الفصل الثانی

دوسری فصل

حدیث نمبر 687

روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوخصی چتکبرے سینگ والے بکرے بقرعید کے دن ذبح کیے ۱؎ جب انہیں قبلہ رو لٹایا تو فرمایا کہ میں نے اپنے کو اس کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمان و زمین پیدا کیے دین ابراہیمی پر ہوں ہر بے دینی سے الگ مشرکوں میں سےنہیں ہوں۲؎ یقینًا میری نمازمیری قربانی میری زندگی اور میری موت رب العلمین کے لیئے ہے اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم ملا اور میں مطیعین سے ہوں۳؎ الٰہی یہ تجھ سے ہے اورتیرے لیئے ہے محمدمصطفےٰصلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت کی طرف سے۴؎ بسم اﷲ اﷲ اکبر،پھر ذبح فرمایا۔(احمد،ابوداؤد،ابن ماجہ،دارمی)اوراحمد،ابوداؤد و ترمذی کی دوسری روایت میں ہے کہ اپنے ہاتھ سے ذبح فرمایا اورکہا بسم اﷲ اکبر الٰہی یہ میری طرف سے اور میرے اس امت کی طرف سے جو قربانی نہ کرسکے ۵؎

شرح

۱؎ مدینہ منورہ میں،کیونکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقعہ پر تو سو اونٹ ذبح کیے تھے نہ دو بکرے اور مکہ معظمہ کی دوسری قربانیاں حضرت جابر نے دیکھی نہیں کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ انصاری ہیں،مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات دیکھتے تھے۔اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو کہتے ہیں کہ قربانی صرف مکہ مکرمہ میں چاہیئے اور کہیں نہیں۔اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ خصی جانور کی قربانی جائز ہے کہ خصی ہونا عیب نہیں بلکہ کمال ہے کہ خصی کا گوشت اعلیٰ ہوتا ہے،یوں ہی خصی بیل،خصی بھینسے کی بھی قربانی درست ہے۔

۲؎ علماءفرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲ تعالٰی نے ہمیشہ یعنی نبوت کےظہورسے پہلے اور بعدشرک وکفر اور گناہ سےمحفوظ رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اول عمر ہی سے عابدوزاہد تھے،کسی عبادت میں کسی دوسرے نبی کی اتباع نہ کی بلکہ ظہورنبوت سے پہلے دین ابراہیمی کی عبادتیں کرتے تھے جو اسلامی عبادات کے مطابق تھیں۔جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی آئی تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم غارِحرا میں اعتکاف وعبادات کررہے تھے۔(شامی وغیرہ)

۳؎ یہ قرآن کریم کی آیت ہے جسےحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ نماز شروع کرتے وقت اور قربانی کرتے وقت پڑھا۔یہاں نسک سے مراد قربانیاں ہیں ورنہ اس موقعہ پر یہ آیت پڑھنا درست نہ ہوتا۔اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو کہتے ہیں کہ قربانی کا ثبوت قرآن سےنہیں۔خیال رہے کہ نُسُك جمع ہے نَسِیْکہ کی،اس کے معنی اعمال حج بھی ہیں اور قربانیاں بھی مگر یہاں قربانی مراد ہے اس کی تفسیر وہ آیت ہے”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ”۔

۴؎ یعنی خدایا یہ قربانی تیری توفیق سے تیرے راضی کرنے کے لیئے کررہا ہے،اسے میرے اورمیری امت کی طرف سے قبول فرما،اس کی شرح ہوچکی۔

۵؎ یعنی تا قیامت فقرائے امت کی طرف سے میری یہ دوسری قربانی ہے،اب امرائے امت کو چاہیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کیا کریں۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ قربانی واجب ہے اور مالی عبادات میں نیابت جائز ہے۔