أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَفَلَا يَتَدَبَّرُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ اَمۡ عَلٰى قُلُوۡبٍ اَ قۡفَالُهَا ۞

ترجمہ:

تو کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں

محمد : ٢٤ میں فرمایا : کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں

یعنی یہ لوگ قرآن مجید پڑھتے نہیں اور اس میں برے کاموں پر جو عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اس وعید سے ان پر خوف طاری نہیں ہوتا، تاکہ وہ ان کاموں کو نہ کریں جو عذاب اور ہلاکت کا موجب ہیں اور نیک کاموں پر جو ثواب کا وعدہ کیا ہے اور دائمی جنتوں، نعمتوں اور اللہ کے دیدار اور اس کی بشارت دی گئی ہے اس کو پڑھ کر ان کے دلوں میں آخرت کے اجرو ثواب کے حصول کا شوق پیدا نہیں ہوتا تاکہ ان کے دلوں میں نیک کام کرنے کی تحریک ہو یا ان لوگوں کے دلوں پر ان کی ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قفل ڈال دئیے گئے اور ان پر اس طرح مہر لگادی گئی ہے کہ نصیحت اور ہدایت کی کوئی بات ان کے دلوں میں جاہی نہیں سکتی۔

امام رازی نے اس جگہ یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کو اندھا اور بہرا کردیا ہے تو وہ قرآن میں کسی طرح غور کرسکتے ہیں ؟ پھر اس کا یہ جواب دیا ہے کہ جس کام کی طاقت نہ ہو اس کو مکف کرنا جائز نہیں ہے، ہمارے نزدیک اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ فی نفسہ ان منافقوں کا قرآن مجید میں غور کرنا ممکن ہے، اسی اعتبار سے وہ قرآن مجید میں تدبر کرنے کے مکلف ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ابو جہل اور ابو لہب وغیر ہم کے متعلق خبر دے دی کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کے باوجود وہ ایمان لانے کے مکلف ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں ایمان لانے کی دعوت دیتے رہے۔

یزید پر لعنت کرنے کی بحث اور اس مسئلہ میں علامہ آلوسی کی رائے

علامہ سید محمود آلوسی بغدادی متوفی ١٢٧٠ ھ نے محمد : ٢٢ کی تفسیر میں یزید پر لعنت کرنے کے جواز یا عدم جواز کی بحث کی ہے، ہم پہلے علامہ آلوسی کا کلام نقل کریں گے اور اس کے بعد اس بحث میں دیگر اکابر علماء کی آراء میں نقل کریں گے اور اس کے آخر میں ہم اپنا موقف بیان کریں گے۔

علامہ سید محمود آلوسی لکھتے ہیں :

اس آیت سے یزید علیہ ما یستحقہ پر لعنت کرنے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے، علامہ برزنجی نے ” الاشاعۃ “ میں اور علامہ ہیمتی نے ” الصواعق “ میں نقل کیا ہے کہ جب امام احمد بن حنبل سے ان کے بیٹے عبد اللہ نے یزید پر لعنت کرنے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا : اس پر لعنت کرنا کیوں کر جائز نہیں ہوگا جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے ؟ عبد اللہ نے کہا : میں نے تو اللہ عزوجل کی کتاب پڑھی ہے، مجھے تو اس میں یزید پر لعنت کرنے کا ذکر کہییں نہیں ملا، امام احمد نے کہا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

……(محمد : ٢٣۔ ٢٢ )

تم سے یہ بعید نہیں کہ اگر تم کو زمین میں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد کروں گے اور رشتے توڑ ڈالو گے یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی۔

اور یزید نے جو کچھ آلِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیا اس سے بڑھ کر فساد اور رشتوں کو توڑنا اور کیا ہوگا ؟

