أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِّيَـغۡفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعۡمَتَهٗ عَلَيۡكَ وَيَهۡدِيَكَ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًا ۞

ترجمہ:

تاکہ اللہ آپ کے لئے معاف فرمادے آپ کے اگلے اور پچھلے (بہ ظاہر) خلافِ اولیٰ سب کام اور آپ پر اپنی نعمت پوری کردے اور آپ کو صراط مستقیم پر براقرار رکھے

آپ کی مغفرت کے حصول کا سبب فتح مکہ ہے یا فتح حدیبیہ ہے یا فتح حجاب ہے ؟

الفتح : ٢ میں فرمایا : تاکہ اللہ آپ کے لئے معاف فرمادے آپ کے اگلے اور پچھلے (بہ ظاہر) خلافِ اولیٰ سب کام اور آپ آپ پر اپنی نعمت پوری کردے اور آپ کو صراط مستقیم برقرار رکھے۔

اس آیت سے بہ ظاہر معلوم ہوتا ہے کہ فتح مغفرت کا سبب ہے اور فتح مغفرت کا سبب بننے کی صلاحیت نہیں رکھی، اس سوال کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) اس آیت میں صرف اعلان مغفرت کو فتح کا سبب نہیں فرمایا بلکہ فتح کا سبب اعلان مغفرت، نعمت کو پورا کرنا، ہدایت پر ثابت قدم رکھنا اور اللہ تعالیٰ کا مدد فرمانا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چاروں امور فتح حدیبیہ سے حاصل ہوئے، کیونکہ جب فتح حدیبیہ ہوئی تو آپ پر نعمت مکمل ہوئی اور دوسری فتوحات کا دروازہ کھلا اس کے ایک سال بعد ٧ ھ میں خیبر فتح ہوا اور دو سال بعد ٨ ھ میں مکہ فتح ہو اور فتح حدیبیہ کے بعد آپ پر اللہ تعالیٰ کی لگاتار نصرت کا ظہور ہوا۔

(٢) اگر اس فتح سے مراد فتھ مکہ ہو تو مکہ کا فتح ہونا بیت اللہ کے بتوں سے خالی اور پاک ہونے کا سبب بنا اور بیت اللہ کی تطہیر بندوں کی تطہیر کا سبب بنی، کیونکہ بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف کرنے سے بندوں کے گناہ دھل جاتے ہیں اور ان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

(٣) فتح حدیبیہ حج کرنے کا سبب اور وسیلہ بنی اور حج کرنا گناہوں سے پاک ہونے اور مغفرت کلی کا سبب ہے، حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس شخص نے اللہ کے لئے حج کیا اور اس میں کوئی بےہودہ بات نہیں کی اور نہ گناہ کیا تو وہ حج کرکے اس طرح لوتے گا جیسے وہ اسی دن اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٥٢١، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٨١١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨٤٩، سنن سنائی رقم الحدیث : ٢٦٢٦ )

اور فتح حدیبیہ میں بھی آپ کو مغفرت کلی حاصل ہوگئی اور مؤمنین اور مؤمنات کو جنت کی بشارت حاصل ہوگئی۔

(٤) فتح مبین سے مراد ہے : فتح حجاب۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اصل مرتبہ اور مقام یہ ہے کہ آپ جمال الوہیت کی تجلیات کے مطالعہ اور مشاہدہ میں منہمک، اور مستغرق رہیں لیکن بسا اوقات دین کی تبلیغ، امت کی اصلاح کے کاموں اور بشری تقاضون کو پورا کرنے کی وجہ سے آپ کے دل پر حجاب چھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل سے یہ حجابات دور کردئیے تاکہ آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا مشاہدہ کرسکیں اور آپ کی اگلی اور پچھلی زندگی میں کوئی ایسا عمل نہ آنے پائے جو حجاب کا موجب ہو اور آپ کو اپنی اگلی اور پچھلی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی کلی مغفرت حاصل رہے اور آپ کے اعتبار سے مغفرت کا معن ہے : بلند درجات کا حصول اور ہماری طرح مغفرت کا یہ معنی نہیں ہے کہ گناہوں کو معاف کردیا جائے یا بخشش دیا جائے۔ اس توجیہ کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے :

حضرت اغر مزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے دل پر حجاب چھا جاتا ہے اور میں ایک دن میں اللہ تعالیٰ سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٢، سنن ابو دائود و رقم الحدیث : ٢٧٠٢)

حافظ ابو العباس احمد بن عمر المالکی القرطبی ٦٥٦ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر جو حجاب چھا جاتا تھا وہ کسی گناہ کی وجہ سے نہیں تھا، علماء نے اس حجاب کی حسب ذیل توجیہات کی ہیں :

(١) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبا کہ دائما اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا تھی، کبھی اس میں سستی اور غفلت ہوجاتی تھی تو آپ اس پر استغار کرتے تھے۔

(٢) آپ امت کے احوال پر مطلع ہوتے اور آپ کے بعد آپ کی امت جو کام کرے گی اس پر مطلع ہوتے تو آپ اس پر امت کے لئے استغفار کرتے تھے۔

(٣) آپ امت کی مصلحتوں اور دشمن سے جنگ کے معامالت پر غور کرتے تھے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اور اس کی تجلیات کے مشاہدہ میں کمی آجاتی تھی تو آپ اس پر استغفار کرتے تھے ہرچند کہ امت کی مصلحتوں اور دشمن سے جنگ کے معاملات میں غور و فکر کرنا بھی عظیم مقام اور افضل عبادت ہے لیکن آپ اپنے درجات کی بلندی اور رفعت مقام کے اعتبار سے اسے کم تر خیال کرتے، اس لئے اس پر استغفار کرتے۔

(٤) اللہ تعالیٰ کی جلال ذات اور اس کی عظمت سے آپ کے دل پر حجاب آجاتا تھا تو آپ استغفار کرتے تھے۔

(٥) بعض ارباب ارشارات نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مقامات میں ہمیشہ ترقی کرتے رہے تھے اور جب آپ پہلے مقام سے دوسرے مقام کی طرف ترقی کرتے، تو دوسرے مقام کے اعتبار سے پہلے مقام کی ناقص قرار دینے، پھر اس سے پہلے مقام پر استغفار کرتے اور اس سے توبہ کرتے، جنید (رح) نے اسی طرح یہ کہہ کر اشارہ کیا ہے : ”……“ نیکوں کی نیکیاں بھی ابرابر کے نزدیک گناہ کے حکم میں ہوتی ہیں۔ (المفہم ج ٧ ص ٢٧۔ ٢٦، دارا بن کثیر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی مصلحتوں اور دشمن کے ساتھ لڑائیوں میں غور فرماتے اور اس کی وجہ سے اپنے عظیم مقام کی طرف توجہ نہ کر پاتے تو اپنے عظیم مقام کے اعتبار سے اس کو بھی گناہ قرار دیتے اور اس پر استغفار کرتے، ہرچند کہ یہ امور بہت عظیم عبادات اور افضل اعمال ہیں لیکن یہ آپ کے عظیم مقام سے نیچے ہیں اور آپ کے عظیم مقام سے یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوں اور اس کا مشاہدہ اور مراقبہ کریں اور اللہ کے ماسوا سے فارغ رہیں۔ (صحیح مسلم بشرح النوای ج ١١ ص ٦٧٩٠، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

سو اس آیت میں جو فرمایا ہے کہ ہم نے آپ کے لئے فتح مبین کردی ہے، اس سے مراد فتح حجاب ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول مکرم کے درمیان کوئی حجاب نہیں رکھا اور آپ کو دائمی مشاہدہ عطا فرمایا تاکہ آپ کی گلی زندگی میں یا پچھلی زندگی میں کوئی ایسا عمل نہ آنے پائے جو آپ کے لئے حجاب ہوجائے اور یہ آپ کے اوپر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔

مفسرین کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت ذنب کی نسبت کی توجیہات

نیز اس آیت میں فرمایا ہے : تاکہ اللہ آپ کے لئے معاف فرما دے آپ کے اگلے اور پچھلے (بہ ظاہر) خلافِ اولیٰ سب کام۔

اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طرف مغفرت ذنب کی نسبت کی ہے، ذنب کا معنی ہے : اثم (گناہ) ۔ (القاموس المحیط ص ٨٥، مطبوعہ موسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٤ ھ) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں، آپ سے کوئی گناہ نہیں ہوسکتا، صغیرہ نہ کبیرہ، اعلانِ نبوت سے پہلے نہ اعلان نبوت کے بعد، سہواً ن عمداً ، حقیقۃ نہ صورۃً ، اس وجہ مفسرین نے اس آیت کی تاویلات اور توجیہات کی ہیں۔

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے اس آیت کی حسب ذیل توجیہات کی ہیں :

(١) اس آیت سے مراد مؤمنین کے گناہ ہیں۔

یعنی یہ آیت مجاز عقلی پر محمول ہے، یہ توجیہ عطاء خراسانی سے منقول ہے، علامہ سیوطی نے اس توجیہ کی تین وجوہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔

علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ کی عبارت حسب ذیل ہے :

ساتواں قول عطاء خراسانی کا ہے کہ ” ماتقدم “ سے مراد آپ کے باپ آدم اور حوا کے گناہ ہیں اور ” ماتاخر “ سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں، یہ قول تین وجوہ سے ضعیف ہے :

(١) حضرت آدم نبی معصوم ہیں ان کی طرف کسی گناہ کی ضافت نہیں کی جائے گی، سو یہ تاویل، خود ایک تاویل کی محتاج ہے۔

(٢) کسی گناہ کی اضافت دوسرے کی طرف ضمیر خطاب سے نہیں کی جاتی (پھر امت کے گناہوں کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کیسے کی جائے گی) ۔

(٣) تمام امت کے گناہ معاف نہیں کیے گئے، بلکہ ان سے بعض کے گناہ معاف کردئیے گئے ہیں اور بعض کے گناہ معاف نہیں کیے جائیں گے (بلکہ ان کو گناہوں کی سزا دی جائے گی) ۔ (جواہر البحارج ٤ ص ٢٥٧٠، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)

عام لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا ” کنز الایمان “ میں ترجمہ بھی عطاء خراسانی کے ترجمہ کی فرع ہے، یہ بات درست نہیں ہے صرف اتنی بات میں اعلیٰ حضرت اور عطاء خراسانی میں مماثلت ہے کہ دونوں نے مغفرت ذنب کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نہیں کی، اعلیٰ حضرت نے مغفرت ذنب کی نسبت آپ کے اگلوں اور پچھلوں کی طرف کی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کا استثناء کیا ہے اور عطاء خراسانی نے ذنب کی نسبت نبی معصوم حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف کی ہے۔

قاضی ثناء اللہ پانی پتہ لکھتے ہیں :

عطاء خراسانی نے کہا :” ماتقدم من ذنبک “ سے مراد ہے : آپ کے باپ اور ماں، آدم اور حوا کے گناہ آپ کی برکت سے بخش دئیے گئے اور ” ماتاخر “ سے مراد ہے، آپ کی دعا سے آپ کی امت کے گناہ بخش دئیے گئے۔ (تفسیر مظہری ج ٩ ص ٣)

عطاء خراسانی کی یہ تاویل صحیح نہیں ہے کیونکہ انہوں نے کسی آیت یا حدیث کے ترجمہ کے بغیر حضرت آدم کی طرف گناہ کی نسبت کی ہے اور امام ابن الحاج مکی نے کہا ہے : ہمار علماء رحمتہ اللہ علیہم نے کہا ہے کہ جس شخص نے قرآن اور حدیث کی تلاوت کے بغیر کہا کہ کسی نبی نے گناہ کیا یا اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کی وہ کافر ہوگیا۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ (المدخل ج ٢ ص ١٤)

اور اس پر دوسرا قوی اعتراض یہ ہے کہ آپ کی تمام امت کے گناہ الفتح : ٢ کے نزول کے وقت نہیں بخشے گئے، بلکہ بعض لوگوں کے گناہ آپ کی شفاعت سے قیامت کے دن بخشے جائیں گے اور بعض لوگوں کے گناہ عذاب قبر بھگتنے کے بعد بخشے جائیں گے اور بعض کے گناہ دوزخ کی سزا کاٹنے کے بعد بخشے جائیں گے۔

