فَاعۡلَمۡ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِكَ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَكُمۡ وَمَثۡوٰٮكُمۡ۞- سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 19
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَاعۡلَمۡ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسۡتَغۡفِرۡ لِذَنۡۢبِكَ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ ؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ مُتَقَلَّبَكُمۡ وَمَثۡوٰٮكُمۡ۞
ترجمہ:
پس آپ یاد رکھئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور آپ اپنے بہ ظاہر اولیٰ سب کاموں پر استغفار کیجئے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کے لئے تم اور اللہ تم سب لوگوں کی آمدروفت اور آرام کی جگہ کو خوب جانتا ہے
محمد : ١٩ میں فرمایا : پس آپ جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اور آپ اپنے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ سب کاموں پر استغفار کیجئے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کے لئے اور اللہ تم سب لوگوں کی آمدروفت اور آرام کی جگہ کو خوب جانتا ہے
آپ پہلے سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے عالم تھے پھر کیوں فرمایا : جان لیجئے ؟
اس آیت کے شروع میں فرمایا ہے :” فاعلم انہ لا الہ الا اللہ “ یعنی آپ علم یقین کے ساتھ جان لیجئے، اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ آپ کو تو پہلے ہی علم تھا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، پھر کیوں فرمایا کہ آپ جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، اس اعتراض کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) آپ کو جو توحید کا علم حاصل ہوا ہے یہ نظر و استدلال سے حاصل نہیں ہوا، یہ علم آپ کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست الہام اور القاء فرمایا ہے۔
(٢) یہ نظر و استدلال سے حاصل شدہ ظنی علم نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ علم یقینی ہے۔
(٣) یقین کی تین قسمیں ہیں : علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین، جو علم خبر صادق سے حاصل ہو وہ علم الیقین ہے اور جو علم مشاہدہ سے اور دیکھ کر حاصل ہو وہ عین الیقین ہے اور جو علم تجربہ سے حاصل ہو وہ حق الیقین ہے، پہلے آپ کو وحی کے ذریعہ توحید کا علم الیقین حاصل ہوا، پھر جب شعب معراج آپ نے اللہ تعالیٰ کا دیکھ لیا اور اس کی توحید کو مشاہدہ کرلیا تو پھر آپ کو توحید کا عین الیقین حاصل ہوگیا، سو اس آیت میں علم الیقین سے عین الیقین کی ترقی کیطرف اشارہ ہے یعنی پہلے آپ کو اللہ تعالیٰ کی توحید پر علم الیقین تھا اور اب عین الیقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توحید کو جان لیجئے۔
(٤) اس آیت میں علم سے مراد ذکر ہے یعنی یاد کرنا یا یاد رکھنا، پس آپ کو توحید کا علم تو ہے مگر اس کو ہمیشہ یادر رکھئے۔
(٥) علم سے مراد ہے : ذکر کرنا، یعنی آپ اس کا ذکر کیجئے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے۔
علم کی فضیلت اور علم کا علم پر مقدم ہونا۔
……(الحدید : ٢٠ )
جان لو کہ دنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشا ہے اور زینت ہے اور ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے۔
اس کے بعد فرمایا :
……(الحدید : ٢١ )
لو دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی پہنائی (وسعت) آسمان اور زمین کی پہنائی کی مثل ہے۔