امام احمد کا یہ قول اس اصول پر مبنی ہے کہ معین پر لعنت کرنا جائز ہے اور اس میں اختلاف ہے، جمہور اس پر متفق ہیں کہ معین فاسق پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا ذمی، زندہ ہو یا مردہ، جس کی کفر پر موت دلیل سے معلوم نہ ہو، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ موت سے پہلے اسلام لے آئے، بہ خلاف اس شخص کے جس کی کفر پر موت معلوم ہو جیسے ابو جہل وغیرہ۔

شیخ الاسلام السراج البلقینی کا مذہب یہ ہے کہ فاسق معین پر لعنت کرنا جائز ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کرے اور اس کا شوہر اس پر غصہ میں رات گزارے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٩٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٣٦، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢١٤١، مسند احمد ج ٢ ص ٤٣٩)

لیکن اس استدلال پر یہ اعتراض ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ ملائکہ (علیہم السلام) خصوصیت سے اس عورت پر لعنت نہ کرتے ہوں بلکہ وہ بالعموم لعنت کرتے ہوں کہ جو عورت اپنے شوہر کے بستر پر آنے سے انکار کرکے رات گزارے اس پر اللہ کی لعنت ہو۔

علامہ ابن حجر مکی نے ” الزواجر “ میں لکھا ہے کہ اگر شخص معین پر لعنت کے جواز میں درج ذیل حدیث سے استدلال کیا جائے تو زیادہ واضح ہے :

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گدھے کے پاس سے گزرے جس کے چہرہ پر لوہا گرم کرکے داغ لگایا ہوا تھا، آپ نے فرمایا : اللہ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس پر داغ لگایا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١١٧، الرقم المسلسل : ٥٤٤٨ )

بہ ظاہر یہ ہے کہ آپ نے اس معین شخص پر لعنت کی ہے جس نے اس گدھے پر داغ لگایا تھا، تاہم اس میں یہ تاویل کی جاسکتی ہے کہ آپ کی مراد وہ معین شخص نہیں تھا بلکہ جانوروں کے منہ پر داغ لگانے والے بالعموم لوگ مراد تھے۔

اور اس قول کی بناء پر کہ فاسق معین پر لعنت کرنی جائز ہے، یزید پر لعنت کرنے کے مسئلہ میں زیادہ توقف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ اس میں بہ کثرت اوصاف خبیثہ تھے اور وہ بہت کبائر کا ارتکاب کرتا تھا اور امام طبرانی نے سند حسن کے ساتھ یہ حدیث روایت کی ہے :

اے اللہ ! جو اہل مدینہ پر ظلم کرے اور ان کو دھمکائے تو اس کو دھمکا، اس پر اللہ کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، اس کا فرض قبول کیا جائے گا نہ نفل۔ (المعجم الطبرانی رقم الحدیث : ٦٦٣٧۔ ٦٦٣٦، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٠٥ ھ)

اور یزید نے واقعہ حرہ میں اہل مدینہ پر ظلم کیا اور ان کو دھمکایا، اہل مدینہ کو قتل کیا، ان کے اموال لوٹ لیے، مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے اور تین دن اذان نہ ہوسکی اور سب سے بڑی قیامت یہ ہے کہ اس نے اہل بیت پر ظلم کیا اور حضرت حسین (علیہ السلام) کے قتل پر راضی ہوا اور ان کے گھر والوں کی اہانت کی اور یہ خبر تواتر سے ثابت ہے، اگرچہ اس کی تفاصیل اخبار احاد سے ثابت ہیں، اس سلسلہ میں ایک اور حدیث یہ ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں چھ شخصوں پر لعنت کرتا ہوں اور ہر نبی نے ان پر لعنت کی ہے اور ہر نبی کی دعا مستجاب ہوتی ہے : (١) جو اللہ کی کتاب میں زیادتی کرے (٢) جو اللہ کی تقدیر کا انکار کرے (٣) جو جبر سے لوگوں پر مسلط ہوجائے تاکہ ان کو عزت دے جن کو اللہ نے ذلیل کیا اور ان کو ذلیل کرے جن کو اللہ نے عزت دی (٤) جس کو اللہ نے حرام کیا کو حلال کرے (٥) اور میری اولاد پر ان کاموں کو حلال کرے جن کو اللہ نے حرام کیا (٦) اور میری سنت کو (بہ طور اہانت) ترک کرے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٥٤، المستدرک ج ا ص ٣٦، الجامع الصغیر، السنۃ لابی العاصم رقم الحدیث : ٤٤، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ١٩) (ان دونوں حدیثوں سے استدلال کرنے پر یہ اعتراض ہے کہ ان کی سندضعیف ہے) ۔