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت (رض) نے ہر چن کہ اپنی دوسری تصانیف میں اس آیت کا ” کنز الایمان “ سے مختلف ترجمہ کیا ہے اور ذنب کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف قائم رکھی ہے، لیکن آپ نے عطاء خراسانی کی طرح یہ نہیں لکھ کہ آپ کے باپ اور ماں ’ آدم اور حوا کے گناہ آپ کی برکت سے بخش دئیے گئے۔ بلکہ آپ نے لکھا ہے کہ تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخش تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔ اور معاذ اللہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا گناہ نہیں لکھا۔ اور اس میں اہل سنت کے عقیدہ کی مخالفت نہیں ہے اور جب یہ کہا جائے گا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے گناہ کیا تو یہ عقیدہ اہل سنت کے خلاف ہے، کیونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں اور کسی نبی نے کوئی گناہ نہیں کیا اور قرآن مجید کی تصریح کے مطابق حضرت آدم (علیہ السلام) نے نسیان سے شجر ممنوع سے کھایا تھا ”……“ پس آدم بھول گئے اور ہم نے ان کا کوئی عزم (معصیت) نہیں پایا۔ (طہ : ١١٥) اور جو کام نسیان سے کیا جائے وہ گناہ نہیں ہوتا، گناہ وہ ہوتا ہے کہ ممنوع کام قصد وار ادہ سے کیا جائے۔

بلکہ اعلیٰ حضرت امام احد رضا نے یہ تصریح کی ہے ” تمہارے اگلوں میں “ نہ حضرت آدم (علیہ السلام) داخل ہیں نہ آپ کے آباء کرام میں سے کوئی اور نبی۔ اعلیٰ حضرت (رح) کی عبارت یہ ہے :۔

”……“ تمہارے اگلوں کے گناہ اعنی سیدنا عد اللہ وسید تنا آنہ (رض) سے منتہائے نسب کری تک تمام آبائے کرام و امہات باستثناء کرام مثل آدم و شیث و نوح و خلیل و اسمعیل علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٨، دار العلوم امجدیہ، کراچی)

امام فخرِ الدین رازی کی دوسری توجیہ یہ ہے :

(٢) ذنب سے مراد ترک افضل ہے (یہ جواب صحیح ہے) ۔

(٣) ذنب سے مراد گناہ صگیرہ ہیں کیونکہ وہ انبیاء (علیہم السلام) پر سہواً اور عمداً جائز ہیں اور گناہ صغیرہ کا ارتکاب ان کو تفاخر اور تکبر سے محفوظ رکھتا ہے۔

امام رازی کا یہ تیسرا جواب بھی پہلے جواب کی طرح صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر انبیاء (علیہم السلام) سے خصوصاً ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گناہ صغیرہ واقع ہوں تو وہ مطلقاً معصوم نہیں رہیں گے اور ان کا اپنی امت کو گناہ صغیرہ سے روکنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

……(الصف : ٣) اللہ کے نزدیک یہ بات ناراضگی کا موجب ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے۔

(٤) اگلے پچھلے ذنب کی مغفرت کے اعلان سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عصمت کا اظہار ہے (یہ جواب صحیح ہے) ۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٦٦، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے اس آیت کی حسب ذیل توجیہات کی ہیں :

(١) طبری نے کہا : آپ نے اعلانِ رسالت سے پہلے اس آیت کے نزول تک جو ذنوب کیے وہ اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دئیے۔ یہ توجیہ باطل ہے کیونکہ آپ اپنی پوری زندگی میں معصوم ہیں۔

(٢) سفیان ثوری نے کہا : ” ما تقدم “ سے مراد یہ ہے کہ آپ نے زمانہ ٔ جاہلیت میں نزول وحی سے پہلے جو ذنوب کیے، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔ واحدی نے کہا :” ماتاخر “ سے مراد یہ ہے کہ جن احکام پر آپ نے عمل نہیں کیا ان کو معاف کردیا ہے۔ یہ توجیہ بھی حسب سابق باطل ہے۔

(٣) عطاء خراسانی نے کہا :” ما تقدم “ سے مراد ہے آپ کے والدین آدم اور حوا کے گناہ اور ” ماتاکر “ سے مراد ہے : آپ کی امت کے گناہ اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کے باپ ابراہیم کے گناہ مراد ہیں۔ یہ قول بھی باطل ہے کیونکہ اس میں انبیاء (علیہم السلام) کو گناہ گار قرار دیا ہے، حالانکہ تمام انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں۔

(٤) ” ماتاخر “ سے مراد ہے : نبیوں کے گناہ اور ایک قول ہے :” ما تقدم “ سے مراد ہے : یومِ بدرگاہ کا گناہ اور ” ماتاخر “ سے مراد ہے : یومِ حنین کا گناہ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یوم بدرکا گناہ مقدم ہے اور وہ آپ کی یہ دعا ہے کہ اے اللہ ! اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں تیری کبھی بھی عبادت نہیں کی جائے گی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٦٣) آپ بار بار یہ دعا کرتے رہے تو اللہ نے آپ کی طرف یہ وحی کی، آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو کبھی بھی میری عبادت نہیں ہوگی ؟ سو یہ آپ کا وہ گناہ ہے جو مقدم ہے (علامہ قرطبی کی ذکر کردہ اس وحی کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور نہ یہ صحیح ہے۔ سعیدی غفرلہ) اور آپ کا جو گناہ موخر ہے وہ یہ ہے کہ جب حنین کے دن مسلمانوں کو شکست ہوئی تو آپ نے اپنے چچا حضرت عباس اور اپنے عم زاد سے کہا : مجھے وادی کی کچھ کنکریاں لا کردو پھر آپ نے وہ کنکریاں اپنی مٹھی میں لے کر مشرکین کے چہروں پر ماریں اور فرمایا : ان کے منہ بگڑ جائیں : ” حم لاینصروں “ تو تمام مشرکوں کو شکست ہوگئی اور ہر مشرک کی آنکھوں پر ریت اور کنکریاں بھر گئیں، پھر آپ نے بھاگے ہوئے مسلمانوں کو بلایا تو وہ آگئے اور آپ نے کہا : اگر میں ان کو کنکریان نہ مارتا تو ان کو شکست نہ ہوتی، تب اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کی :

……(الانفال : ١٧) آپ نے کنکریاں نہیں پھنکیں جب آپ نے پھینکی تھیں لیکن وہ کنکریاں اللہ نے پھینکی تھیں۔ (الجامع لاحکام القرآن : جز ١٦ ص ٢٤١۔ ٢٤٠، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

چوتھی توجیہ میں علامہ قرطبہ نے بدروحنین کے متعلق جو روایت ذکر کی ہے وہ بالکل بےاصل ہے، اس روایت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گناہ کا ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں، علامہ قرطبی پر واجب تھا کہ وہ اس آیت کی تفسیر میں ان اقوال کا ذکر نہ کرتے۔

علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں حسب ذیل توجیہات ذکر کی ہیں :

(١) آپ سے جو اولیٰ کاموں کا ترک ہوا، ہرچند کہ ترک اولیٰ ذنب نہیں ہے، لیکن آپ کی نظر جلیل میں وہ ذنب تھا اس لئے اس کو ذنب سے تعبیر فرمایا جیسا کہ ابو سعید خراز نے کہا ہے کہ ” حسنات الابرابر سئیات المقربین “ نیکوں کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک گناہ کے حکم میں ہوتی ہیں۔

(٢) اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں، یہ توجیح صحیح نہیں ہے۔

(٣) سفیان ثوری کا قول ذکر کیا ہے کہ اس سے زمانہ جاہلیت کے گناہ مراد ہیں۔

(٤) بدروحنین کے گناہ ذکر کیے ہیں، جس کی تفصیل علاہ قرطبی کے آخری قول میں گزر چکی ہے آخری تینوں توجیہات صحیح نہیں ہیں جیسا کہ ہم اسے سے پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ (روح البیان ج ٩ ص ١٢۔ ١١، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ نے بھی یہی لکھا ہے کہ اس سے راد خلافِ اولیٰ کام ہیں اور ان کو آپ کے منصب جلیل کے اعتبار سے ذنب فرمایا ہے یا پھر وہ ”……“ کے قبیل سے ہیں، پھر دو باطل توجیہات کا ذکر کرکے ان کا رد کیا ہے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١٣٨، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

خلاصہ یہ ہے کہ امام رازی، علامہ اسماعیل حقی اور علامہ آلوسی تینوں کے نزدیک اس آیت میں ذنب کا اطلاق ترک اولیٰ یا خلاف اولیٰ کاموں پر کیا گیا ہے۔

محدثین کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت ذنب کی نسبت کی توجیہات

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ اللہ کی قسم ! میں دن میں ستر سے زائد مرتبہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٣٠٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٥٩، سنن سنائی رقم الحدیث : ٤٣٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨١٥)

حافط احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ آپ مغفرت طلب کرتے تھے اور توبہ کا عزم کرتے تھے۔ ابو دائود (حافظ ابن حجر نے امام نسائی لکھا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے) نے سند جید کے ساتھ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا ہے :

……(سنن ابو دائود رقم الحدیث ١٥١٧، سنن ترمذی رقم الحدیث ٣٥٧٧)

میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں جس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے جو زندہ ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور اس کی طرف توبہ کرتا ہوں۔

آپ مجلس میں کھرے ہونے سے پہلے سو مرتبہ یہ دعا کرتے تھے۔

اور نافع نے ابن عمر سے روایت کیا ہے کہ ہم گنا کرتے تھے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجلس میں سو مرتبہ یہ دعا کرتے تھے :

……(عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ١٠٦)

اے اللہ ! میری مغفرت فرما اور میری توبہ قبول فرما بیشک تو ہت توبہ قبول کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔

” صحیح بخاری “ میں ہے : میں دن میں ستر مربہ سے زائد استغفار کرتا ہوں اور امام نسائی نے روایت کیا ہے : میں ہر روز سو مرتبہ اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف توجہ کرتا ہوں۔ (عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ٤٣٨) اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا : اے لوگو ! اللہ سے توبہ کرو، کیونکہ میں ہر روز اللہ سے سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔ ( عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ٤٤٤٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٢) اور امام مسلم نے اغر مزنی سے روایت کیا ہے : بیشک میرے دل پر غین (حجاب) چھا جاتا ہے اور میں ہر روز اللہ سے سو مرتبہ مغفرت طلب کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٢) قاضی عیاض نے کہا : غین (حجاب) سے مراد وہ سستی ہے جو دائما ذکر کرنے سے مانع ہے، اور آپ جب کسی سستی یا کسی اور وجہ سے ذکر نہ کرسکتے تو اس کو گناہ قرار دیتے اور اس پر مغفرت طلب کرتے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس حجاب سے مراد دنیاوی کاموں کے منصوبے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ سکون ہے جو آپ کے دل پر چھا جاتا ہے اور آپ اظہار، عبودیت کے لئے استغفار کرتے تھے، یا خوفِ خدا کے غلبہ سے استغفار کرتے تھے۔ محاسبی نے کہا : آپ اللہ کی جلال ذات سے ڈرتے تھے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی نے کہا : آپ کے دل پر حجاب کا آنا نقص نہیں ہے، بلکہ کمال ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استغفار کرنے پر یہ اشکال کیا گیا ہے کہ آپ معصوم ہیں اور استغفار معصیت کے وقوع کا تقاضا کرتا ہے، اس کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) آپ کے دل پر جو حجاب چھا جاتا تھا آپ اس کی وجہ سے استغفار کرتے تھے۔

(٢) ابن جوزی نے کہا : بشری کمزوریوں سے کوئی خالی نہیں، انبیاء (علیہم السلام) اگرچہ گناہ کبیرہ سے معصوم ہوتے ہیں لیکن گناہ صغیرہ سے معصوم نہیں ہیں، تاہم یہ جواب صحیح نہیں ہے، انبیاء (علیہم السلام) کبائر اور صغائر دونوں سے معصوم ہوتے ہیں۔

(٣) ابن بطال نے کہا : انبیاء (علیہم السلام) کو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہوتی ہے اور وہ سب سے زیادہ عبادت میں کوشش کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں پھر بھی اپنی تقصیر کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان کے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق واجبہ ادا کرنے کی وجہ سے اور مباح امور مثلاً کھانے پینے ’ جماع کرنے، سونے آرام کرنے، مسلمانوں سے باتیں کرنے، ان کی مصلحتوں میں غور و فکر کرنے، دشمنوں سے جنگ کی تدبیر کرنے اور ایسے دوسرے کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا اور اس کا مشاہدہ اور مراقبہ نہیں کر پاتے اور آپ اپنے عظیم مقام کی وجہ سے اس کو بھی گناہ خیال فرماتے تھے کیونکہ آپ کا مقام عالی تو یہ ہے کہ آپ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر رہیں۔

