلیل حضرت ابوذر سے مل گی ہے تو یہ روایت ابوالعالیۃ عن ابی ذر اور ابوالعالیۃ عن ابومسلم عن ابی ذر سے دونوں طرح موصول ہی شمار کی جائے گی اس کی کئی مثالیں صحیحین میں بھی ہیں:

جیسے صحیح بخاری کی ایک حدیث رقم 216 اور 3161 پر موجود ہے اسکی پہلی سند میں مجاہد عن ابن عباس ہے جو یہ ہے:

حَدَّثَنَا عُثْمَانُ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔۔الخ

[صحیح بخاری ج 1 ص 381 رقم 216]

لیکن رقم 1361 میں مجاہد کے درمیان طاوس کا واسطہ آ گیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:

حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔۔الخ

[صحیح بخاری ج 5 ص 285 رقم 1361]

صحیح مسلم میں اس کی مثال اس طرح ہے جس کی پہلی سند میں بسر بن عبیداللہ عن واثلہ عن ابی مرثد الغنوی ہے جو یہ ہے:

وحدثني علي بن حجر السعدي حدثنا الوليد بن مسلم عن ابن جابر عن بسر بن عبيدالله عن واثلة عن أبي مرثد الغنوي قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا إليها

[صحیح مسلم ج 2 ص 668 رقم 71]

لیکن اور دوسری سند میں بسر بن عبیداللہ اور واثلۃ عن ابی مرثد الغنوی کے درمیان ابوادریس کا اضافہ ہو گیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:

وحدثنا حسن بن الربيع البجلي حدثنا ابن المبارك عن عبدالرحمن بن يزيد عن بسر بن عبيدالله عن أبي إدريس الخولاني عن واثلة بن الأسقع عن أبي مرثد الغنوي قال سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : لا تصلوا إلى القبور ولا تجلسوا عليها

[صحیح مسلم ج 2 ص 668 رقم 72]

اس اضافے کی طرف امام حاکم نے بھی اشارہ کیا ہے:

وقد تفرد به عبد الله بن المبارك بذكر أبي إدريس الخولاني فيه بين بشر بن عبيد الله وواثلة فقد رواه بشر بن بكر ، والوليد بن يزيد ، عن بشر ، سمعت واثلة بن الأسقع أما حديث بشر

[المستدرک للحاکم ج 11 ص 318 رقم 4962]

لہذا صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی دونوں اسناد کو ائمہ نے صحیح قرار دیا ہے کسی پر انقطاع کا حکم نہیں لگایا اور ہماری پیش کردہ سند بھی اسی مثال کی قبیل سے ہے۔ الحمدللہ

اب آتے ہیں دوسرے اعتراضات کی طرف:

(الف) امام ابن معین فرماتے ہیں:

قلت ليحيى بن معين سمع أبو العالية من أبي ذر قال لاإنما يروي أبو العالية عن أبي مسلم عن أبي ذر قال قلت ليحيى من أبو مسلم هذا قال لا أدري

امام الدوری کہتے ہیں میں نے امام یحیی بن معین سے کہا کیا ابوالعالیہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا؟ انہوں نے کہا: نہیں بے شک ابوالعالیہ نے تو ابومسلم عن ابی ذر سے روایت کرتے ہیں۔ پھر میں نے کہا امام ابن معین سے کہ یہ ابومسلم کون ہے؟ تو انہوں نے کہا میں نہیں جانتا۔

[تاریخ ابن معین- روایۃ الدوری ج4 ص 120 رقم 3467]

(ب) امام بیہقی فرماتے ہیں:

وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر

اور اس سند میں ابوالعالیہ اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے درمیان ارسال ہے

[دلائل النبوۃ ج 7 ص 364 رقم 2802]

امام ابن معین اور امام بیہقی نے اپنے اپنے علم اور فہم پر انقطاع کا حکم لگایا ہے وہ بھی اسی وجہ سے ان کو ابو العالیہ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے درمیانی واسطے سے روایت ملی اس لیے ہم انہیں معذور سمجھتے ہیں کیونکہ امام ابویعلی موصلی اور امام ابن عساکر کو بنا واسطے والی روایت ملی ہے وہ بھی سماع اور ملاقات کے ساتھ اس کے ہم یہاں امام ابن عساکر اور امام ابویعلی موصلی کی بات قوی سند سے ثابت ہے لہذا اسکو ترجیح حاصل ہوگی۔

ایسے اختلاف کی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن رائج بات وہی ہوگی جو مضبوط دلائل سے ثابت ہو جائے گی۔

مثلا جیسے حضرت ابوالعالیہ جب حضرت عمر سے روایت کرتے ہیں تو درمیان میں کئی بار ایک راوی کا واسطہ درمیان میں آ جاتا ہے تو اس بنیاد پر امام بیہقی نے حضرت ابوالعالیہ کے سماع کا حضرت عمر سے کا انکار کر دیا جس کا ثبوت یہ ہے:

أَبُو الْعَالِيَةِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ

[سنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 372 رقم 5769]

جب کہ صحیح سند سے حضرت ابوالعالیہ کا سماع حضرت عمر سے ثابت ہے جس کا ثبوت یہ ہے:

قال: أخبرنا الفضل بن دكين قال: حدثنا أبو خلدة قال: حدثني أبو العالية قال: أكثر ما سمعت من عمر يقول: اللهم عافنا واعف عنا.