اور یزید کے کفر اور اس پر لعنت کرنے کے جواز کی علماء کی ایک جماعت نے تصریح کی ہے، ان میں سے حافظ ابن جوزی ہیں اور ان سے پہلے امام ابو یعلیٰ ہیں اور علامہ تفتا زانی نے (شرح عقائد) میں لکھا : ہم یزید کے معاملہ میں کوئی توقف نہیں کرتے نہ اس کے ایمان میں توقف کرتے ہیں، اس پر اور اس کے حامیوں اور مددگاروں پر اللہ کی لعنت ہو، علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی اس پر لعنت کے جواز کی تصریح کی ہے اور ابن الوردی کی ” تاریخ “ میں اور ” کتاب الوافی “ میں بھی یہ تصریح ہے۔

اور جب اہل بیت قید کرکے عراق میں یزید کے پاس لائے گئے تو وہ حضرت علی اور حضرت حسین (رض) کی اولاد اور خواتین سے ملا، اس وقت شہداء کربلا کے مبارک سرنیزوں پر تھے اور وہ اس وقت جیرون کی وادی میں تھے، یزید نے ان کو دیکھ کر یہ اشعار پڑھے :

………… جب اونٹوں کا یہ قافلہ ظاہر ہوا

………… اور جیرون کے کنارے پر ان کے سرنیزوں پر بلند ہوئے

………… کوّا بولنے لگا تو میں نے کہا تو بول یا نہ بول

………… میں نے تو رسول اللہ سے اپنے قرضے وصول کرے لیے

یزید کی مراد یہ تھی کہ جنگ بدر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے ناناعتبہ کو اور اس کے ماموں ولید بن عتبہ کو اور اس کے دوسرے رشتہ داروں کو قتل کردیا تھا تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسہ اور نواسے کے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کو قتل کرکے بدلہ لے لیا اور پرانے قرضے وصول کرلیے۔ اور یہ کفر صریح ہے، پس جب یہ اشعار اس سے صحت کے ساتھ ثابت ہوں تو اس کا کفر ثابت ہوجائے گا۔

(اس پر یہ اعتراض ہے کہ یہ دلیل قطعی سے ثابت نہیں ہے کہ یہ یزید کے کہے ہوئے اشعار ہیں۔ )