(٤) آپ کا استغفار کرنا امت کی تعلیم کے لئے تھا یا امت کے گناہوں پر استغفار اور ان کی شفاعت کے لئے تھا۔

(٥) آپ ہمیشہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف ترقی کرتے تھے اور بعد والا حال پہلے حال سے بلند ہوتا تھا، تو آپ بعد کے حال کے مقابل میں پہلے حال کو گناہ خیال فرماتے اور اس پر استغفار کرتے۔

(٦) شیخ شہاب الدین سہروردی نے کہا : آپ کا ہر آن اللہ سے قرب رہتا تھا اور ہر بعد والی آن میں پہلی آن سے زیادہ قرب ہوتا تھا اور آپ پہلی کو بعد والی آن کے مقابلہ میں گناہ خیال فرماتے اور اس پر استغفار کرتے۔ (فتح الباری ج ١٢ ص ٣٨١۔ ٣٧٩ ملخصا، دار الفکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ نے بھی اسی کا خلاصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ استغفار ترک اولیٰ پر تھا یا تواضعاً تھا۔ (عمدۃ القاری ج ٢٢ س ٤٣٤، ملخصا، دار الکتب العلی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ احمد قسطلانی متوفی ٩١١ ھ نے بھی حافظ ابن حجر عسقلانی کی عبارت کا خلاصہ ذکر کیا ہے۔ (ارشاد الساری ج ١٣ ص ٣٦٢۔ ٣٦١، دار الفکر، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث پر یہ اشکال ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو معصوم ہیں، حتیٰ کہ آپ صغائر سے بھی معصوم ہیں، اس کا یہ جواب ہے کہ استغفار کرنے سے گناہ کا صدور لازم نہیں آتا، بلکہ استغفار میں اپنے رب کی طرف حاجت کا اظہار ہوتا ہے اور تواضع ہوتی ہے اور امت کے لئے تعلیم ہوتی ہے تاکہ انکے لئے بھی استغفار کرنا سنت ہوجائے۔ (التوشیح ج ٥ ص ٩٠، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ لکھتے ہیں :

علامہ سبکی نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ ہرچند کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرف اور مرتبہ کو ظاہر کرنے کے لئے یہ فرمایا : ہم نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب بخش دئیے، کیونکہ بادشاہوں کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ اپنے خواص اور مقربین کو نوازنے کے لئے کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے اور تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، حالانکہ بادشاہ کو علم ہوتا ہے کہ اس شخص نے کوئی گناہ نہیں کیا، نہ آئندہ کرے گا لیکن اس کلام سے اس شخص کی تعظیم اور تشریف کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔

بعض محققین نے یہ کہا ہے کہ ” لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر “ کا معنی ہے : ”……“ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کی اگلی اور پچھلی زندگی میں گناہوں سے بچائے رکھے گا اور آپ کو عصمت پر قائم رکھے گا، اس آیت میں مغفرت، عصمت سے کنایہ ہے اور قرآن مجید میں بعض مقامات پر مغفرت سے عصمت کو کنایہ کیا گیا ہے۔

شیخ عز الدین بن عبد السلام نے اپنی کتاب ” نہایۃ السؤل فیما سخ من تفضیل الرسول “ میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انبیاء (علیہم السلام) پر فضیلت دی ہے، پھر انہوں نے فضیلت کی وہ وجوہات ذکر کی ہیں اور ان فضیلت کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنوب (یعنی بہ ظاہر خلافِ اولیٰ کاموں) کو بخش دیا ہے اور یہ بیان کیا ہے کہ انبیاء سابقین میں سے اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کی مغفرت کی خبر نہیں دی، یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن جب دیگر انبیاء (علیہم السلام) سے شفاعت طلب کی جائے گی تو سب ’ نفسی نفسی “ کہیں گے اور ہیبت الٰہی سے شفاعت نہیں کریں گے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لوگ شفاعت طلب کریں گے تو آپ فرمائیں گے۔ یہ میرا کام ہے، اور اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے لئے فتح مبین کو ثابت کیا، پھر مغفرت ذنوب کا ذکر کیا، پھر اپنی نعمت پوری کرنے اور صراط مستقیم کی ہدایت پر ثابت رکھنے اور نصر عزیز کا ذکر کیا، جس سے یہ ظاہر ہوگیا کہ اس آیت سے مقصود گناہوں کا ثابت کرنا نہیں بلکہ گناہوں کی نفی کرنا ہے۔

ابن عطاء (رح) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے متعد نعمتوں کو جمع کردیا ہے، فتح مبین عطا فرمائی جا اجابت کی علامت ہے، مغفرت عطا فرمائی جو محبت کی علامت ہے، اتمامِ نعمت سے سرفراز کیا جو آپ کے اختصاص کی نشانی ہے اور ہدایت عطا فرمائی جو ولایت کی علامت ہے، پس مغفرت سے مراد تمام عیوب اور نقائص سے آپ کی تنزیہہ ہے اور اتمام نعتم سے مراد آپ کو درجہ کاملہ پر پہنچانا اور ہدایت سے مراد آپ کو مشاہدہ ذات وصفات کے اس مرتبہ پر پہنچانا ہے جس سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں ہے۔ (مدارجِ النبوت ج ا ص ٧٢۔ ٧٣، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر)

ہم نے جو شیخ عبد الحق محدث دہلوی سے نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ سب نبیوں کے پاس جائیں گے اور سب ” نفسی نفسی “ کہیں گے، سوائے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے، اس پر بعض لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ حدیث میں تو صرف حضرت آدم، حضرت نوحِ ، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے پاس جانے کا ذکر ہے اور یہ کل پانچ نبی ہیں، سب نبیوں کے پاس جانے کا تو حدیث میں ذکر نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ سب نبیوں کے پاس جانے کا بھی حدیث میں ذکر ہے، ملاحظہ فرمائیں :

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :

……(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧١٨، طرفہ فی : ١٤٧٥، جامع المسانید السنن مسند ابن عمر رقم الحدیث : ١٠)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگ دو زانو بیٹھے ہوں گے، ہر امت اپنے اپنے نبی کے پاس جائے گی، وہ کہیں گے : اے فلاں ! شفاعت کیجئے، حتیٰ کہ یہ (طلب) شفاعت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر ختم ہوگئی۔ پس یہی وہ دن ہے جب اللہ آپ کو مقاممحمود پر فائر فرمائے گا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے بھی تمام انبیاء کا ذکر فرمایا ہے :

اس دن آدم صفی اللہ سے عیسیٰ کلمۃ اللہ تک سب انبیاء اللہ علیہم الصلوۃ والسلام “ نفسی نفسی “ فرمائیں گے اور حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” انا لھا انا لھا “ میں ہوں، شفاعت کے لئے، میں ہوں شفاعت کے لئے “ انبیاء ومرسلین و ملائکہ مقربین سب ساکت ہوں گے اور وہ متکلم سب سربہ گریبان وہ ساجد و قائم سب محل خوف میں آمن و ناعم سب اپنی فکر میں، انہیں فکرِ عوالم، سب زیر حکوتم وہ مالک و حاکم بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کریں گے، ان کا رب انہیں فرمائے گا :“ ……“۔ (تجلی الیقین ص ٣٥)

شیخ عز الدین، علامہ سیوطی اور شیخ عبد الحق سب کے کلام کا حاصل یہی ہے کہ تمام نبیوں کو اپنی اپنی فکر دامن گیر ہوگی۔ حافظ ابن کثیر دمشقی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

شیخ عز الدین، علامہ سیوطی اور شیخ عبد الحق سب کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ تمام نبیوں کو اپنی اپنی فکر دامن گیر ہوگی۔ حافظ ابن کثیر دمشقی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان خصائص میں سے ہے جن میں کوئی اور آپ کا شریک نہیں ہے، آپ کے علاوہ اور کسی شخص کے لئے کسی حدیث صحیح میں یہ نہیں ہے کہ اس کی اگلی اور پچھلی (ظاہری) خطائوں کی مغفرت کردی گئی ہو اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نہایت تعظیم اور تشریف ہے اور اطاعت، نیکی اور پارسائی میں اولین اور آخرین میں سے کسی نے آپ کے مقام کو نہیں پایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا اور آخرت میں علی الاطلاق اکمل البشر اور سید البشر ہیں۔ (تفیسر اب کثیر ج ٤ س ٢٠١، دار افکر، بیروت، ١٤١٩ ھ)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے سورة فتح میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و توقیر کا جو بیان فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو حضور مرتبہ اور مقام ہے اس کا جو ذکر کیا ہے اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ نے دشمنوں پر حضور کے غلبہ اور آپ کی شریعت کی سربلندی کی خبر دینے سے کی ہے اور یہ ابیان فرمایا ہے کہ آپ مغفور ہیں اور ماضی اور مستقبل کی کسی چیز پر آپ سے مواخذہ نہیں ہوگا، بعض علمائے نے کہا : اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ سے کوئی چیز ہوئی ہے یا نہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اس کی مغفرت کردی ہے۔ (الشفاء ج ا ص ٣١، عبد التواب اکیڈمی، ملتان)

علامہ شہاب الدین خفا جی حنفی ١٠٦٩ ھ لکھتے ہیں :

علامہ تجانی نے کہا ہے کہ یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و توقیر بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے، جیسے کوئی شخص کسی سے اظہارِ محبت کے لئے کہے، اگر تمہارا کوئی پہلا یا پچھلا گناہ ہو بھی تو ہم نے اس کو معاف کردیا۔ اس کلام سے اس شخص کا یہ ارادہ نہیں ہوتا کہ اس نے فی الواقع کوئی گناہ کیا ہے اور وہ اس کو معاف کر رہا ہے اور میں کہتا ہوں کہ ذنب کا معنی ستر ہے جو نہ دکھائی دینے کا تقاضا کرتا ہے اور اس کو لازم ہے عدم ذنب، یعنی جب گناہ ہے ہی نہیں تو کیسے دکھائی دے گا، کیونکہ اگر گناہ ہوتا تو دکھائی دیتا ؟ اور اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدم اور موخر دونوں کا ذکر کیا ہے، حالانکہ موخر کا وجود ہی نہیں ہے اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ آپ کا گناہ مقدم ہے نہ موخر سو آپ سے ملطقاً گناہ سرزد نہیں ہوا۔ (نسیم الریاض ج ١ ص ٢٧٣، دار الفکر، بیروت)

ملا علی قاری حنفی متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :

زیادہ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ ہرچند کہ بندہ اپنے مقسوم کے مطابق اعلیٰ مرتبہ پر پہنچ جائے پھر بھی وہ اللہ کی مغفرت سے مستغنی نہیں ہوتا کیونکہ بندہ اپنے بشری عوارض کی بناء پر تقاضائے ربوبیت کے مطابق عبادت کا حق ادا کرنے سے قاصر رہ جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مباح امور میں مشغول ہونے کی وجہ سے یا امت کے اہم کاموں میں مہنمک اور مستغرق ہونے کی وجہ سے جو حضرت الوہیت میں غفلت واقع ہوتی ہے، حضرات انبیاء (علیہم السلام) اپنے بلند مقام کے اعتبار سے اس کو بھی سینہ اور گناہ خیال کرتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ابرابر کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک گناہ ہوتی ہیں۔ (شرح الشفاء علی ھامش نسیم الریاض ج ا ص ٢٧٣، دار الفکر، بیروت)

اعلیٰ حضرت کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت ذنب کی نسبت کی توجیہات

ایک ہندو شخص راما سنگم نے قرآن مجید کی تین آیتوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہ گار ثابت کیا، پہلی آیت یہ ہے :

……(محمد : ١٩)

آپ اپنے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ کاموں پر معافی طلب کیجئے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کے لئے۔

……(المومن : ٥٥ )

آپ اپنے بہ ظاہر خلاف ِ اولیٰ کاموں پر معافی طلب کیجئے۔

……(الفتح : ٢)

تاکہ اللہ آپ کے لئے معاف فرما دے آپ کے اگلے اور پچھلے (بہ ظاہر) خلاف اولیٰ سب کام۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے ان تینوں آیات کی توجیہات بیان کی ہیں، پہلی دو آیتوں میں اعلیٰ حضرت کی توجیہ ہم ان آیتوں کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں اور یہاں پر اہم الفتح : ٢ میں اعلیٰ حضرت کی توجیہ کا ذکر کر ہے ہیں :