اس آیت میں پہلے دنیا کے بےثباتی اور ناپائیداری کے علم کا ذکر فرمایا، پھر اس علم کے تقاضے پر عمل کا ذکر فرمایا کہ اپنے رب کی مغفرت اور جنت کو طلب کرو۔ نیز فرمایا :
……(الانفال : ٤١ )
جان لو کہ تم جو کچھ بھی مال غنیمت حاصل کرو اس میں سے پانچواں حصہ تو اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور قرابت داروں کا، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کا۔
اس آیت میں بھی پہلے علم کا ذکر فرمایا ہے اس کے بعد عمل کا ذکر فرمایا ہے، یعنی مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لئے روانہ کرنے کا۔ نیز فرمایا :
……(البقرہ : ٢٣٥)
اور جان لو کہ اللہ کو تمہارے دل کی باتوں کا بھی علم ہے سو تم اس سے ڈرتے رہا کرو۔
پہلے یہ حکم دیا کہ یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کو دلوں کی باتوں کا بھی علم ہے، پھر اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ سے ہر وقت ڈرتے رہا کرو۔
” واستغفر لذنبک “ پر آپ کی عصمت کی بناء پر اشکال
اس آیت میں فرمایا ہے : واستغفر لذنبک وللمومنین والمومنات “۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، نے اپنی ایک کتاب میں اس آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے :
مغفرت مانگ اپنے گناہوں کی اور سب مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے۔ (احسن الوعاص ص ٢٦، مطبوعہ ضیاء الدین پبلی کیشنز، کھارادر، کراچی)
اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت میں آپ کی طرف گناہ کی نسبت کی ہے حالانکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں، خصوصا ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو خطاء اجتہادی سے بھی معصوم ہیں پھر آپ کی طرف گناہ کی نسبت کرنے کا کیا محمل ہے ؟ علماء کرام نے اس آیت کی حسب ذیل تو جہیات کی ہیں :
اشکال مذکور کا جواب علامہ قرطبی مالکی کی طرف سے
علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت کے دو جواب ہوسکتے ہیں :
(١) اگر (بالفرض) آپ سے گناہ صادر ہوجائے تو آپ اللہ تعالیٰ سے استغفار کریں۔
(٢) آپ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے رہیں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کو گناہوں سے بچائے رکھے۔
ایک قول یہ ہے کہ چونکہ اس سے پہلے آیتوں میں آپ کے لئے کافروں اور مؤمنوں کا حال بیان کیا گیا ہے تھا اس لئے آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ ایمان پر ثابت قدم رہیں یعنی آپ توحید اور استغفار پر جمے رہیں اور ان کاموں سے احتراز کریں جن کے ارتکاب پر استغفار کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
اور ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں بہ ظاہر آپ کو خطاب ہے اور مراد آپ کی امت ہے اور اس قول کی وجہ سے انسان پر واجب ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کے لئے استغفار کرے۔
ایک قول یہ ہے کہ کفار اور منافقین کے کفر سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا تھا تو یہ آیت نازل لوئی یعنی آپ کو جو غم ہے اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دور نہیں کرسکتا، سو آپ اللہ کے سوا اور کسی کے ساتھ اپنے دل کا تعلق نہ رکھیں۔
ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں تعلیم امت کے لئے آپ کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے تاکہ آپ کی امت آپ کی اقتداء کرے۔ نیز اس آیت میں فرمایا : اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کے لئے استغفار کیجئے۔
اس کا معنی ہے : ان کے گناہوں کے لئے استغفار کیجئے، اس آیت میں آپ کو شفاعت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