امام غزالی نے یہ فتویٰ دیا کہ ہزید پر لعنت کرنا حرام ہے اور علامہ سفارینی حنبلی اور ابن جوزی حنبلی نے ان کی مخالفت کی اور ” کتاب الفروع “ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ہمارے بعض اصحاب نے حجاج کو اسلام سے خارج کردیا، ان پر اعتراض ہوا کہ پھر یزید کو کیا کہا جائے گا اور امام احمد کی تصریح اس کے خلاف ہے اور یہی ہمارے اصحاب کا مذہب ہے۔ شیخ ابن تیمیہ نے کہا : امام احمد کے کلام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یزید پر لعنت کرنا مکروہ ہے۔ (علامہ سفارینی لکھتے ہیں :) میں کہتا ہوں کہ مختار وہ ہے جو علامہ ابن جوزی، ابو حسین قاضی اور ان کے موافقین نے کہا، یعنی یزید پر لعنت کرنی جائز ہے۔ علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب ” اسرا لمصون “ میں لکھا ہے کہ عام لوگوں کو اعتقاد یہ ہے کہ یزید کا موقف صحیح تھا اور حضرت حسین (رض) نے اس کے خلاف خروج کرنے میں عطا کی اور اگر وہ تاریخ کی کتابوں کو پڑھتے کہ اس کی بیعت کس طرح لی گئی تھی اور کس طرح لوگوں کو مجبور کیا گیا اور اس نے اس دور میں ہر قسم کے قبیح کام کیے اور اگر ہم فرض کرلیں کہ اس کی بیعت صحیح تھی تو بعد میں اس نے ایسے کام کیے کہ ان میں سے ہر کام اس کی بیعت کے فسخ کو واجب کرتا ہے اور یزید کی طرف وہی مائل ہوگا جو جائل ہوگا۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یزید کے متعلق اختلاف ہے، بعض کا قول یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا اور اس نے اہل بیت کرام کے ساتھ جو کچھ کیا اس سے وہ گناہ گار ہوا لیکن اس وجہ سے اس پر لونت کرنا جائز نہیں ہے اور بعض نے کہا : وہ اسی طرح تھا لیکن اس پر لعنت کرنا مکروہ ہے یا بغیر کراہت کے جائز ہے اور بعض نے کہا : وہ کافر ملعون ہے اور بعض نے کہا : اس نے کوئی گناہ نہیں کیا اور اس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے اور اس قول کا قائل یزید کے حامیوں کے سلسلہ میں منسلک ہے (ہمارے زمانہ میں محمود عباسی اور اس کے حامیوں کا یہی مذہب ہے) ۔ (علامہ آلوسی لکھتے ہیں :) اور میں کہتا ہوں کہ میرا ظن غالب یہ ہے کہ وہ خبیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا مصدق نہیں تھا اور اللہ کے حرم (کعبہ مکرمہ) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم (اہل مدینہ) کے ساتھ اس کے افعال کا مجموعہ اور آپ کی عترت طیبہ طاہرہ کے ساتھ جو اس کا سلوک رہا، اس سے اس کا تنا ایمان بھی ظاہر نہیں ہوتا جتنا اس کا ایمان ہو، جو قرآن مجید کو گندگی میں ڈال دے۔ العیاذ باللہ۔ اور میرا یہ گمان نہیں ہے کہ اس کا حال اکابر مسلمانوں سے مخفی تھا لیکن وہ حضرات مضبور اور مقہور تھے اور صبر کے سوا ان کے لے اور کوئی چارہ کار نہ تھا اور اگر مان لیا جائے کہ وہ خبیث مسلمان تھا تو وہ اتنے زیادہ گناہ ہائے کبیرہ کے ساتھ مسلمان تھا جن کا شمار بیان میں نہیں آسکتا اور میر امذہب یہ ہے کہ اس جیسے شخص پر معین کرکے لعنت کرنا جائز ہے اور یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ فاسقوں میں اس کی کوئی مثال ہوسکتی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ اس نے اپنے افعال پر توبہ نہیں کی اور اس کی توبہ کا احتمال اس کے ایمان کے احتمال سے بھی زیادہ ضعیف ہے اور ابن زیاد، ابن سعد اور ان کے متبعین بھی اسی کے ساتھ لاحق ہیں، اللہ تعالیٰ کی ان سب پر لعنت ہو اور ان کے انصار و اعوان پر اور انکی جماعت پر اور قیامت تک جو بھی ان کی طرف مائل ہو ان سب پر اللہ کی لعنت ہو اور جو ان پر شخصی لعنت کرنے سے احتیاط کی وجہ سے گریز کرتا ہو، اس کو یوں کہنا چاہیے کہ جو شخص قتل حسین سے راضی ہو اور جس شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عترت طاہرہ کو ناحق اذیت پہنچائی اور جس شخص نے ان کا حق غصب کیا، ان سب پر اللہ عزوجل کی لعنت ہو اور اب وہ یزید اور اس کے موافقین پر صراحت کے ساتھ لعنت کرنے والا نہیں ہوگا اور ان الفاط کے ساتھ لعنت کرنے میں کسی کا اختلاف نہیں ہوگا، سوا علامہ ابوبکر ابن العربی اور ان کے موافقین کے جیسا کہ ان سے منقول ہے وہ اس پر لعنت کرنے کا جائز نہیں کہتے جو حضرت حسین (رض) کے قتل پر راضی ہو اور یہ ایسی گمراہی ہے جو یزید کی گم راہی سے بھی بڑھ کر ہے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١١١۔ ١٠٨، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