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ لکھتے ہیں :

قال اللہ عزوجل ”……“ اگر اللہ کی نعمتیں گننا چاہو تو نہ گن سکو گے، جب اوس کی نومتوں کو کوئی گن نہیں سکت اتو ہر نعمت کو پورا شکر کون ادا کرسکتا ہے۔

از دست و زبان کہ برآید کزعہدہ شکرشبدرآید

شکر میں ایسی کمی ہرگز گناہ بمعنی معروف نہیں بلکہ لازمہ بشریت ہے، نعمائے الٰہی ہر وقت ہر لمحہ ہر آن ہرحال میں متزائد ہیں، خصوصاً خاصوں پر، خصوصاً اون پر جو سب خاصوں کے سردار ہیں اور بشر کو کسی وقت کھانے پینے سونے میں مشغولی ضرور، اگرچہ خاصوں کے یہ افعال بھی عبادت ہی ہیں مگر اصل عبادت سے تو ایک درجہ کم ہیں اس کمی کو تقصیر اور اس تقصیر کو ذنب سے تعبیر فرمایا گیا۔

بلکہ خود نفس عبارت گواہ ہے کہ یہ جسے ذنب فرمایا گیا ہرگز حقیقتہً ذنب بمعنی گناہ نہیں ” ماتقدم “ سے کیا مراد لیا، وحی اترنے سے پیشتر کے اور گناہ کسے کہتے ہیں ؟ مخالفت فرمان کو اور فرمان کا ہے سے معلوم ہوگا ؟ وحی سے تو جب تک وحی نہ اوتری تھی، فرمان کہاں تھا، جب فرمان نہ تھا مخالفت فرمان کے کیا معنی اور جب مخالفت فرمان نہیں تو گناہ کیا۔

جس طرح ” ماتقدم “ میں ثابت ہو لیا کہ حقیقتہ ذنب نہیں، یوں ہی ” ماتاخر “ میں نقد وقت ہے قبل ابتدائے نزول فرمان جو افعال جائز ہوئے کہ بعد کو فرمان اون کے منع پر اترا اور او نہیں یوں تعبیر فرمایا گیا حالانکہ اون کا حقیقتہ گناہ ہونا کوئی معنی ہی نہ رکھتا تھا، ی وہیں بعد نزول وحی وظہورِ رسالت بھی جو افعال جائزہ فرمائے اور بعد میں اون کی ممانعت اوتری، اوسی طریقے سے ان کو ” ماتاخر “ فرمایا کہ وحی بتدریج نازل ہوئی نہ کہ دفعتہ۔

ذنب معصیت کو کہتے ہیں اور قرآن عظیم کے عرب میں اطلاق معصیت عمد ہی سے خاص نہیں۔ قال اللہ تعالیٰ ”……“ (طہٰ : ١٢١) آدم نے اپنے رب کی معصیت کی، حالانکہ خود فرماتا ہے : ”……“ (طہٰ : ١١٥) آدم بھول گیا ہم نے اس کا قصد نہ پایا، لیکن سہو نہ گناہ ہے نہ اس پر مواخزہ، خود قرآن کریم نے بندوں کو یہ دعا تعلیم فرمائی : ”……“ (البقرۃ : ٢٨٦) اے ہمارے رب ! ہمیں نہ پکڑا گر ہم بھولیں یا چوکیں۔

جتنا قرب زائد اسی قدر احکام کی شدت زیادہ۔

جن کے رتبے ہیں سوا اون کو سوا مشکل ہے۔

بادشاہ جبار جلیل القدر ایک جنگلی گنوار کی جو بات سن لے گا جو برتائو گوارا کرے گا، ہرگز شہریوں سے پسند نہ کرے گا، شہریوں میں، بازاریوں سے معاملہ آسان ہوگا اور خاص لوگوں سے سخت اور خاصوں میں درباریوں اور درباریوں میں وزراء ہر ایک پر بار دوسرے سے زائد ہے، اس لئے وارد ہوا :” ……“ نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گنا ہیں، وہاں ترک اولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، حالانہ ترک اولیٰ ہرگز گناہ نہیں۔

اسی وجہ پر کریمہ سورة فتح میں لام ” لک “ تعلیل کا ہے اور ”……“ تمہارے اگلوں کے گناہ اعنی سیدنا عبد اللہ ویسد تنا آنہ (رض) سے متنہائے نسب کریم تک آبائے کرام و امہات طیبات باستثناء انبیائے کرام مچل آدم و شیت و نوح و خلیل و اسمعیل علیہم الصلوۃ والسلام اور ” ماتاخر “ تمہارے پچھلے یعنی قیامت تک تمہارے اہل بیت، امت مرحومہ۔ تو حاصل کریمہ یہ ہوا کہ ہم نے تمہارے لئے فتح مبین فرمائی تاکہ اللہ تمہارے سبب سے بخش دے تمہارے علاقہ کے سب اگلوں پچھلوں کے گناہ۔ والحمدہ اللہ رب العلمین۔

” ماتقدم “ و ” ماتاخر “ سے قبل وبعد نزول وحی کا رادہ جس طرح عبارت تفسیر میں مصرح تھا، آیت میں قطعاً محتمل اور ہم ثابت کرچکے کہ اب حقیقت ذنب خود مند فع ”……“ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٨۔ ٧٥، طبع دار العلوم امجدیہ، کراچی)

” لیفرلک اللہ “ کی تاویل میں غیر مقبول اقوال کا بیان

علامہ سیوطی نے اس مسئلہ کے متعلق ایک رسالہ لکھا ہیـ” القول لمحرر علی قولہ تعالیٰ لیغفر اللہ ما تقدم من ذنبک و تاخر “ اس رالہ میں علامہ سیوطی نے اس آیت کے بارہ وہ جوابات بیان کیے ہیں، جو غیر مقبول ہیں۔ علامہ یوسف نبہانی متوفی ١٣٥٠ ھ نے ” الجواہر البحار “ جلد رابع میں اس رسالہ کو نقل کیا ہے، ہم اختصار کے ساتھ علامہ سیوطی کے بیان کردہ بارہ غیر مقبول جوابات ذکر کر رہے ہیں :

(١) مقاتل نے کہا : ذنب سے مراد وہ امور ہیں جو آپ سے زمانہ جاہلیت میں سرزد ہوئے، یہ جواب اس لئے مردود ہے کہ آپ کے لئے کوئی جاہلیت نہیں۔

(٢) ذنب سے مراد وہ امور ہیں جو قبل از نبوت صادر ہوئے، یہ جواب اس لئے باطل ہے کہ آپ قبل از نبوت بھی معصوم ہیں۔

(٣) سفیان ثوری نے بھی ذنب سے امور ِ جاہلیت مراد لیے، یہ جواب بھی باطل ہے۔

(٤) مجاہد نے کہا :” ما تقدم “ سے مراد حدیث ماریہ اور ” ماتاخر “ سے مراد زید کی عورت کا قصہ ہے، یہ قول باطل ہے کیونکہ ان واقعات میں کوئی گناہ نہیں۔

(٥) زمخشری نے کہا : اس سے مراد آپ کی تقصیرات ہیں، یہ قول باطل ہے، خیون کہ آپ کی کوئی تقصیر نہیں، اللہ تعالیٰ نے مطلقاً آپ کی اتباع کا حکم دیا ہے اور تفریط اور تقصیر میں اتباع جائز نہیں۔

(٦) ذنب سے مراد بچپن میں آپ کا لڑکوں کے ساتھ کھیل کے لئے جانا ہے، یہ قول باط ہے کیونکہ جب آپ کو لڑکوں نے کھیل کے لئے بلایا تو آپ نے فرمایا : میں کھیل کے لئے پیدا نہیں ہوا۔

(٧) عطاء خراسانی نے کہا :” ما تقدم “ سے مراد آپ کے باپ آدم اور حواء کے گنا ہے ہیں اور ” ماتاخر “ سے مراد آپ کی امت کے گناہ ہیں، یہ قول تین وجود سے ضعیف ہے۔ (١) حضرت آدم نبی معصوم ہیں ان کی طرف کوئی گناہ منسوب نہیں ہے سو یہ ایسی تاویل ہے جو خود تاویل کی محتاج ہے۔ (ب) جس شخص سے گناہ صادر نہ ہوئے ہوں اس کی طرف خطاب کے صیغہ سے دوسروں کے گناہ منسوب نہیں کیے جاتے۔ (ج) تمام امت کے گناہ معاف نہیں کیے جائیں گے بلکہ بعض کے گناہ معاف کیے جائیں گے اور بعض کے معاف نہیں کیے جائیں گے۔

(٨) حضرت ابن عباس نے کہا : ذنب سے مراد وہ امور ہیں جو آئندہ ہوں گے، علامہ سبکی نے کہا : اس میں یہ تاویل ہے کہ اگر بالفرض آپ کے ماضی اور مستقبل میں گناہ ہوں بھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی وجاہت کی وجہ سے ان کو معاف کردیا۔

(٩) قاضی عیاض نے ” شفائ “ میں کہا : آپ سے گناہ ہوئے یا نہیں ہوئے، اللہ نے آپ کو معاف کردیا۔

(١٠) ” ماتقدم “ سے مراد ہے : نبوت سے پہلے اور ” ماتاخر “ سے مراد ہے : نبوت کے بعد آپ کو معصوم رکھنا۔

(١١) علامہ طبری اور علامہ قشیری نے کہا : آپ سے جو امور سہو، غفلت اور تاویل سے سرزد ہوئے، ان کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا۔

(١٢) مکی نے کہا : اس آیت میں خطاب آپ کو ہے اور مراد آپ کی امت ہے۔

یہ بارہ اقوال ہیں اور یہ سب غیر مقبول ہیں، ان میں سے بعض مردود، بعض ضعیف اور بعض میں تاویل ہے۔ (جواہر البحارج ٤ ص ٢١٣۔ ٢١١، مطبوعہ مطبعہ مصطفیٰ المجلسی واولادہ، مصر، ١٣٧٩ ھ)

علامہ سیوطی نے عطاء خراسانی کے قول کو ضعیف کہا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ قول بالکل صحیح نہیں ہے اور ہم اس کی وجوہات اور روایت حدیث میں عطاء خراسانی کی حیثیت کو آئندہ صفحات میں بیان کر رہے ہیں، فنقول وباللہ التوفیق۔

عطاء بن ابی مسلم خراسانی

ہمارے ہاں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ ” کنز الایمان “ میں الفتح : ٢ کا ترجمہ عطاء خراسانی کی اتباع میں کیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ عطاء خراسانی کی تاویل اور اعلیٰ حضرت کے ترجمہ میں صرف یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں نے ذنب کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف برقرار نہیں رکھی جیسا کہ ظاہر قرآن میں آپ کی طرف نسبت ہے۔ ورنہ عطاء خراسانی کی تاویل یہ ہے کہ آپ کے باپ آدم اور آپ کی ماں حواء کے گناہ آپ کی برکت سے بخژ دئیے گئے اور عطاء خراسانی نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف گناہ کی نسبت کی ہے اور اعلیٰ حضرت نے یہ نسبت آپ کے اگلوں اور پچھلوں کی طرف کی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کا ستثناء کیا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٨، طبعی قدیم، کراچی)

اس کو ہم اسے پہلے تفصیل سے لکھ چکے ہیں یہاں پر ہم اس قدر بتانا چاہتے ہیں کہ عطاء خراسانی کی روایت حدیث میں کیا حیثیت ہے اور ان کا تعارف کیا ہے ؟

ان کا پورا نام عطاء بن عبد اللہ ہے، یہ پچاس ہجری میں پیدا ہوئے اور ١٣٣ ھ یا ١٣٥ ھ میں فوت ہوگئے، یہ شام میں سکونت پذیر رہے۔ (میزان الاعتدال ج ٥ ص ٩٣، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)

یہ محدث اور واعظ تھے، دمشق اور قدس میں رہے اور دراصل یہ بلخ کے رہنے والے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء ج ٦ ص ٣٥٩، دار الفکر، بیروت)

روایت حدیث کے اعتبار سے ان کا شمار ضعفاء میں ہوتا ہے، چند اقوال ان کی تعدیل اور تعریف میں بھی ہیں، لیکن زیادہ تراقوال ان کی جرح اور مذمت میں ہیں۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ لکھتے ہیں :