امام مسلم نے روایت کیا کہ ہے حضرت عبد اللہ بن سرجس مخزومی بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا اور آپ کے طعام سے کھایا، پھر میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ آپ کی مغفرت کرے، میرے شاگرد نے کہا : کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہارے لئے استغفار کیا ؟ میں نے کہا : ہاں ! پھر یہ آیت پڑھی :” واستغفر لذنبک وللمومنین والمومنات “ پھر میں واپس مڑا تو میں نے آپ کے دو کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھی، اس پر مسوں کی طرح تل جمع تھے۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٤٦) (الجامع الاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٢٢۔ ٢٢١، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
اشکال مذکور کا جواب امام رازی شافعی کی طرف سے
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : اس آیت کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) اس آیت میں خطاب آپ کے ساتھ ہے اور مراد مومنین ہیں اور یہ جواب بعید ہے کیونکہ مومنین اور مؤمنات کا الگ سے ذکر کیا گیا ہے اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ” لذنبک “ سے مراد ہے : آپ اپنے اہل بیت کے لئے استغفار کیجئے اور عام مؤمنین اور مؤمنات کے لئے استغفار کیجئے جو آپ کے اہل بیت سے نہیں ہیں۔
(٢) اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہی استغفار کا حکم دینا مراد ہے اور ذنب سے مراد ترک افضل (خلافِ اولیٰ ) ہے جو آپ کے مرتبہ کے بلندی کے اعتبار سے ذنب ہے اور ذنب کی حقیقت سے آپ بری ہیں اور بہت دور ہیں۔
(٣) اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نیک عمل کرنے اور برے عمل سے اجتناب کی توفیق طلب کریں اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ استغفار کا معنی ہے : مغفرت کو طلب کرنا اور مغفرت کا معنی ہے : برے کام پر پردہ ڈالنا اور جو معصوم ہوتا ہے اس کی بری خواہشوں پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور اب مغفرت طلب کرنے کا معنی یہ ہے کہ تو ہمیں شرمندہ نہ کرنا۔ اور یہ مربتہ کبھی عصمت سے حاصل ہوتا ہے، پس وہ شخص گناہ نہیں کرتا جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ درجہ حاصل ہے اور کبھی گناہ ہونے کے بعد اس پر مغفرت کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے، جس طرح مؤمنین اور مؤمنات کو یہ درجہ حاصل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ” فاستغفر لذنبک “ کا معنی یہ ہے کہ آپ اپنے لئے عصمت پر ثبات اور دوام کو طلب کیجئے اور ” وللمومنین والمومنات “ کا معنی یہ ہے کہ آپ مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کیجئے۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٥٢، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
اشکال مذکور کو جواب علامہ آلوسی حنفی کی طرف سے
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے اس اشکال کے حسب ذیل جوابات لکھے ہیں :
(١) اس آیت میں استغفار کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد ہے : تواضع، انکسار اور تقصیر کا اعتراف (یعنی بندے میں یہ طاقت نہیں کہ اللہ کی نعمتوں کا کما حقہ، شکرادا کرسکے سو اس تقصیر کا اعتراف مراد ہے) اور یہ معانی استغفار کرنے کو لازم ہے۔
(٢) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حقیقت استغفار مراد ہو کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہ کثرت استغفار کرتے تھے۔ امام احمد، امام مسلم، امام ابو دائود، امام نسائی، امام ابن حبان، حضرت اغرمزنی (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک میرے دل پر حجاب چھا جاتا ہے اور میں ہر روز سو مرتبہ اللہ سے استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٥١٥)