ہم علامہ آلوسی کی اس آخری عبارت سے سو فی صد متفق ہیں، جیسا کہ عنقریب ہمارے مؤقف سے واضح ہوگا۔

لعن یزید کے بارے میں علامہ ابن حجر مکی کی رائے۔

علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ یزید اصل میں مسلمان ہے اور ہم اسی اصل کا قول کرتے ہیں جب تک کہ کسی دلیل قطعی سے اس کا اس اصل سے اخراج ثابت نہ ہو، اسی وجہ سے محققین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ یزید کے معاملہ میں صحیح بات یہ ہے کہ توقف کیا جائے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا جائے، کیونکہ وہ پوشیدہ چیزوں اور دلوں کے بھید کو جاننے والا ہے، اس لئے ہم اس کی تکفیر کے قطعاً درپے نہیں ہیں اور اسی قول میں سلامتی ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان تھا لیکن فاسق، شریر اور ظالم تھا۔

نیز علامہ ابن حجر مکی لکھتے ہیں کہ یزید کے فسق پر اتفاق کے بعد اس میں اختلاف ہے کہ اس کا نام لے کر اس پر لعنت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ علامہ ابن جوزی نے اس کو جائز قرار دیا ہے اور اس کو امام احمد وغیرہ سے نقل کیا ہے اور اپنی کتاب ” الردعلی المتعصب العنید المانع من ذم یزید “ میں لکھا ہے کہ مجھ سے ایک سائل نے سوال کیا : کیا یزید پر لعنت کرنا جائز ہے ؟ میں نے کہا : نیک اور متقی علماء نے یزید پر لعنت کی ہے اور ان میں سے امام احمد بن حنبل ہیں۔ انہوں نے یزید کے بارے میں لکھا ہے : اس پر لعنت ہو۔ پھر علامہ ابن جوزی نے کہا کہ قاضی ابو یعلیٰ الفراء نے اپنی کتاب ” المعتمد فی الاصول “ میں اپنی سند کے ساتھ لکھا ہے کہ صالح بن احمد بن حنبل نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد امام احمد سے کہا کہ لوگ ہمیں یزید کی محبت کا طعنہ دیتے ہیں تو میرے والد (امام احمد) نے فرمایا : اے بیٹے ! کیا جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ یزید سے محبت کرسکتا ہے ؟ اور اس پر کیوں نہ لعنت کی جائے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں لعنت کی ہے۔ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یزید پر کہاں لعنت کی ہے ؟ تو انہوں نے کہا : اس آیت میں :”……“ (محمد : ٢٣۔ ٢٢) ” پھر تم سے بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو (اقتدار کے نشہ میں) تم زمین میں فساد کروں گے اور اپنی قرابتوں کو منقطع کرو گے، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے، اللہ تعالیٰ ایک کتاب لکھی ہے جس میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو لعنت کے مستحق ہیں، اور ان میں یزید کا ذکر کیا ہے پھر یہ حدیث ذکر کی ہے : جس نے ظلماً اہل مدینہ کو دھمکایا (ڈرایا) اس کو اللہ تعالیٰ دھمکائے گا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یزید نے لشکر بھیج کر اہل مدینہ کو ڈرایا دھمکایا۔ قاضی ابو یعلیٰ نے جس حدیث کا کیا، یہ سب چیزیں مشہور ہیں، حتیٰ کہ تین سو کنواری لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی، تقریباً تین سو صحابہ قتل کئے گئے اور سات سو قرآن مجید کے قاری قتل کئے گئے، کئی دن تک مدینہ مباح رہا، مسجد نبوی میں کئی دن تک جماعت معطل رہیی۔ کسی شخص کے لئے مسجد نبوی میں جانا ممکن نہیں تھا، حتیٰ کہ مسجد نبوی میں کتے اور بھیڑیے داخل ہوتے رہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منبر پر پیشاب کرتے رہے (انا اللہ وانا الیہ راجعون) اور اس لشکر کا امیر اس وقت تک راضی نہیں ہوتا تھا جب تک کہ لوگ اس پر بیعت نہ کرلیں کہ وہ یزید کے غلام ہیں وہ چاہے تو ان کو بیچ دے اور چاہے تو ان کو آزاد کردے اور جن مسلمانوں نے یہ کہا کہ ہم کتاب اللہ اور سنت رسول پر بیعت کرتے ہیں تو اس نے ان کی گردن اڑا دی، یہ واقعہ حرہ تھا، پھر یہ لشکر حضرت ابن الزبیر سے جنگ کے لئے گیا اور انہوں نے کعبہ پر منجنیق سے پتھر برسائے اور اس میں آگ لگا دی، ان برائیوں سے بڑھ کر کون سی برائی ہوگی ؟

علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ علماء کا دوسرا فریق یہ کہتا ہے یزید پر لعنت جائز نہیں ہے کیونکہ ہمارے نزدیک وہ ثابت نہیں ہوئی جو لعنت کا تقاض کرتی ہے۔ امام غزالی کا اسی پر فتویٰ ہے اور یہی چیز ہمارے ائمہ کے بیان کردہ قواعد کے لائق ہے۔ کیونکہ انہوں نے تصریح کی ہے کہ کسی شخص معین پر اس وقت تک لعنت کرنا جائز نہیں ہیجب تک کہ س کی کفر پر موت کا یقین نہ ہوجائے کیونکہ لعنت کا مظلب ہے کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بالکل دور کردیا جائے، حتیٰ کہ وہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہوجائے اور یہ چیز اسی کے لئے جائز ہے جس کی کفر پر موت کا یقین ہو اور جس کی کفر پر موت کا یقین نہ ہو اس پر لعنت جائز نہیں ہے۔ حتیٰ کہ کافر پر اس کی زندگی میں لعنت کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ممکن ہے وہ مرنے سے پہلے مسلمان ہوجائے نیز انہوں نے تصریح کی ہے کہ کسی معین مسلمان فاسق پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے اور جب تم نے ان کی یہ تصریحات جان لیں تو یہ حسین کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا اور وہ اس پر خوش ہوا تھا، پھر بھی وہ کافر نہیں ہے، کیونکہ اس نے قتل کو جائز اور حلال نہیں سمجھا تھا اور اگر جائز سمجھا تھا تو تاویل سے سمجھا تھا خواہ وہ تاویل باطل تھی اور یہ کفر نہیں ہے، علاوہ ازیں اس کا حضرت حسین کو قتل کرنے کا حکم دینا اور اس پر خوش ہونا کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے، بلکہ روایت صحیحہ سے اس کے خلاف ثابت ہے اور امام احمد نے قرآن مجید کی جس آیت سے یزید پر لعنت کا استدلال کیا ہے اور حدیث مسلم ” ……“ سے جس نے یزید پر لعنت کا استدلال کیا تو ان دونوں سے یزید پر اسکا نام لے کر بخصوصہ لعنت کرنا ثابت نہیں ہوتا۔ اور گفتگو اسی میں ہے۔ البتہ ان دلائل سے ان صفات پر لعنت کا جواز ثابت ہوتا ہے اور یہ بلاشبہ جائز ہے اور اس پر اتفاق ہے کہ یزید کا نام لیے بغیر یہ کہنا جائز ہے کہ جس شخص نے حضرت حسین کو قتل کیا یا قتل کا حکم دیا یا قتل کو جائز قرار دیا اسی پر راضی ہوا اس پر لعنت ہوم جس طرح بغیر تعین کے یہ کہنا جائز ہے کہ مثلاً شراب پینے والے پر لعنت ہو اور یہی چیز آیت اور حدیث میں ہے، کیونکہ آیت میں کسی کا نام لیے بغیر یہ ہے کہ جو قرابت کو منقطع کرے اور زمین میں فساد کرے اس پر لعنت ہو، اسی طرح حدیث میں نام لیے بغیر ہے جو اہل مدینہ کو ڈرائے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو، لہٰذا امام احمد وغیرہ کا اس آیت سے شخص معین پر بخصوصہ کا استدلال کس طرح صحیح ہوسکتا ہے ؟ پس واضح ہوگیا کہ بخصوصہ لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ (الصواعق المحرقہ ٢٢٣۔ ٢٢١، مصر)