قاسم بن عاصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن المسیب سے کہا کہ عطاء خراسانی آپ سے یہ حدیث روایت کرتا ہے کہ جس شخص نے رمضان میں جماع کیا تھا اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ کفارا ظہار ادا کرے۔ سعید بن المسیب نے کہا : اس نے جھوٹ بولا، میں نے اس کو یہ حدیث بیان نہیں کی۔ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا (عطاء خراسانی نے حضور کی طرف جھوٹ منسوب کیا) ۔ (التاریخ الکبیر ج ص ٢٥٩، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢٢ ھ)

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ لکھتے ہیں :

علی ب عبد اللہ یان کرتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید سے ابج جریج از عطاء خراسانی کے متعلق پوچھا، انہوں نے کہا : وہ ضعیف راوی ہے، میں نے کہا : وہ کہتا ہے کہ ابن جریج نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا : وہ ” لاشئی “ ہے (کوئی چیز نہیں) ، ابن جریج نے اس کو صرف اپنی کتاب دی تھی۔ (کتاب العلل ص ٢٥٧۔ ٢٤٦، مع الجامع الکبیر ج ٦، دارالجیل، بیروت، ١٩٩٨ ئ)

حافظ محمد بن عمرو عقیلی مکی متوفی ٣٢٢ ھ نے عطاء خراسانی کا ضعفاء میں ذکر کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :

سعید بن المسیب نے کہا : عطاء خراسانی نے جھوٹ بولا، میں نے اس کو یہ حدیث نہیں بیان کی کہ رإجان میں جماع کرنے والے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفارہ ظہارادا کرنے کا حکم دیا تھا، مجھے صرف یہ حدیث پہنچی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو صرف صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا (یعنی عطاء خراسانی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جھوٹ منسوب کیا) ۔ (کتاب الضعفاء الکبیر ج ٣ ص ٤٠٦۔ ٤٠٥، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

حافظ عبد اللہ بن عدی جرجانی متوفی ٣٦٥ ھ نے بھی عطاء خراسانی کو ضعفاء میں شمار کیا ہے اور انہوں نے بھی مذکور بالا قول تفصیل سے لکھا ہے کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ عطاء خراسانی نے جھوٹ بولا، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جھوٹ منسوب کیا۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال ج ٧ ص ٦٨، دار الکتب العلمیہ، بیروت، طبع جدید، ١٤١٨ ھ)

حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی متوفی ٧٤٨ ھ نے عطاء خراسانی کی تعدیل بھی کی ہے، لیکن زیادہ ترجرح کے اقوال لکھے ہیں :

٭ امام نسائی نے کہا : اس کی روایت میں کوئی حرج نہیں، احمد، یحیٰی اور عجلی وغیرہ نے کہا : وہ ثقہ ہے۔

٭ امام عقیلی نے ذکر کیا ہے کہ اس نے سعید بن المسیب سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ توڑنے والے کو کفارہ ظہار ادا کرنے کا حکم دیا، سعید نے کہا : اس نے جھوٹ بولا، میں نے اس سے یہ حدیث نہیں بیان کی مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

٭ امام بخاری نے عطاء خراسانی کا ضعفاء میں ذکر کیا ہے۔

٭ امام احمد بن حنبل نے بیان کیا ہے کہ عطاء خراسانی نے سعید بن المسیب سے جھوٹی حدیث روایت کی۔

٭ امام ابن حبان نے عطاء خراسانی کا ضعفاء میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ نیک شخص تھا مگر اس کا حافظہ ردی تھا، وہ بہت وہمی تھا اور روایت میں خطا کرتا تھا۔

٭ امام ابن ابی حاتم نے کہا : وہ ثقہ تھا۔ شعبہ نے کہا : عطاء خراسانی بھلکڑ تھا۔

٭ امام ترمذی نے ” کتاب العلل “ میں کہا : امام بخاری نے بتایا کہ میں امام مالک کی روایات میں عطاء خراسانی کے علاوہ اور کسی ایسے راوی کو نہیں جانتا جس کی حدیث ترک کیے جانے کی مستحق ہو۔ امام ترمذی نے امام بخاری سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا : اس کی احادیث الٹ پلٹ ہوتی ہیں، پھر امام ترمذی نے کہا : عطاء ثقہ ہے (میں کہتا ہوں کہ امام بخاری کی تحقیق کے مقابلہ میں امام ترمذی کا کیا اعتبار ہے، ہاں ! ہوسکتا ہے کہ امام ترمذی کی عطاء سے مراد عطاء بن ابی رباح ہو) ۔ (میزان الاعتدال ج ٥ ص ٩٤۔ ٩٣، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ نے تقریباً یہی تمام اقوال بیان کیے ہیں۔ (تہذیب التہذیب ج ٧ ص ١٨٦۔ ١٨٥، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

عطاء خراسانی نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف جو گناہ کی نسبت کی ہے اس کی تاویل کا باطل ہونا

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ عطاء خراسانے نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف جو گناہ کی نسبت کی ہے وہ بہ طور مثال ہے لیکن یہ تاویل مردود ہے، کیونکہ تاویل اس وقت کی جاتی ہے جب قرآن اور حدیث میں انبیاء (علیہم السلام) کی طرف گناہ کی نسبت ہو اور قرآن اور حدیث کے ترجمہ کے بغیر جو شخص انبیاء (علیہم السلام) کی طرف گناہ کی نسبتکرے اس کو بعض علماء نے کفر لکھا ہے اور بعض علماء نے اس کو حرام لکھا ہے۔

علامہ ابن الحاج مالکی متوفی ٤٣٧ ھ لکھتے ہیں :

ہمارے علمہ رحمتہ اللہ علیہم نے کہا ہے : جس نے قرآن اور حدیث کی تلاوت کے بغیر کسی نبی کے متعلق یہ کہا کہ اس نبی نے معصیت کی یا اللہ کی مخالفت کی وہ تو وہ نعوذ باللہ کافر ہوگیا۔ (المدخ (رح) ج ٢ س ٤٤، دار الفکر، بیروت)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، العزیز متوفی ١٣٤٠ ھ تحریر فرمات ہیں :

تنبیہ مہم : یہ کہ ہم نے سلسلہ کلام میں اوپر ذکر کیا کہ غیر تلاوت میں اپنی طرف سے سیدنا آدم (علیہ السلام) کی طرف نافرمانی و گناہ کی نسبت حرام ہے۔ ائہ دین نے اس کی تصریح فرمائی بلکہ ایک جماعت علمائے کرام نے اسے کفر بتایا۔ مولیٰ کو شایان ہے کہ اپنے محبوب بندوں کو جس عبارت سے تعبیر فرمائے، فرمائے۔ دوسرا کہے تو اس کی زبان گدی کے پیچھے سے کھینچی جائے ”……“ بلا تشبہ یوں خیال کرو کہ زید نے اپنے بیٹے عمرو کو اس کی کسی لغزش یا بھول پر متنبہ کرنے، ادب دینے، حزم و عزم و احتیاط اتم سکھانے کے لئے مثلاً بیہودہ، نالائق، احمق وغیر ہا الفاظ سے تعبیر کیا، باپ کو اس کا اختیار تھا، اب کیا عمرو کا بیٹا بکر یا غلام خالد انہیں الفاط کو سند بنا کر اپنے باپ اور آقا عمرو کو یہ الفاظ کہہ سکتا ہے، حاشا اگر کہے گا تو سخت گستاخ و مردود و ناسزا و مستحق عذاب و تعزیر و سزا ہوگا، جب یہاں یہ حالت ہے تو اللہ عزوجل کی ریس کرکے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شان میں ایسے الفاط کا بکنے والا کیونکر سخت شدید و مدید عذاب جہنم و غضب الٰہی کا مستحق نہ ہوگا ؟ والعیاذ باللہ تعالیٰ ۔ امام ابو عبد اللہ قرطبی تفسیر میں زیر قولہ تعالیٰ ”……“ (الاعراف : ٢٢) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

……(المدخل ج ٢ ص ١٤، بیروت)

قاضی ابوبکر بن عربی فرماتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو یہ جائز نہیں کہ آدم (علیہ السلام) کی بابت اس کی خبر دے، ہاں ! اللہ تعالیٰ کے قول کے ضمن میں ہو تو حرج نہیں یا کسی حدیث میں ہو تو حرج نہیں، اپنی طرف سے تو اس قسم کے امور کو کوئی شخص اپنے ماں باپ کی طرف سے بھی منسوب کرنا پسند نہ کرے گا، تو حضرت آدم جو ہمارے جد اعلیٰ اکبر و اعظم اور اللہ کے تمام انبیاء ومرسلین سے پہلے نبی ہیں، ان کی بابت یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ پر اور تمام انبیاء اور مرسلین پر رحمت اور سلامی نازل فرمائے۔

امام ابو عدب اللہ محمد بن عبدری ابن الحاج ” مدخل “ میں فرماتے ہیں :

……(المدخل ج ٢ ص ١٤)

ہمارے علماء رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جس نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلا کی لغزش کا ذکر بغیر تلاوت یا حدیث کے کیا یا ان کی نافرمانی کا ذکر کیا تو اس نے کفر کیا، ہم اللہ تعالیٰ سے اس بارے میں پناہ مانگتے ہیں۔

ایسے امور میں سخت احتیاط فرض ہے، اللہ تعالیٰ اپنے محبوبوں کا حسن ادب عطا فرمائے۔ آمین

……(فتاویٰ رضویہ ج ١ ص ٨٢٤۔ ٨٢٣، طبع لاہور، فتاویٰ رضویہ ج ١ ص ٣٣٤۔ ٣٣٣، دار العلوم امجدیہ، کراچی)

صدر الشریعۃ مولانا امجد علی متوفی ١٣٧٦ ھ لکھتے ہیں :

انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے جو لغزشیں واقعہ ہوئین ان کا ذکر تلاوت قرآن و روایت حدیث کے سوا حرام اور سخت حرام ہے، اوروں کو ان سرکاروں میں لب کشائی کی کیا مجال۔ مولیٰ عزوجل ان کا مالک ہے جس محل پر جس طرح چاہے تعبیر فرمائے، وہ اس کے پیارے بندے ہیں، اپنے رب کے لئے جس قدر چاہیں تواجع فرمائیں، دوسرا ان کلمات کو سند نہیں بنا سکتا اور خود ان کا اطلاق کرے تو مردود بارگاہ ہوگا، پھر ان کے یہ افعال جن کو لغزش و زلت سے تعبیر کیا جائے ہزار ہا حگم و مصالح پر مبنی، ہزار ہا فوائد و برکات کے مثمر ہوتے ہیں، ایک لغزش ابینا آدم (علیہ السلام) کو دیکھئے اگر وہ نہ ہوتی، جنت سے نہ اترتے، دنیا آباد نہ ہوتی، نہ کتابیں اترتیں، نہ رسول آتے، نہ جہاد ہوتے، لاکھوں کروڑوں مثوبات کے دروازے بند رہے ان سب کا فتح باب ایک لغزش آدم کا نتیجہ مبارکہ وثمرہ طیبہ ہے، بالجملہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی لغزش من و تو کس شمار میں ہیں، صدیقین کی حسنات سے افضل و اعلیٰ ہے (……) ۔ (بہارِ شریعت حصہ اول ص ١٣، ضیاء الدین پبلی کیشنز، لاہور)

ان تصریحات سے معلوم ہوگیا کہ عطاء خراسانی نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف گناہ کی نسبت کرکے کفر کا ارتکاب کیا ہے یا سخت ترین حرام کا ارتکاب کیا ہے اور اس شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جھوٹی حدیث منسوب کی، سو ایسا شخص کسی تعظیم کے لائق نہیں ہے، لیکن ہمارے زمانہ میں بعض لوگ اپنے ناقص مطالعہ کی بناء پر یہ سمجھ رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے الفتح : ٢ کے ” کنز الایمان “ والے ترجمہ میں عطاء خراسانی کی اتباع کی ہے جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے اور نہایت افسوس اس بات پر ہے کہ بعض مولفین نے اپنے مقالہ میں یہاں تک لکھ دیا کہ اس روایت (انباء المصطفیٰ میں ” بخاری مسلم “ کے حوالہ سے ذکر کردہ حدیث یا ” انباء الحی “ میں ذکر کردہ رعو وایت ابن عباس) بل بوتے پر حضرت خراسانی کے موقف (حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف گناہ کی نسبت کرنے) کو ” مردود اور غیر صحیح “ قرار دینا بازار علم میں اپنی اہمیت کم کرنا ہے۔ (انا اللہ وانا الیہ راجعون)

