کیا حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ خلافت فاروقی میں صرف مدینہ تک مقیم رہے؟؟ اس بات پر سنابلی کا تعاقب….!!!

 

سنابلی صاحب یزید کے دفاع میں ایک حسن درجہ کی حدیث کو موضوع بنانے کے لئے حضرت ابوذر کو خلافت فاروقی میں صرف مدینہ تک محدودد کر دیا جیسے وہ لکھتے ہیں:

“اس صحیح روایت سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو گئی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے قبل ابوذررضی اللہ عنہ شام آئے ہی نہیں بلکہ اللہ نبی ﷺ کے زمانے سے لے کر عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مذکورہ مدت تک مدینے میں ہی میں مقیم تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں مدینے سے نکل کر شام گے۔”

[یزید بن معاویہ ص 193]

آگے لکھتے ہیں:

“معلوم ہوا کہ اللہ کے نبی ﷺ کے فرمان کی روشنی میں ابوذر رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت سے قبل مدینے سے نکل ہی نہیں سکتے تھے۔”

[یزید بن معاویہ ص 194]

الجواب: سنابلی صاحب نے تو قطعی دعوے ایسے کر دیئے جیسے جناب نے تمام آثار حدیث دیکھ لیے ہوں جب کہ سنابلی صاحب کے رد میں ہم صحیح مسلم کی روایت پیش کرتے ہیں جس سے واضح ثابت ہے کہ حضرت ابوذر جہاد کی غرض سے مدینہ سے باہر گے تھے وہ بھی خلافت فاروقی میں جیسے امام مسلم روایت کرتے ہیں:

حدثني أبو الطاهر أخبرنا ابن وهب أخبرني حرملة ح وحدثني هارون بن سعيد الأيلي حدثنا ابن وهب حدثني حرملة ( وهو ابن عمران التجيبي ) عن عبدالرحمن بن شماسة المهري قال سمعت أبا ذر يقول : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إنكم ستفتحون أرضا يذكر فيها القيراط فاستوصوا بأهلها خيرا فإن لهم ذمة ورحما فإذا رأيتم رجلين يقتتلان في موضع لبنة فاخرج منها قال فمر بربيعة وعبدالرحمن ابني شرحبيل بن حسنة يتنازعان في موضع لبنة فخرج منها

حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم فتح کرو گے ایک ملک کو جہاں قیراط کا رواج ہو گا، وہاں کے لوگوں سے بھلائی کرنا کیونکہ ان کا حق ہے تم پر اور ان کا ناتا بھی ہے تم سے۔ جب تم دوشخصوں کو وہاں دیکھو ایک اینٹ کی جگہ پر لڑتے ہوئے تو وہاں سے نکل جانا۔حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ربیعہ اور عبدالرحمن بن شرجیل ایک اینٹ کی جگہ پر لڑ رہے ہیں تو میں وہاں(مصر) سے نکل گیا۔

[صحیح مسلم رقم الحدیث 6697]

صحیح مسلم کی دوسری روایت میں اس ملک سے مراد مصر ہے جس کا ثبوت یہ ہے:

عَنْ أَبِى ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم إِنَّكُمْ سَتَفْتَحُونَ مِصْرَ وَهِىَ أَرْضٌ يُسَمَّى فِيهَا الْقِيرَاطُ فَإِذَا فَتَحْتُمُوهَا فَأَحْسِنُوا إِلَى أَهْلِهَا فَإِنَّ لَهُمْ ذِمَّةً وَرَحِمًا۔۔الخ

[صحیح مسلم رقم الحدیث 6698]

اس حدیث سے واضح معلوم ہو گیا کہ حضرت ابوذر مصر کے جہاد میں موجود تھے۔اور مصر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سن 16 یا 20 ہجری کو فتح ہوا۔

مصر کی فتح کے بارے میں امام ابن اثیر کی تحقیق 16 ہجری ہے:

فتحت مصر سنة ست عشرة في ربيع الأول

[الکامل فی التاریخ ج1 ص 451]

لیکن اور ائمہ کا فتح مصر کے بارے میں 20 ہجری کا قول ہے جو یہ ہیں:

امام طبری بیان کرتے ہیں:

حدّثنا ابن حميد، قال: حدّثنا سلمة، عن ابن إسحاق، قال: فتحت مصر سنة عشرين.