لعن یزید کے بارے میں اعلیٰ حضرت کی رائے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں لکھتے ہیں : یزید پلید علیہ ما یستحقہ من العزیز المجید قطعاً یقینا باجماع اہل سنت فاسق وفاجر وجری علی الکبائر تھا۔ اسی قدر پر ائمہ اہل سنت کا اطباق و اتفاق ہے، صرف اس کی تکفیر و لعن میں اختلاف فرمایا۔ امام احمد بن حنبل (رض) اور ان کے اتباع و موافقین اسے کافر کہتے ہیں اور بہ تخصیص نام اس پر لعنت کرتے ہیں اور اس آیہ کریمہ سے اس پر سند لاتے ہیں :”……“ (محمد : ٢٣۔ ٢٢) کیا قریب ہے کہ اگر والی ملک ہو تو زمین میں فساد کرو اور اپنے نسبی رشتہ کاٹ دو ، یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی تو انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ شک نہیں کہ یزید نے والی ملک ہو کر زمین میں فساد پھیلایا، حرمین طیبین وخود کعبہ معظمہ اور روضہ طیبہ کی سخت بےحرمتیاں کیں، مسجد کریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اور پیشاب منبراطہر پر پڑے، تین دن مسجد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بےاذان و نماز رہی، مکہ و مدینہ و حجاز میں ہزاروں صحابہ وتابعین بےگناہ شہید کیے، کعبہ معظمہ پر پتھر پھینکے۔ غلاف شریف پھاڑا اور جلایا، مدینہ طیبہ کی پاک دامن پارسائیں تین شبانہ روز اپنے خبیث لشکر میں حلال کردیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جگر پارے کو تین دن بےآب و دانہ رکھ کر مع ہمراہیوں کے تیغ ظلم سے پیاسا ذبح کیا، مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گود کے پالے ہوئے تنِ نازنیں پر بعد شہادت گھوڑے دوڑائے گئے کہ تمام استخوان مبارک چور ہوگئے، سر انور کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بوسہ گاہ تھا، کاٹ کر نیزہ پر چڑھایا اور منزلوں پھرایا، حرم محترم مخدرات مشکوے رسالت قید کیے گئے اور بےحرمتی کے ساتھ اس خبیث کے دربار میں لائے گئے، اس سے بڑھ کر قطع رحم اور زمین میں فساد کیا ہوگا۔ معلون ہے وہ جو ان ملعون حرکات کو فسق و فجور نہ جانے، قرآن مجید میں صراحتہً اس پر ” لعنھم اللہ “ فرمایا ‘ لہٰذا امام احمد اور ان کے موافقین اس پر لعنت فرماتے ہیں اور ہمارے امام اعظم (رض) لعن و تکفیر سے احتیاطً سکوت کہ اس سے فسق و فجور متواتر ہیں، کفر متواتر نہیں اور بحال احتمال، نسبت کبیرہ بھی جائز نہیں نہ کہ تکفیر اور امثال وعیدات مشروط بعد توبہ ہیں۔ لقولہ تعالیٰ :”……۔ …“ (مریم : ٦٠۔ ٥٩) اور توبہ تادم غررہ مقبول ہے اور اس کے عدم پر جزم نہیں اور یہی احوط واسلم ہے، مگر اس کے فسق و فجور سے انکار کرنا اور امام مظلوم پر الزام رکھنا ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنت کے خلاف ہے اور ضلالت و بد مذہبی صاف ہے بلکہ انصافاً یہ اس قلب سے متصور نہیں جس میں محبت سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شمہ ہو ”……“ (الشعرائ : ٢٢٧) (فتاویٰ رضویہ ج ٦ ص ١٠٨۔ ١٠٧، مکتبہ رضویہ، کراچی)