بعض لوگوں نے عطاء خراسانی سے عقیدت کے غلو میں یہ لکھا ہے کہ عطاء خراسانی نے سعید بن المسیب کے حوالہ سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھوٹ باندھا ہے اور صدقہ کرنے کی بجائے کفارہ ظہار ادا کرنے کو روایت کیا ہے، یہ نہ جھوٹ ہے نہ کوئی بڑی غلطی ہے ‘ آخر روایت بالمعنی بھی تو کوئی چیز ہے۔ سو انہوں نے روایت بالمعنی کرکے صدقہ کی جگہ کفارہ ظہار کہہ دیا کیونکہ کفارہ ظہار بھی ایک قسم کا صدقہ ہے۔ باقی رہا ائمہ حدیث کا ان کو ضعفاء میں شمار کرن اور ان کے حافط کو ردی قرار دینا اور یہ کہنا کہ وہ روایات میں بھلکڑ تھے، وہمی تھے اور خطا کرتے تھے یہ کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے۔ آخر امام بخاری سے بھی لوگوں کو شکایت ہے کہ وہ روایت کو قبول کرنے میں بہت سخت تھے۔ تو اگر عطاء خراسانی سے بھی لوگوں کو شکایت ہو تو اس میں کیا حرج ہے۔ لیکن ان غالی معتقدین نے اس پر غور نہیں کیا کہ امام بخاری روایت کے قبول میں کری شرطیں لگاتے تھے تاکہ حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کذب راستہ نہ پاسکے۔ اور عطاء خراسانی روایت کے بیان کرنے میں بہت کمزور تھے اور بہت بھلکر اور وہمی تھے اور اس قدر غیر محتاط تھے کہ روایت کرنے میں جھوٹ بھی بول دیتے تھے۔ اور اس کی یہ تاویل کرنا کہ وہ روایات بالمعنی ہو تو سعید بن المسیب، امام بخاری، امام عقییل، امام عدی جرجانی، امام احمد بن حنبل اور علامہ ذہبی وغیرہ کو بھی روایت بالمعنی کا علم تھا اس کے باوجود ان سب نے عطاء خراسانی کو اس روایت میں جھوٹا ہی کہا اور روایت بالمعنی کا سہارا نہیں لیا اور یہ ائمہ حدیث یقینا علم اور تحقیق میں ان غالی معتقدین سے بہت آگے تھے۔

اسی طرح بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ عطاء خراسانی کی عبارت میں جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف گناہ کی نسبت کی گئی ہے اس میں گناہ سے مراد خلافِ اولیٰ ہے۔ یہ تاویل اس لئے باطل ہے کہ اگر قرآن اور حدیث میں ابیاء (علیہم السلام) کی طرف گناہ کی نسبت ہو تو اس کی تاویل خلافِ اولیٰ سے کرنا درست ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص از خود انبیاء (علیہم السلام) کی طرف گناہ کی نسبت کرتا ہے تو اس کے کلام کی تاویل نہیں کی جائے گی بلکہ اس کے کلام کو کفر یا سخت حرام پر محمول کیا جائے گا اور اس کر مردود بارگاہ قرار دیا جائے گا، جیسا کہ علامہ ابن الحاج اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اور صدر الشریعہ علامہ امجد علی قدس سر ھمانے تصریح فرمائی ہے۔

مصنف کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت ذنب کی توجیہات

ہم نے الفتح : ٢ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے : تاکہ اللہ آپ کے لئے معاف فرما دے آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ سب کام۔ اس ترجمہ میں ہم نے ذنب کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف برقرار رکھی ہے اور اس کا معنی بہ ظاہر خلافِ اولیٰ کیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مکروہ تنزیہی یا خلافِ اولیٰ کا صدور خود احادیث سے ثابت ہے۔ خلافِ اولیٰ اور مکروہ تنزیہی کے ثبوت میں اعلیٰ حجرت مجددِ ملت امام رضا خان قادر قدس سرہ، العزیز کی بہ کثرت تصریحات ہیں، جن میں سے بعض تصریحات کی میں پیش کر رہا ہوں۔ فاقول وباللہ التوفیق

بہ ظاہر کی قید اس لئے لگائی ہے کہ حقیقت میں آپ کا کوئی کام خلافِ اولیٰ یا مکروہِ تنزیہی نہیں ہے۔ بعض اوقات آپ نے کسی کام سے منع فرمایا پھر خود اس کام کو کیا تاکہ امت کو یہ معلوم ہوجائے کہ آپ کا اس کام سے منع کرنا تحریم کے لء نہیں تھا بلکہ تنزیہہ کے لئے تھا۔

مثلاً آپ نے فصدلگانے (رگ کار کر خون چوس کر نکالنا) کی اجرت دینے سے منع فرمایا اور حضرت ابو طیبہ نے آپکو فصدلگائی تو آپ نے ان کو دو صاع (آٹھ کلوگرام) طعام دینے کا حکم دیا۔ (جامع ترمذی ص ٢٠٤، مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)

اگر آپ ابو طیبہ کو فصدلگانے کی اجارت نہ دیتے تو ہم کو یہ کیسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجرت دینا جائز ہے اور ممانعت تنزیہہ کے لئے ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہنا چاہتیے کہ فصد کی اجرت دینا ہمارے لئے مکروہِ تنزیہی ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں نہیں ہے اور اسمیں آپ کا اجرو ثواب فرض کا اجروثواب ہے۔ اس نکتہ کے پیش نظر اس کو بہ ظاہر خلافِ اولیٰ لکھا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات آپ نے کسی کام کا افضل اور اولیٰ طریقہ بتایا اور پھر اس کے خلاف کیا، یہ بھی اسی طرح بہ ظاہر خلافِ اولیٰ ہے، حقیقت میں خلافِ اولیٰ نہیں ہے۔ مثلاً آپ نے فرمایا : سفیدی پھیلنے کے بعد فجر کی نماز پڑھنے سے زیادہ اجر ہوتا ہے اور آپ نے خود منہ اندھیرے بھی فجر کی نماز پڑھی ہے۔ (جامع ترمذی ص ٤٩، مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)

اگر آپ کسی کام سے منع فرما کر یہ بتلا دیتے کہ اس کا خلاف بھی جائز ہے اور خود اس کام کو نہ کرتے، تب بھی مسئلہ تو معلوم ہوجاتا لیکن اس کام میں آپ کی اقتداء کا شرف حاصل نہ ہوتا، بہرحال قرآن مجید اور احادیث میں جہاں آپ کی طرف مغفرت ذنوب کی نسبت کی گئی ہے، وہاں ذنوب سے مراد بہ ظاہر خلافِ اولیٰ یا بہ ظاہر مکرو تنزیہی کام ہیں اور مغفرت سے مراد آپ کے درجات کی بلندی اور قرب خاص سے نوازنا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہرگز کھڑے ہو کر پانی نہ پئے پس جو شخص بھول جائے وہ قے کردے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٢٤) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زمزم سے پانی پلایا تو آپ نے کھڑے ہو کر پیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٢٢ )

علامہ نووی متوفی ٦٧٦ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ کھرے ہو کر پانی پینا مکروہ تنزیہی ہے اور آپ کا کھڑے ہو کر پانی پینا بیان جواز کے لئے ہے۔ (صحیح مسلم بشرح النواوی ج ٩ ص ٥٥٣٥، مکتبہ نزار مصطفی، مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

علامہ ابو العباس قرطبی مالکی متوفی ٦٥٦ ھ نے لکھا ہے : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فعل جواز کو بیان کرنا ہے اور نبی تنزیہہ کا تقاضا کرتی ہے پس اولیٰ یہ ہے کہ ہرحال میں اس کو ترک کیا جائے۔ (المفہم ج ٥ ص ٢٨٥، دار ابن کثیر، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے لکھا ہے : یہ نہی تنزیہہ کے لئے ہے اور حدیث صحیح میں ہے : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھڑے ہو کر پانی پیا ہے اور یہ بیان جواز کے لئے ہے۔ (الدیباج ج ٢ ص ٨٠٣، ادارۃ القرآن، کراچی، ١٤١٢ ھ)

حافظ بدر الدین محمود بن احمد عینی متوفی ٨٥٥ ھ اور ملاعلیی بن سلطان محمد القاری متوفی ١٠١٤ ھ نے بھی اسی طرح لھا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٩ س ٤٠٠، دار الکتب العلمیہ، بیروت ١٤٢١ ھ، مرقاۃ المفاتیج ج ٨ س ٩٤، مکتبہ حقانیہ پشاور)

اسی طرح وضو میں افضل، اعضاء وضو کو تین تین بار دھونا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعضاء وضو کو ایک ایک ابار اور دو دو بار بھی دھویا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الوضو، باب : ا، تعلیقا)

اور ظاہر ہے کہ اعضاء وضو کو ایک ایک بار یا دو دوبارہ دھونا خلافِ افضل اور خلافِ اولیٰ ہے، اسی طرح افضل اور اولیٰ چل کر طواف کرنا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواری پر بھی طواف کیا ہے اور یہ بھی خلاف اولیٰ ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سواری پر بھی طواف کیا اور جب آپ رکن تک پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦١٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٨٢٥، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٩٥٥، سنن بیہقی ج ٥ س ٨٤، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٨٠٩)

علامہ بدر الدین عینی حنفی نے لکھا ہے : امام ابوحنیفہ کے نزدیک اگر کسی نے رش کی وجہ سے سواری پر طواف کیا تو مکروہ ہے اور عذر کی وجہ سے کیا تو مکروہ نہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت زیادہ رش کی وجہ سے سواری پر طواف کیا تھا یا مرض کی وجہ سے اور علامہ نووی نے لکھا ہے کہ افضل یہ ہے کہ چل کر طواف کرے، سواری پر طواف نہ کرے، الا یہ کہ اس کا کوئی عذر نہ ہو۔ (عمدۃ القاری ج ٩ س ٣٢٣، ملخصا، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٢١ ھ)

حضرت انس فرماتے ہیں کہ ابو طیبہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فصد لی تو حضور نے اس کے لئے ایک صاع کھجوروں کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٥٧٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٢٧٨)

مفتی احمد یار خاں متوفی ١٣٩١ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فصد کی اجرت جائز ہے، جہاں ممانعت آئی ہے، وہاں تنزیہی کراہت مراد ہے، وہ فرمان عالی کراہت کے بیان کے لئے ہے اور یہ عمل شریف بیان جواز کے لئے ہے، لہٰذا احادیث متعارض نہیں۔ (مراۃ المناجیح ج ٤ ص ٢٣٣۔ ٢٣٢، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

ان تمام احادیث اور عبارات علماء سے یہ ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خلافِ اولیٰ یا مکروہِ تنزیہی کاموں کا صدور ہوا اور یہ بیان جواز کے لئے تھا۔

اعلیٰ حضرت عظیم البرکت قدس سرہ العزیز تحریر فرماتے ہیں :

یہ بھی ہمارے اختیار کردہ قول کراہت تحریفہ کی صراحت کرتا ہے، کیونکہ مکروہِ تنزیہی میں کوئی گناہ نہیں ہوتا، وہ صرف خلافِ اولیٰ ہے۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان جواز کے لئے ایسا کیا اور نبی قصداً گناہ کرنے سے معصوم ہوتا ہے اور گناہ میں مبتلا کرنے والی چیز کا ارتکاب جائز نہیں ہوتا تو بیان جواز کے کیا معنی ؟ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٤٥٠۔ ٣٤٩، رضا فائونڈیشن، لاہور، ١٩٩٤ ئ)

اس عبارت میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مکروہِ تنزیہی اور خلافِ اولیٰ کا صدور ہوا۔ نیز اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں : (ام المومنین صدیقہ (رض) سے رویا ت ہے) کہ ایک شخص نے حضور سے عرض کی اور میں سن رہی تھی کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! میں صبح کو جب اٹھتا ہوں اور نیت روزے کی ہوتی ہے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں خود ایسا کرتا ہوں، اس نے عرض کی : حضور کی ہماری کیا برابری ؟ حضور کو تو اللہ عزوجل نے ہمیشہ کے لئے پوری معافی عطا فرمادی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص ٦١٦۔ ٦١٥، مکتبہ رضویہ، کراچی، ١٤١٠ ھ)