اور امام ابو دائود، امام ترمذی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : ہم شمار کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مجلس میں سو مرتبہ یہ دعا کرتے تھے : اے میرے رب ! میری مغفرت فرما اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو بہت توبہ قبول فرمانے والا اور رحمت فرمانے والا ہے۔
(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٥١٦، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٤٣٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨١٤)
(٣) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلند مرتبہ کے اعتبار سے ذنب سے مراد ہے : ترک اولیٰ اور یہ ہوسکتا ہے کہ ایک کام ایک شخص کے اعتبار سے نیکی ہو اور دوسرے کے اعتبار سے گناہ ہو، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ” حسنات الابرار سئیات المقربین “ اور یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہر لحظہ پہلے مقام سے زیادہ بلند مقام ہوتا ہے (جیسے اجتہادی خطا پر ہمیں ثواب ملتا ہے اور انبیاء (علیہ السلام) اس کو ذنب قرار دے کر اس پر استغفار کرتے ہیں، مثلاً حضرت آدم کا شجر ممنوع سے کھانے پر استغفار کرنا اور حضرت موسیٰ کا قبطی کو تادیباً گھونسا مارنے پر اس کو ذنب قرار دے کر استغفار کرنا) ۔
(٤) ” وللمومنین والمومنات “ میں حرف جر کے اعادہ میں یہ اشارہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذنب سے مراد ہے : ترک اولیٰ اور عام مؤمنوں کے ذنوب سے مراد معاصی صغیرہ اور کبیرہ یعنی دونوں ذنوب میں تغائر ہیں، حرف جر کے اعادہ سے اسی کو ظاہر کیا ہے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ٨٤، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
اشکالِ مذکور کو جواب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کی جانب سے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضافاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں :
(٨) استدلال بڑی ذمہ داری کا کام ہے، آریہ بیچارہ کیا کھا کر اوس سے عہدہ برآہوسکتا ہے :
نباشدبہ آئین تحقیق دال کچوری و پوری وبھجیا ودال
شرط تمامی استدلال قطعی ہر احتمال ہے علم کا قاعدہ مسلمہ ہے ” اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال “ سورة مومن و سورة محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آیات کریمہ میں کون سی دلیل قطعی ہے کہ خطاب حضورِ اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ مومن میں تو اتنا ہے ”……“ (محمد : ١٩) اے شخص ! اپنی خطا کی معافی چاہ، کسی کا خاص نام نہیں، کوئی دلیل تخصیص کلام نہیں، قرآن عظیم تمام جہاں کی ہدایت کے لئے اور ترانہ صرف اوس وقت کے موجودین بلکہ قیامت تک کے آنے والوں سے وہ خطاب فرماتا ہے ”……“ نماز برپا رکھو، یہ خطاب جیسا صحابہ کرام (رض) سے تھا ویسا ہی ہم سے بھی ہے اور تا قیام قیامت ہمارے بعد آنے والی نسلوں سے بھی، اسی قرآن عظیم میں ہے : ” ……“ (الانعام : ١٩) کتب کا عام قاعدہ ہے کہ خطاب ہر سامع سے ہوتا ہے ”……“ میں کوئی خاص شخص مراد نہیں، خود قرآن عظیم میں فرمایا : ”……“ (العلق : ١٢۔ ١٩) ابوجہل لعین نے حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز سے روکنا چاہا، اوس پر یہ آیات کریمہ اتریں کہ کیا تو نے دیکھا او سے جو روکتا ہے بندے کو جب وہ نماز پڑھے، بھلا دیکھ تو اگر وہ بندہ ہدایت پر ہو یا پرہیزگاری کا حکم فرمائے، یہاں بندے سے مراد حضور اقدس ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور غائب کی ضمیریں حضور کی طرف ہیں اور مخاطب کی ہر سامع کی طرف، بلکہ فرماتا ہے :”……“ (التین : ٧) ان روشن دلیلوں کے بعد کیا چیز تجھے روز قیامت کے جھٹلانے پر باعث ہو رہی ہے۔ یہ خطاب خاص کفار سے ہے بلکہ اون میں بھی خاص منکرانِ قیامت مثل مشرکین آریہ و ہنود ہے۔ یوں ہی دونوں سورة کریمہ میں کاف خطاب ہر سامع کے لئے ہے کہ اسے سننے والے ! اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کے گناہ کی معافی مانگ۔ (٩) بلکہ آیت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تو صاف قرینہ موجود ہے کہ خطاب حضور سے نہیں، اس کی ابتداء یوں ہے : ”……“ (محمد : ١٩) جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنی اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی معافی چاہ، تو یہ خطاب اوس سے ہے جو ابھی ” لا الہ الا اللہ “ نہیں جانتا ورنہ جاننے والے کو جاننے کا حکم دینا تحصیل حاصل ہے تو معنی یہ ہوئے کہ اسے سننے والے ! جسے ابھی توحید پر یقین نہیں کسے باشد توحید پر یقین لا اور اپنے اور اپنے بھائی مسلمانوں کے گناہ کے معافی مانگ۔ تتمہ ٔ آیت میں اس عموم کو واضح فرمادیا کہ ” ……“ (محمد : ١٩) اللہ جانتا ہے جہاں تم سب لوگ کروٹیں لے رہے ہو اور جہاں تم سب کو ٹھکانا ہے ” اگر “ فاعلم “ میں تاویل کرے تو ” ذنبک “ میں تاویل سے کون مانع ہے اور اگر ” ذنبک “ میں تاویل نہیں کرتا تو ” فاعلم “ میں تاویل کیسے کرسکتا ہے، دونوں پر ہمارا مطلب حاصل اور مدعی معاند کا استدلال زائل۔ (١٠) دونوں آیہ کریمہ میں صیغہ امر ہے اور امر انشاء ہے اور انشاء وقوع پر دال نہیں تو حاصل اس قدر کہ بفرض وقوع استغفار واجب نہ یہ کہ معاذ اللہ واقع ہوا جیسے کسی سے کہنا : ” اکرم ضیفک “ اپنے مہمان کی عزت کرنا، اس سے یہ مراد نہیں کہ اس وقت کوئی مہمان موجود ہے نہ یہ خبر ہے کہ خواہی نخواہی کوئی مہمان آئے گا ہی، بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ اگر ایسا ہو تو یوں کرنا۔ (١١) ذنب معصیت کو کہتے ہیں اور قرآن عظیم کے عرف میں اطلاق معصیت عمد ہی سے خاص نہیں۔ قال اللہ تعالیٰ ”……“ (طہٰ : ١٢١) آدم نے اپنے رب کی معصیت کی، حالانکہ خود فرماتا ہے :”……“ (طہٰ : ١١٥) آدم بھول گیا، ہم نے اس کا قصد نہ پایا، لیکن سہو نہ گنہا ہے نہ اوس پر مواخزہ، خود قرآن کریم نے بندوں کی یہ دعا تعلیم فرمائی : ”……“ (البقرہ : ٢٨٦) اے ہمارے رب ! ہمیں نہ پکڑا گر ہم بھولیں یا چوکیں۔ (١٢) جتنا قرب زائد اسی قدر احکام کی شدت زیادہ۔ ع
جن کے رتبے ہیں سوا اون کو سوا مشکل ہے۔
بادشاہ جبار علیل القدر ایک جنگلی گنوار کی جو بات سن لے گا جو برتائو گوارا کرے گا ہرگز شہریوں سے پسند نہ کرے گا، شہریوں میں بازاریوں سے معاملہ آسان ہوگا اور خاص لوگوں سے سخت اور خاصوں میں درباریوں اور درباریوں میں وزراء ہر ایک پر بار دوسرے سے زائد ہے، اس لئے وار دہوا ” حسنات الابرار سیئات المقربین “ نیکیوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں وہاں ترک اولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ترک اولٰ ہرگز گناہ نہیں۔ (١٣) آریہ بیچارے جن کے باپ دادا نے بھی کبھی عربی کا نام نہ سنا اگر نہجانے تو ہر ادنیٰ طالب علم جانتا ہے کہ اضافت کے لئے ادنیٰ ملا بست بس ہے بلکہ یہ عام طور پر فارسی، اردو، ہندی سب زبانوں میں رائج ہے، مکان کو جس طرح اوس کے مالک کی طرف نسبت کریں گے یوں ہی کرایہ دار کی طرف۔ یوں ہی جو عاریۃ لے کر بس رہا ہے اوس کے پاس ملنے آئے گا، یہی کہے گا کہ ہم فلا نے کے گھر گئے تھے بلکہ پیمائش کرنے والے جن کھیتوں کو ناپ رہے ہوں، ایک دوسرے سے پوچھے گا : تمہرا کھیت کئے جریب ہوا، یہاں نہ ملک نہ اجارہ نہ عاریت اور اضافت موجود، یوں ہی بیٹے کے گھر سے جو چیز آئے گی، باپ سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے ہاں سے یہ عطا ہوا تھا تو ” ذنبک “ سے مراد اہل بیت کرام کی لغزشیں ہیں اور اوس کے بعد ” وللمومنین والمومنات “ تعمیم بعد تخصیص ہے یعنی شفاعت فرمائیے، اپنے اہل بیت کرام اور سب مسلمان مردوں عورتوں کے لئے، اب آریہ کے اس جنون کا بھی علاج ہوگیا کہ پیروئوں کا ذکر تو بعد کو موجود ہے تعمیم بعد تخصیص کی مثال خود قرآن عظیم میں ہے : ”……“ (نوح : ٢٨) اے میرے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو اور جو میرے گھر میں ایمان کے ساتھ آیا اور سب مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو۔ (فتاویٰ رضویہ ٩ ص ٦٦۔ ٧٨، دار العلوم امجدیہ، کراچی)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی عبارت چونکہ مشکل اور غیر مانوس ہے اس لئے ہم سطور ذیل میں ان کے جوابات کی تسہیل اور تنقیح کررہے ہیں :
(١) اس آیت سے قطعی طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے ذنب سے استغفار کرنے کا حکم دیا ہے حتیٰ کہ یہ اعتراض ہو کہ آپ تو معصوم ہیں پھر آپ کو گناہ سے استغفار کا حکم کس لئے دیا ہے ؟ یہ خطاب ہر سننے والے کے لئے ہے اور اس کا معنی ہے : اسے سننے والے ! اپنے اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کے گناہ کی معافی مانگ۔
(٢) بلکہ اس آیت میں اس پر واضح قرینہ ہے کہ اس خطاب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد نہیں ہیں کیونکہ اس میں فرمایا ہے : جان لے کر اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور اپنے اور اپنے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی معافی چاہ۔ پس معلوم ہوا کہ یہ خطاب اس شخص سے ہے جو ابھی یہ بھی نہیں جانتا کہ ” لا الہ الا اللہ “ کا معنی کیا ہے، لہٰذا اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب نہیں ہوسکتا۔
(٣) سورة المؤمنین اور سورة محمد دونوں میں امر کا صیغہ ہے اور امر انشاء ہے اور انشاء وقوع کو مستلزم نہیں تو خلاصہ یہ ہے کہ اگر بالفرض آپ سے ذنب واقع ہو تو آپ اپنے ذنب پر استغار کریں اور آپ سے ذنب واقع ہو نہیں سکتا، کیونکہ آپ معصوم ہیں۔
(٤) ذنب معصیت کو کہتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ معصیت قصداً اور عمداً ہو، بھولے سے بھی معصیت سرزد ہوجاتی ہے، جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) نے بھولے سے شجر منوع سے کھالیا تھا اور اس کو ذنب نہیں کہتے، ذنب قصداً نافرمانی کو کہتے ہیں۔
(٥) جس کا مرتبہ زیادہ ہوتا ہے کہ اس پر گرفت بھی سخت ہوتی ہے، نیکیوں کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک گناہ کے حکم میں ہوتی ہیں، مقربین کے نزدیک ترک اولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، حالانکہ ترک اولیٰ گناہ نہیں ہوتا۔
(٦) ” ذنبک “ سے مراد اہل بیت کی لغزشیں ہیں اور آیت کا معنی اس طرح ہے : اپنے اہل بیت کرام اور سب مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے شفاعت فرمائیے۔
ہمارے نزدیک ان جوابات میں راجح جواب یہ ہے کہ ذنب سے مراد بہ ظاہر ترک اولیٰ یا خلافِ اولیٰ ہے کیونکہ یہ جواب قرآن مجید کی ظاہر آیات اور احادیث کے مطابق ہے، خصوصاً اس حدیث کے جسم کا ہم نے الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں ذکر گیا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 19