یزید کی تکفیر اور اس پر لعنت کے سلسلہ میں مصنف کا مؤقف

یزید کے تین یوم متواتر ہیں، اس نے حضرت حسین بن علیی (رض) سے جبری بیعت لینے کے لئے عبید اللہ بن زیاد کو روانہ کیا اور اس کو حضرت حسین کے مرتبہ اور مقام کی رعایت کرنے کی کوئی ہدایت نہیں کی۔ اس نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا یا نہیں اور قتل کی خبر سن کر خوش ہوا تھا یا نہیں ؟ اسمیں مورخین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں اس نے قاتلین کو کوئی سزا نہیں دی جب کہ وہ سزا دینے پر پوری طرح قادر تھا اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ قتل اس کے ایماء سے ہوا اور وہ اس قتل سے راضی تھا۔ حضرت حسین (رض) اور ان کے رفقاء پر کربلا میں جو ظلم و ستم ڈھایا گیا اور پھر ظالموں سے یزید نے بحیثیت حاکم کوئی باز پرس نہیں کی، انہیں مظالم کی وجہ سے بعض علماء (امام احمد، علامہ ابن جوزی اور علامہ تفتازانی وغیرہ) نے یزید پر لعنت کی ہے، ہرچند کہ محققین اور محتاط علماء نے یزید پر شخصی لعنت کرنے سے منع کیا ہے اور اسی میں سلامتی سمجھی ہے کہ یزید کے معاملے کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔

یزید کا دوسرا جرم مدینہ منورہ پر حملہ کا حکم دینا اور تین دن کے لئے مدینہ میں لوٹ مار، قتل و غارت گری اور عصمت دری کی عام اجازت دینا ہے، اس وجہ سے بھی علماء نے یزید پر شخصی لعنت کی ہے اور تیسرا جرم مکہ مکرمہ پر حملہ کا حکم دینا اور کعبہ کو جلانا ہے۔

قاضی ابوبکر ابن العربی نے ” العواصم من القواصم “ میں لکھا ہے کہ امام احمد نے ” کتاب الزہد “ میں یزید کا ذکر اخیار تابعین میں کیا ہے۔ میں نے ” کتاب الزہد “ پوری پر ھی اس میں یزید کا ذکر نہیں ہے۔ اس معاملہ میں یقینا ابن عربی کو وہم ہوا ہے۔ علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ ابن العربی کا یزید کو برحق اور حضرت حسین کو خاطی قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ہم اس نظریہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔ جس شخص نے آل رسول پر ظلم کیے، حرم مدینہ کی بےحرمتی کی، خانہ کعبہ کو جلایا، ہمارے دل میں اس کے بارے میں نرمی کا کوئی شمہ نہیں ہے، یہ شخص بہت بڑا ظالم اور فاسق و فاجر تھا، اگر ہمیں شرعی حدود وقیود اور قواعد شرعیہ کا پاس نہ ہوتا تو ہم یزید پر کفر کا حکم لگا دیتے اور اس پر شخصی لعنت کرنے میں ہمیں کوئی تامل نہ ہوتا۔

یزید پر لعنت کرنے کی مکمل بحث ہم نے ” شرح صحیح مسلم “ ج ٣ ص ٦٣٧۔ ٦١٤ میں لکھی ہے جو قارئین اس موضوع پر زیادہ تفصیل جاننا چاہتے ہوں وہ اس بحث کا وہاں مطالعہ فرما لیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 24