اعلیٰ حضرت کے والد ماجد امام المتکلمین مولانا شاہ نقی علی خان متوفی ١٢٩٧ ھ نے سورة الم نشرح کی تفسیر لکھی ہے جس کو ” انوارِ جمال مصطفیٰ “ کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس کے متعلق اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں : ازاں جملہ الکلام الاوضح فی تفسیر سورة الم نشرح کہ مجلد کبیر ہے علوم کثیرہ پر مشتمل۔ (انوارِ جمال مصطفیٰ ص ٨، شبیر برادرز، لاہور)

اس کتاب میں الفتح : ٢ کے ترجمہ میں مولانا شاہ نقی علی خان تحریر فرمات ہیں : تا معاف کرے اللہ تیرے اگلے اور پچھلے گناہ۔ (انوارِ جمال مصطفیٰ ص ٧١، شبیر برادرز، لاہور )

نیز مولانا شاہ نقی علی خان ایک حدیث کے ترجمہ میں تحریر فرماتے ہیں :

مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں : آپ نے اس قدر عبادت کی کہ پائے مبارک سوج گئے، لوگوں نے کہا : آپ تکلیف اس قدر کیوں اٹھاتے ہیں کہ خدا نے آپ کی اگلی اور پچھلی خطا معاف کی ؟ فرمایا : ” افلا اکون عبدا شکورا “۔ (سرور القلوب بذکر المحبوب ص ٢٣٤، شبیر بردارز، لاہور)

ہمارے اس ترجمہ کی اصل وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے صحابہ کرام نے مغفرت ذنب کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس نسبت کو برقرار رکھا۔

اس حدیث کی صحت کے لئے یہ کافی ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، العزیز نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ دیکھئے ! اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :

خود قرآن عظیم و احادیث صحیحہ، صحیح بخاری و صحیح مسلم میں اس کا ناسخ موجود ہے، جب آیت کریمہ ”……“ (الفتح : ٢) اتری یعنی تاکہ اللہ بخش دے تمہارے واسطے سے سب اگلے پچھلے گناہ، صحابہ نے عرض کی :”……“ آپ کو مبارک ہو، خدا کی قسم ! اللہ عزوجل نے یہ تو صاف صاف فرمادیا کہ حضور کے ساتھ کیا کرے گا، اب رہا یہ کہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ؟ اس پر یہ آیت اتری :ـ”……“ تاکہ داخل کرے اللہ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ رہیں گے ان میں اور مٹا دے ان سے ان کے گناہ اور یہ اللہ کے ہاں بری مراد پانا ہے۔ یہ آیت اور ان کی امثال بےنظیر اور یہ حدیث جلیل شہیر ایسوں کو کیوں سمجھائی دیتیں۔ (انباء المصطفی ص ٩۔ ٨، نوری کتب خانہ، لاہور)

اعلیٰ حضرت کے نزدیک یہ حدیچ اس درجہ قوی ہے کہ آپ اسے الاحقاف : ٩ کے لئے ناسخ قرار دیتے ہیں۔

اسی طرح صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ نے بھی الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے اور مفتی احمد یار خان نعیمی متوفی ١٣٩١ ھ نے ” نور العرفان “ میں الاحقاف : ٩ کی تفسیر اس حدیث کا ذکر کیا ہے اور اس کو الاحقاف : ٩ کے لئے ناسخ قرار دیا ہے۔

ایک طرف تو اعلیٰ حضرت سے لے کر مفتی احمد یار خان تک ہمارے سب علماء نے اس کو انتہائی درجہ کی صحیح حدیث فرمایا ہے، دوسری طرف بعض علماء نے اس حدیث کی سند کو ناقابل اعتبار، ناقابل استدلال اور ضعیف کہا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ روایت انتہائی نحیف و نزار ہے۔ ہم نے ” بتیان القرآن “ ج ٦ ص ٣٤٣۔ ٣٣٧ میں ان کے اعتراض کے متعدد جواب لکھ کر یہ واضح کردیا ہے کہ اعلیٰ حضرت کا اس حدیث کو صحیح اور الاحقاف : ٩ کے لئے ناسخ فرمانا درست ہے اور حدیث کو رد کرنے سے ہمارے ترجمہ کے برحق ہونے پر جو گرد پڑی تھی، الحمد اللہ ! وہ گرد دور ہوگئی اور الاحقاف : ٩ کی تفسیر میں بھی اس حدیث کی صحت پر بہت دلائل لکھے ہیں۔

ہمارے اس ترجمہ کی اصل وہ احادیث بھی ہیں جن سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے ” انباء الحئی “ میں استدلال فرمایا ہے۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ، تحریر فرماتے ہیں :

……(انباء الحئی ص ٣٨٨)

امام ابو دائود نے اپنی کتاب الناسخ میں (وما ادری ما یفعل بی ولا بکم) کی تفسیر میں حضرت عکرمہ (رض) سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اس آیت کو الفتح : ٢ نے منسوخ کردیا۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا : یا نبی اللہ ! آپ کو مبارک ہو ہم نے اب جان لیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا، سو ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے سورة احزاب کی یہ آیت نازل فرمائی : (……) اور یہ آیت نازل فرمائی : (……) پس اللہ تعالیٰ نے بیان کردیا کہ آپ کے ساتھ اور ان کے ساتھ کیا جائے گا۔

” انباء المصطفی “ اور ” انباء الحی “ ان دونوں کتابوں میں اعلیٰ حضرت کی عبارات سے یہ بات وضاحت سے ثابت ہوگئی کہ الاحقاف : ٩، الفتح : ٢ سے منسوخ ہے۔

بعض لوگوں نے اعلیٰ حضرت کی مستدل بہ حدیث کی اس لئے ضعیف کہا تھا کہ عکرمہ کی روایات مرسل ہے، انہوں نے اپنا ذریعہ علم نہیں بیان کیا، اس اعتراف اولا جواب یہ ہے کہ حدیث مرسل احناف اور مالکیہ کے نزدیک مطلقاً مقبول ہوتی ہے اور ثانیاً جواب یہ ہے کہ عکرمہ کی یہ حدیث مرسل نہیں، متصل ہے، حضرت ابن عباس (رض) سے متصلا مروی ہے اور ہمارے نزدیک اس حدیث کی صحت کے لئے یہ امر کافی ہے کہ اس سے اعلیٰ حضرت (رض) نے استدلال فرمایا ہے۔

نیز اعلیٰ حضرت نے اپنے موقف پر استدلال کرتے ہوئے انباء الئی میں ان احادیث کو بھی ذکر فرمایا ہے :

………

ترجمہ : امام بخاری اور امام مسلم اور محدثین کی ایک جماعت نے حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت یہ آیت نازل کی گئی (……) جب آپ حدیبیہ سے لوٹے تو آپ نے فرمایا : بیشک مجھ پر ایسی آیت نازل کی گئی ہے جو مجھے روئے زمین پر موجود تمام چیزوں سے محبوب ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت صحابہ کے سامنے تلاوت فرمائی، صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو، بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے بیان فرما دیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا، تو ہمارے ساتھ کیا کیا جائے گا ؟ تو آپ پر یہ آیت نازل ہوئی : (……) یہاں تک کہ (…) تک پہنچے۔

……(انباء الحی ص ٣٨٨)

امام ابن جریر، امام ابن منذر، امام ابن ابی حاتم اور امام ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس (رض) تالیٰ عنہما سے روایت کیا ہے :……تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد نازل کیا : ……اور ……تو اللہ سبحانہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع فرما دیا کہ آپ کے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمام مومنین کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔

اعلیٰ حضرت امام ابو دائود کی ” کتاب الناسخ “ سے عکرمہ از ابن عباس والی روایت کو تحریر فرمانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں :

……(انباء الحی ص ٣٧٧)

اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے حوالہ کے مطابق امام ابن جریر کی سند درج ذیل ہے :

”……“ (جامع البیان لابن جریر جزء ٢٦ ص ٩٢۔ رقم الحدیث : ٢٤٣٤٦، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

ان تمام احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت ذنب کی نسبت ہے اور یہ احادیث ہمارے ترجمہ کی اصل ہیں۔

اور امام ابن جریر کی ثقاہت کے متعلق مخالفین اعلیٰ حضرت نے لکھا ہے :

امام ابو جعفر طبری کی تفسیر بعد کی تمام تفاسیر میں سب سے زیادہ جلیل و عظیم ترین تفسیر ہے۔ نیز اس تفسیر کو تفسیر ابن ابی حاتم، تفسیر ابن ماجہ، تفسیر، حاکم، تفسیر ابن مردویہ، تفسیر ابو الشیخ ابن حبان اور تفسیر ابن منذر پر فوقیت حاصل ہے۔ (الاتقان فی علوم القرآن ج ٢ س ٥٠ )

ہمارے لئے اس حدیث کے صحیح ہونے کے لئے یہ امر کافی تھا کہ اعلیٰ حضرت نے اس حدیث کو الاحقاف : ٩ کے لئے ناسخ قرار دیا۔ واضح رہے کہ اعلیٰ حضرت نے ” انباء الحی “ ص ٣٨٨ میں از عکرمہ از ابن عباس والی روایت کو تین مرتبہ ذکر کیا ہے، دو مرتبہ امام ابن جریر کے حوالے سے اور ایک مرتبہ امام ابو دائود کی ” اب الناسخ “ کے حوالے سے۔ سو واضح ہوگیا کہ گفتگو از عکرمہ ازابن عباس کی حدیث میں ہو رہی ہے، جس کی بنیاد پر اعلیٰ حضرت نے الاحقاف : ٩ کو منسوخ قرار دیا ہے۔

نسخ کی تحقیق

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری (رض) نے الاحقاف : ٩ کو ان حادیث سے منسوخ قرار دیا ہے اس پر بعض مخالفین اعلیٰ حضرت نے یہ کہا ہے کہ اس نسخ سے مراد نسخ لغوی ہے، نسخ اصطلاحی نہیں ہے، سو ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ نسخ لغوی اور نسخ اصطلاحی میں کوئی تخالف نہیں ہے، اس لئے ہم نسخ لغوی کا معنی اور نسخ اصلاحی کی تعریف ذکر کر رہے ہیں تاکہ واضح ہوجائے کہ ان دونوں میں کوئی تخالف نہیں ہے۔

نسخ کا لغوی معنی

علامہ مجد الدین محمد یعقوب فیروزآبادی متوفی ٨١٧ ھ نسخ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

……(القاموس المحیظ ٢٦١، موسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٥ ھ)

کسی چیز کو منسوخ کردیا یعنی اس کو زائل کردیا اور تبدیل کردیا اور اس کو باطل کردیا اور دوسری چیز کو اس کے قائم مقام کردیا۔

امام محمد بن ابی بکر حنفی متوفی ٦٦٠ ھ لکھتے ہیں :

……(مختار الصحاح ص ٣٧٨، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

دھوپ نے سائے کو منسوخ کردیا یعنی زائل کردیا۔

علامہ جمال الدین محمد بن مکرم مصری متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں :

……(لسان العرب ج ١٤ ص ٢٤٣، مطبوہ دار صادر، بیروت، ٢٠٠٣ ئ)

ایک چیز کو باطل کرکے دوسری چیز کو اس کے قائم مقام کرتا نسخ ہے۔

نسخ کی اصطلاحی تعریفات

امام فخر الدین رازی لکھتے ہیں : ناسخ وہ دلیل شرعی ہے کہ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناسخ سے پہلے جو حکم کسی دلیل شرعی سے ثابت تھا وہ حکم اب نہیں ہے اور نسخ کی یہ دلیل پہلے حکم کی دلیل سے متاخر ہوتی ہے اور اگر یہ ناسخ نہ ہوتا تو وہی حکم ثابت رہتا۔ (تفسیر ج ١ ص ٤٣٣)

علامہ تفتا زانی لکھتے ہیں : نسخ یہ ہے کہ ایک دلیل شرعی کے بعد ایک اور دلیل شرعی آئے جو پہلی دلیل شرعی کے حکم کے خلاف کو واجب کرے۔ (توضیح تلویحج ٢ ص ٣١)