[تاریخ الطبری ج 2 ص 360]

امام سیوطی لکھتے ہیں:

وفي سنة عشرين فتحت مصر

[تاریخ الخلفاء ص 53]

امام ذہبی کہتے ہیں:

سنة عشرين فيها فتحت مصر

[تاریخ الاسلام ج 1 ص 398]

کثیر اقوال مصر کی فتح کے سن 20 ہجری کے ہیں اور 20 ہجری سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت ہے اور اس فتح میں سیدنا ابوذر موجود تھے جیسے کہ امام ابن عساکر امام ابن یونس سے لکھتے ہیں:

قال ابن يونس شهد فتح مصر واختط بها حدث عنه من أهل مصر عمرو بن العاص وأبو بصرة الغفاري ومعاوية بن خديج

امام ابن یونس نے کہا:

حضرت ابوذر فتح مصر میں شریک ہوئے اور جنگ کی مکمل منصوبہ بندی کی، آپ سے اہل مصر میں حضرت عمرو بن العاص ، ابوبصرہ الغفاری اور معاویہ خدیج نے روایات لیں۔

[تاریخ دمشق لابن عساکر ج 66 ص 176]

اس سے سنابلی کا رد ہو گیا کہ حضرت ابوذر صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی مدینہ سے باہر نکلے تھے۔

اس کے علاوہ امام ذہبی حضرت ابوذر کے بارے میں کہتے ہیں:

وقد شهد فتح بيت المقدس مع عمر.

بے شک انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیت المقدس کی فتح میں شرکت کی۔

[سیراعلام النبلاء ج2 ص 47 رقم 10]

اور امام ابن عساکر لکھتے ہیں:

وشهد فتح بيت المقدس والجابية مع عمر بن الخطاب

اور حضرت ابوذر بیت المقدس اور جابیۃ کی فتح میں حضرت عمر کے ساتھ شرکت کی

[تاریخ دمشق لابن عساکر ج 66 ص 174]

اور ” والجابية” کے بارے میں امام ابن قرقول (متوفی 569ھ) کہتے ہیں:

” ومن ارض الشام”

اور جابیہ شام کی زمین سے ہے۔

[مطالب الانوار ج2 ص 196]

اور بیت المقدس 17 ہجری کو فتح ہوا اور حضرت عمر نے اسی سن ہجری میں جابیہ (شام) کی طرف قدم بڑھایا جس کا ثبوت یہ ہے:

قال يزيد بن عبيدة فتحت بيت المقدس سنة ست عشرة وفيها قدم عمر بن الخطاب الجابية

[البداية والنهاية لابن كثير ج7 ص 57]

اس لئے حافظ ابن کثیر حضرت ابوذر کے بارے میں لکھتے ہیں:

ثم لما مات رسول الله ومات ابو بكر خرج الى الشام

پھر رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابوبکر کے وصال کے بعد آپ (جہاد کے لئے) شام کی طرف چلے گے۔

[البداية والنهاية لابن كثير ج7 ص 165]

لہذا تحقیق سے ثابت ہوا کہ حضرت ابوذر غفاری عہد فاروقی میں مدینہ سے نکل کر مصر، بیت المقدس اور شام کی فتوحات میں شرکت کی اور سنابلی صاحب کا حضرت ابوذر کو مدینہ تک محدود کرنا ایک غیر تحقیقی اور فضول بات ہے جس کا ائمہ حدیث اور تاریخ سے دور دور کا تعلق بھی نہیں۔

لہذا اس سے سنابلی اور امام بخاری کی اس تعلیل کا بھی رد ہو گیا جو انہوں نے حضرت ابوذر کے عہد فاروقی میں شام جانے کا انکار کیا تھا۔

واللہ اعلم

ان شاء اللہ امام بخاری کی تعلیل کا رد اپنی اور تحریر میں ائمہ حدیث کی تحقیق کی روشنی میں پیش کروں گا ۔

 

خادم صحابہ و اہل بیت رضی اللہ عنہم

✍️رضاءالعسقلانی الشافعی غفراللہ لہ

24 اگست 2021