أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ حَسِبَ الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ اَنۡ لَّنۡ يُّخۡرِجَ اللّٰهُ اَضۡغَانَهُمۡ ۞

ترجمہ:

کیا جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے، انہوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اللہ انکے دلوں کے کینہ کو ظاہر نہیں فرمائے گا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا رارشاد ہے : کیا جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کی) بیماری ہے، انہوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ اللہ انکے دلوں کے کینہ کو ظاہر نہیں فرمائے گا اور اگر ہم چاہتے تو ہم ضرور یہ سب لوگ (منافقین) آپ کو دکھا دیتے اور آپ ضرور ان کو ان کے چہروں سے پہنچان لیتے، اور آپ ضرور انکو ان کی طرز گفتگو سے پہچان لیں گے اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے اور ہم ضرورتم کو امتحان میں ڈالیں گے حتیٰ کہ تم میں سے مجاہدین اور صابرین کو ظاہر کردیں گے اور تمہاری خبروں کو پرکھ لیں گے بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کی، وہ کبھی بھی اللہ کو نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور عنقریب اللہ ان کے اعمال کو ضائع کردے گا (محمد : ٣٢۔ ٢٩ )

اللہ تعالیٰ کا منافقین کے نفاق کا پردہ چاک فرمانا

اس آیت میں ” اضغان “ کا لفظ ہے یہ ” ضغن “ کی جمع ہے، دل میں جو ناپسندیدہ بات چھاپئی جائے اس کو ” ضغن “ کہتے ہیں، سدی نے کہا : اس کا معنی ہے : دل کا کھوٹ اور زنگ۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : اس کا معنی : ان کا حسد۔ قطرب نے کہا : اس کا معنی ہے : ان کی عداوت۔ جوہری نے کہا :” ضغن “ اور ” ضغینہ “ کا نع ہے : کینہ۔

اس آیت کا تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ کیا منافقین یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر منافقین کے باطن کو منکشف فرما دے گا اور تمام اہل فہم پر ان کا حال واضح ہوجائے گا اور نہیں فرمائے گا، نہیں نہیں بلکہ عنقریب اللہ تعالیٰ ان کے باطن کو منکشف فرما دے گا اور تمام اہل فہم پر ان کا حال واضح ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ میں ایسی آیات نازل فرما دیں جن سے ان کے نفاق کا پردہ چاک ہوگیا، سورة توبہ کی وہ آیات یہ ہیں :

……………(التوبہ : ٨٨۔ ٨١)

ترجمہ : جن کو جنگ میں رسول اللہ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت دی گئی تھی وہ اللہ کی راہ میں اپنے بیٹھے رہنے سے خوش ہوئے اور انہوں نے اس کو ناپسند کیا کہ وہ اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور انہوں نے کہا : گرمی میں نہ نکلو، آپ کہیے کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے اگر وہ سمجھتے پس ان کو چاہیے کہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ یہ ان کاموں کی سزا ہے جو وہ کرتے تھے سو (اے رسولِ مکرم ! ) اگر اللہ آپ کو ان منافقوں کے کسی گروہ کی طرف واپس لائے اور یہ آپ سے جہاد میں جانے کی جازت طلب کریں تو آپ ان سے کہیں کہ اب تم کبھی بھی میرے ساتھ نہ جا سکوں گے اور کبھی میرے ہمراہ دشمن سے قتال نہیں کرو گے تم پہلی بار بیٹھنے پر راضی ہوئے، سو اب پیچھے رہ جائے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو اور جو ان میں سے مرجائے تو آپ کبھی بھی ان میں سے کسی کی نمازجنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں، بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کھڑے ہوں، بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا اور یہ نافرمانی کی حالت میں مرے آپ ان کے اموال اور اولاد پر تعجب نہ کریں اللہ یہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں کی وجہ سے ان کو دنیا میں عذاب دے اور حالت کفر میں ان کی جانیں نکلیں اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے کہ تم اللہ پر ایمان لائو اور اس کے رسول کے ساتھ (مل کر) جہاد کرو تو ان میں سے متمول لوگ آپ سے اجازت مانگنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو چھوڑ دیجئے، ہم بیٹھنے والوں کے ستھ رہ جائیں انہوں نے یہ پسند کیا کہ وہ پیچھے رہ جانے والی عورتوں کے ساتھ ہوجائیں اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے سو وہ نہیں سمجھتے لیکن رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں نے اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور ان ہی کے لئے سب اچھائیاں ہیں اور وہی کامیاب ہونے والے ہیں

سورة توبہ کی ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا پردہ فاش کردیا اور جہاد سے کترانے اور ان کی بزدلی کو بیان فرمایا ہے اسی وجہ سے سورة توبہ کا ایک نام الفاضحہ بھی ہے یعنی رسوا کرنے والی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 29