أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ذٰلِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡا لِلَّذِيۡنَ كَرِهُوۡا مَا نَزَّلَ اللّٰهُ سَنُطِيۡعُكُمۡ فِىۡ بَعۡضِ الۡاَمۡرِ ۖۚ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اِسۡرَارَهُمۡ ۞

ترجمہ:

اس کی وجہ یہ ہے کہ منافقوں نے ان لوگوں سے کہا جو اللہ کے کلام کو ناپسند کرتے تھے کہ ہم بعض کاموں میں تمہاری موافقت کریں گے، اور اللہ ان کی چھپی ہوئی باتوں کو خوب جانتا ہے

محمد : ٢٦ میں فرمایا : اس کی وجہ یہ ہے کہ منافقوں نے ان لوگوں سے کہا جو اللہ کے کلام کو ناپسند کرتے تھے کہ ہم کاموں میں تمہاری موافقت کریں گے، اور اللہ ان کی چھپی ہوئی باتوں کو خوب جانتا ہے

یہودی اور مشرکین کس چیز میں ایک دوسرے کے موافق تھے اور کس چیز میں مخالفت تھے ؟

اس آیت میں ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے مشرکین سے یہ کہا تھا کہ ہم بعض باتوں میں تمہاری موافقت کرتے ہیں یہ کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول نہیں ہیں اور یہ کہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے، لیکن ہم اس میں تمہاری موافقت نہیں کرتے کہ اللہ کے ساتھ بتوں کی بھی عبادت کرنی چاہیے اور اس میں کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے اور اس میں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی ہدایت کے لئے رسول نہیں بھیجتا اور نہ اس میں کہ موت کے بعد حشر و نشر، حساب و کتاب، جز اء و سزا اور جنت اور دوزخ نہیں ہوگی۔

اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مشرکین نے یہودیوں سے کہا ہو کہ ہم اس چیز میں تمہاری موافقت کرتے ہیں کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعویٰ نبوت میں جھوٹے ہیں اور قرآن اللہ کا نازل کیا ہوا کلام نہیں ہے لیکن ہم اس بات میں تمہاری موافقت نہیں کرتے کہ بت پرستی باطل ہے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ہوگی اور حساب و کتاب، جزاء سزا اور جنت اور دوزخ ہوگی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اللہ ان کی چھپی ہوئی باتوں کو خوب جانتا ہے کہ یہ ضد اور عناد سے آپ کی نبوت کا انکار کررہے ہیں ورنہ ان کو خوب علم ہے کہ آپ اپنی نبوت کے دعویٰ میں صادق ہیں، لیکن یہ تکبر کہ وجہ سے اور اپنے آباء و اجداد کی تقلید کی وجہ سے مانتے نہیں ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 26