[الطبقات الکبری لابن سعد ج 7 ص 113]

امام بخاری نے خود اس ابوالعالیہ کا حضرت عمر سے سماع کا اقرار کیا ہے۔

أبو العالية الرياحي اسمه رفيع سمع عمر بن الخطاب

[الكنى للبخاري ج 1 ص 89 رقم 939]

لہذا جب راوی کا سماع صحیح و حسن سند سے مل جائے تو ناقدین کے نقد کا رد کر دیاجائے گا۔ لہذا امام بیہقی و ابن معین نے درمیان میں واسطہ کی وجہ سے سماع کا انکار کیا ہے جو کہ اصولا اور تحقیقا درست نہیں۔

ایسے ہی امام شعبہ نے ابوالعالیہ کا حضرت علی کے سماع کا انکار کیا ہے

قال شعبة: قد أدرك رفيع عليا ولم يسمع منه

[الطبقات الکبری لابن سعد ج 7 ص 117]

امام ابن معین نے بھی ایسا ہی کہا ہے

وقال عباس عن يحيى لم يسمع من علي

[تہذیب التہذیب ج3 ص 247]

لیکن امام بخاری نے حضرت علی سے سماع کی مکمل سند بیان کی ہے:

وقال الانصاري وزائدة عن هشام عن حفصة عن ابى العالية سمع عليا

[تاریخ الکبیر للبخاری ج 3 ص 326 رقم 1103]

اور امام ابن ابی حاتم الرازی نے ان کے سماع کا اقرار کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:

رفيع أبو العالية الرياحي من بنى تميم بصرى أدرك الجاهلية وكان أعتق سائبة مولى امرأة روى عن أبى بكر رضي الله عنه وهو غير محفوظ ويثبت له عن عمر وعلى وابن مسعود وأبى أيوب وابن عباس

[الجرح والتعدیل ج 3 ص 510 رقم 2312]

ایسے ہی امام علی بن مدینی نے کہاہے :

وقال علي أيضا سمع من علي وأبي موسى وابن عباس وابن عمر

[تہذیب التہذیب ج 3ص 247]

لہذا امام ابن معین و امام بیہقی کے نقد کو امام ابن عساکر کی پیش کردہ روایت سے رد کر دیا جائے گا کیونکہ سماع کی دلیل حسن سند سے متصل مل چکی ہے لہذا اجتہاد کی یہاں گنجائش نہیں بچی سماع کے انکار کے لئے۔

باقی سنابلی صاحب کا یہ کہنا کہ جمہور ائمہ فن نے سماع کا انکار کیا ہے یہ اتنہائی جہالت والی بات ہے خود امام ذہبی کو سماع کے ثبوت ملنے پر ابوالعالیہ کے حضرت ابوذر سے سماع کا اقرار کیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے:

قال خالد أبو المهاجر، عن أبي العالية: كنت بالشام مع أبي ذر.

[سیراعلام النبلاء ج 4 ص 209 رقم 85]

تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں:

وقال خالد أبو المهاجر عن أبي العالية قال : كنت بالشام مع أبي ذر

[تاریخ الاسلام ج 1 ص 786]

اور سیر اعلام النبلاء میں صریحا سماع کا اقرار اس طرح کرتے ہیں:

وسمع من عمر، وعلي، وأبي، وأبي ذر، وابن مسعود، وعائشة، وأبي موسى، وأبي أيوب، وابن عباس، وزيد بن ثابت، وعدة.

[سیراعلام النبلاء ج 4 ص 208 رقم 85]

امام مزی نے دونوں طریقے لکھ دیئے کیونکہ دونوں ہی ثابت ہیں کسی کا انکار نہیں کیا:

أبي بن كعب (د ت س)، وأنس بن مالك (ت)، وثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم (د)، وحذيفة بن اليمان، ورافع بن خديج (سي)، وعبد الله بن عباس (ع)، وعبد الله بن عمر بن الخطاب، وعبد الله بن مسعود، وعلي بن أبي طالب، وأبي أيوب الانصاري، وأبي برزة الاسلمي (د سي)، وأبي ذر الغفاري وقيل: عن أبي مسلم الجذمي (س)، عن أبي ذر۔۔الخ

[تہذیب الکمال ج 9 ص 215]

امام ابن حجر نے بھی ایسا ہی کیا ہے:

وروى عن علي وابن مسعود وأبي موسى وأبي أيوب وأبي بن كعب وثوبان وحذيفة وابن عباس وابن عمر ورافع بن خديج وأبي سعيد وأبي هريرة وأبي بردة وعائشة وأنس وأبي ذر وقيل بينهما أبو مسلم الجذامي۔۔الخ

[التہذیب التہذیب ج 3 ص 246]

امام عینی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے:

وروى عن أُبى ابن كعب، وأنس بن مالك، وثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وحذيفة بن اليمان، ورافع بن خديج، وعبد الله بن عباس، وعبد الله بن عمر، وعبد الله بن مسعود، وعلى بن أبى طالب، وأبى أيوب الأنصارى، وأبى بردة الأسلمى، وأبى ذر الغفارى. وقيل: عن أبى مسلم الجذمى، عن أبى ذر۔۔الخ

[مغانى الأخيار للعینی ج 1 ص 333 رقم 678]

لہذا جمہور ائمہ فن نے دونوں طریقوں کو لکھا ہے کسی کا انکار نہیں بلکہ مہارت تامہ رکھنے والے امام ذہبی نے صریحا سماع کی تصریح والی بات لکھی ہے لہذا سنابلی کا امام ابن عساکر کو اکیلا کہنا غلط ہے اوران کے قول کو بے سند کہنا بھی غلط ہے جب کہ تحقیق کے میدان میں مضبوط دلائل کی بنیاد پر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے اس لئے الحمدللہ ابوالعالیہ کا سماع حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے تحقیقا قوی سند سے ثابت ہے اور اس طرح البانی صاحب کی تصحیح بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ الحمدللہ

(جاری ہے۔۔۔)

 

✍️خادم صحابہ و اہل بیت رضی اللہ

رضاءالعسقلانی الشافعی غفراللہ لہ

22 اگست 2021