علامہ میر سید شریف جرجانی لکھتے ہیں : صاحب شرع کے ھق میں کسی حکم شرعی کیا انتہاء کو بیان کرنا نسخ ہے، اس حکم کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے نزدیک معلوم ہوتی ہے، مگر ہمارے علم میں اس حکم کا دوام اور استمرار ہوتا ہے اور ناسخ سے ہمیں اس حکم کی انتہا معلوم ہوتی ہے، مگر ہمارے علم میں اس حکم کا دوام اور استمرار ہوتا ہے اور ناسخ سے ہمیں اس حکم کی انتہاء معلوم ہوتی ہے۔ اس لئے ہمارے ھق میں نسخ تبدیل اور تغیر سے عبارت ہے۔ (التعریفات ص ١٠٦)

الاحقاف : ٩ کے الفتح : ٢ سے منسوخ ہونے پر اعتراض اور اعلیٰ حضرت قدس سرہ کا جواب

………

ترجمہ : ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے جو فرمایا ہے کہ الاحقاف : ٩ سورة فتح اور احزاب سے منسوخ ہے، اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے، اگر یہ بات مان لی جائے کہ الاحقاف : ٩، الفتح اور الاحزاب سے موخر ہیں اور اس کے لئے ناسخ ہیں تو نسخ تو احکام میں ہوتا ہے، اخبار میں نہیں ہوتا ؟ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ متقدمین کی اصطلاح سے غفلت ہے، کیونکہ وہ بسا اوقات نسبت فعلیہ کی تغیر پر بھی نسخ کا اطلاقع کردیتے ہیں اور یہ اس لیے کہ نسخ مدت حکم کا بیان ہے اور اسی سے اس نسبت کی مدت کی انتہاء معلوم ہوجاتی ہے۔ اور خود یہی ناقل اس رسالہ کے ص ٤٥ میں کہہ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ” امی “ ایسا وصف بیان فرمایا ہے کہ جس کو کبھی بھی اس نے منسوخ نہیں کیا۔

(اس کے بعد فرماتے ہیں :) معترض نے اپنے اعتراض کے جواب میں یہ جو اشارہ کیا ہے کہ اگر یہ بات مان لی جائے کہ الفتح اور الاحزاب، الاحقاف : ٩ سے مؤخر ہیں، (گویا کہ یہاں ناسخ کا موخر ہونا واضح نہیں ہے) تو معترض اس بات کو بھول گیا کہ الاحقاف کا مکی ہونا اتفاقی ہے اور اس سے آیت : ٩ مستثنیٰ نہیں ہے اور سورة فتح اور سورة احزاب کا مدنی ہونا بدیہات سے ہے۔ علاوہ ازیں آیات کے تقدم اور تاخر کا علم صحابہ کرام (رض) کے بیان سے ہوتا ہے۔ اگر معترض کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) (الفتح اور احزا ب کے) مؤخر ہونے کی تصریح کرچکے ہیں تو وہ ان پر اعتراض کرنے کو پسند نہ کرتا۔ (ترجمہ ملحضاء انباء الحی، ص ٣٨٩)

اعلیٰ حضرت کی اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ نسخ لغوی اور نسخ اصلاحی میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ اعلیٰ حضرت نے نسخ کی تعریف میں وہی عبارت ذکر کی ہے جو نسخ اصلاحی کی تعریف میں ہے اور علامہ خفا جی اور علامہ آلوسی نے جو لکھا ہے کہ نسخ سے مراد مطلق تغییر ہے یعنی نسخ کے ذریعہ یہ معلوم ہوگیا کہ منسوخ کے حکم کی مدت ختم ہوگئی اور اب اس پر عمل نہیں ہوگا، بلکہ اب ناسخ کے حکم پر عمل ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علامہ خفا جی، علامہ آلوسی اور اعلیٰ حضرت کی مراد یہ ہے کہ نسخ اصطلاحی احکام میں جاری ہوتا ہے اور نسخ لغوی جو مطلق تغییر ہے وہ اس سے عام ہے۔ نیز اس آیت میں نسخ کو نسخ اصطلاحی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس آیت کے آغاز میں ” قل “ کا لفظ ہے اور نسخ ” قل “ کی طرف راجع ہے۔

اعلیٰ حضرت کی عبارت پر خلاف تحقیق ہونے کا الزام اور اس کا جواب

مخالفین اعلیٰ حضرت نے کہا ہے :

یہ بھی واضح رہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنے رسالہ ” انباء المصطفی “ میں گنگوہی کے اعتراض کا جواب مناظر انہ انداز میں دیا ہے :”……“ اور جمع اقوال کرتے ہوئے نسخ کا قول ذکر فرمایا ہے۔ یہ ان کا مختار نہیں ہے اور یہ بات خود مولانا سعید کو بھی تسلیم ہے، وہ لکھتے ہیں : کیونکہ مفسرین کی عادت ہے کہ وہ کسی مسئلہ میں تمام اقوال جمع کردیتے ہیں، خواہ صحیح ہوں یا غلط۔ (شرح صحیح مسلم ج ٧ س ٣٢١ )

گویا مخالفین کا یہ کہنا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے مناظر انہ انداز میں مخالف کا منہ بند کرنے کے لئے ایک سطحی اور خلاف تحقیق بات کہی ہے اور یہی ان کی عادت ہے۔ پھر اس مفہوم کو ” شرح صحیح مسلم “ کی یہ عبارت نقل کرکے مزید مؤکد کیا ہے کہ ” مفسرین کی عادت ہے کہ وہ کسی مسئلہ میں تمام اقوال جمع کردیتے ہیں خواہ صحیح ہوں یا غلط “۔ گویا اعلیٰ حضرت (رح) کا نسخ کا جواب دینا غلط ہے۔

الاحقافَ : ٩ کے نسخ پر مولانا اویسی کی تحقیق

قرآن مجید میں ہے :

……(الاحقاف : ٩)

آپ کہیے کہ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں، اور میں (از خود) نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا۔

مولانا فیض احمد اویسی اس آیت پر پیدا ہونے والے اشکال کے جواب میں لکھتے ہیں :

اس آیت کے نزول پر کفار بہت خوش ہوئے یا آج وہابی، دیوبندی خوش ہیں، چناچہ ” تفسیر خازن “ میں اسی آیت کے ماتحت ہے :

جب یہ آیت نازل ہوئی تو مشرک خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ لات و عزیٰ کی قسم ہمارا اورحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تو یکساں حال ہے، ان کو ہم پر کوئی زیادتی اور بزرگی نہیں، اگر وہ قرآن کو اپنی طرف سے گھڑ کر نہ کہتے ہوتے تو ان کو بھیجنے والا خدا انہیں بتادیتا کہ ان سے کیا معاملہ کرے گا، تو رب نے یہ آیت اتاری :”……“ پس صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کو مبارک ہو آپ نے تو جان لیا جو آپ کے ساتھ ہوگا، ہم سے کیا معاملہ کیا جاوے گا تو یہ آیت اتری ” کہ داخل فرمائے گا اللہ مسلمان مرد اور عورتوں کو جنتوں میں ، “ اور یہ آیت اتری کہ ” خوشخبری دیجئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے “۔ یہ حضرت انس اور قتادہ و عکرمہ کا قول ہے، یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت سے پہلے کی ہے، جب کہحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی مغفرت کی خبر دی گئی۔ مغفرت کی خبر آپ کو حدیبیہ کے سال دی گئی تو یہ آیت منسوخ ہوگئی۔

فائدہ : دیکھئے کفار حضور علیہ کی لاعلمی از خاتمہ پر کتنا خوش ہوئے، ایسے ہی یہ لوگ آیت دلیل کے طور پر پیش کرکے ضمناً خوشی کا اظہار کرتے ہیں، اس سے سمجھ لیجئے کہ یہ کون ہوئے۔

سوال : اگر کوئی کہے کہ آیت ’ وما ادری “ خبر ہے اور خبر منسوخ نہیں ہوسکتی جیسے قواعد النسخ میں تم نے خود لکھا ہے ؟

جواب : بہت سے علماء نسخ خبر جائز کہتے ہیں جیسے ”……“ سے منسوخ۔ ایسے ہی ”……“ کو ابن عباس و انس مالک (رض) نے ”……“ سے منسوخ مانا۔ مزید تفصیل و تحقیق فقیر نے کتاب ” ناسخ منسوخ “ میں لکھی ہے۔

یہاں گویا فرمایا گیا : ”……“ اور ”…“ امر ہے۔ نسخ کا تعلق اسی سے ہے۔

بعض آیات صورت میں خبر اور معنی میں امر ہیں، جیسے ”……“ (البقرہ : ١٨٣) یا ”……“ (آل عمران : ٩٧) وغیرہ۔ (غایۃ المامول فی علم الرسول ص ٣٣٢۔ ٣٣٠، مکتبہ اویسیہ رضویہ، بہاولپور)

مولانا فیض احمد اویسی کی اس عبارت سے یہ معلوم ہوا کہ الاحقاف : ٩، الفتح : ٢ سے اور حضرت ابن عباس اور حضرت انس کی روایت سے منسوخ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ الفتح : ٢ میں مغفرت ذنب کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے اور ان ہی دو چیزوں میں مخالفین ہم سے اختلاف کرتے ہیں اور یہ تمام مخالفین مولانا اویسی کو حجت تسلیم کرتے ہیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کلی کے اعلان کا آپ کی عظیم خصوصیت ہونا

سورة فتح کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اگلی اور پچھلی کلی مغفرت کا قطعی اعلان کردیا ہے، قرآن مجید میں حضرت سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی اور نبی، رسول یا کسی بھی شخص کی کلی مغفرت کا اعلان نہیں کیا گیا اور آپ کے سوا کسی کی بھی کلی مغفرت قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن آپ کے سوا تمام انبیاء اور مرسلین کو اپنی اپنی فکر دامن گیر ہوگی اور پہلے مرحلہ میں بجز آپ کے تمام نبی اور رسول شفاعت سے گریز کریں گے اور صرف آپ شفاعت کبریٰ فرمائیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی آپ پر عظیم نعمت ہے اور آپ کی منفرد خصوصیت ہے، لیکن آپ کی یہ خصوصیت صرف اسی وقت ہوگی جب مغفرت ذنوب کا تعلق جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا اس کو برقرقرار رکھا جائے اور اس کو تسلیم کیا جائے اور اگر بغیر کسی عقلی اور شرعی استحالہ کے اللہ تعالیٰ کے کیے ہوئے تعلق کو بدل کر اگلوں اور پچھلوں کے ساتھ مغفرت ذنوب کا تعلق کیا تو پھر اس مغفرت کلی کا قطعی اعلان اگلوں اور پچھلوں کے لئے ہوگا، حضرت سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نہیں ہوگا، اور مغفرت کلی کا قطعی اعلان آپ کی خصوصیت نہیں رہے گا اور یہ حدیث کے خلاف ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کلی مغفرت کے اعلان کو اپنی خصوصیت قرار دیا ہے۔

علامہ سیوطی لکھتے ہیں :

………(خصائص کبریٰ ج ص ١٨٨، مکتبہ نوریہ رضویہ، فیصل آباد)

امام ابن ابی حاتم اور امام عثمان بن سعید دارمی نے اپنی اپنی سندوں کے ساتھ حضرت عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے اور فرمایا : جبرئیل میرے پاس آئے اور کہا : باہر آئیے، اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کی نعمتیں عطا کی ہیں ان کو بیان فرمائیے، پھر مجھے دس ایسی نعمتوں کی بشارت دی جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں (١) اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا (٢) مجھے جنون کے لئے نذیر بنایا (٣) حضرت دائود کو زبور، حضرت موسیٰ کو (تورات کی) الواح اور حضرت عیسیٰ کو انجیل دی گئی اور حالانکہ میں امی ہوں پھر بھی الہ نے مجھے اپنے کلام سے نوازا (٤) اور میرے اگلے اور پچھلے ذنوب کی مغفرت کردی گئی۔

تمام مسالک کے مستند علماء نے اس مغفرت کلی کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت اور آپ کے حق میں عظیم نعمت قرار دیا ہے، حافظ ابن کثیر حنبلی لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ کا یہ قول ”……“ آپ کی ان خصوصیات میں سے ہے جن میں آپ کا کوئی شریک نہیں ہے کیونکہ آپ کے علاوہ کسی اور شخص کے کسی عمل کے ثواب کے متعلق کسی حدیث صحیح میں یہ نہیں آیا کہ اس کے اگلے اور پچھلے تمام ذنوب کی مغفرت کردی گئی اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت عزت اور فضیلت ہے۔

علامہ یوسف نبہانی، علامہ جلال الدین سیوطی شافعی کے رسالہ ” القول المحرر “ سے علامہ عز الدین ابن عبد السلام کا کلام نقل کرتے ہیں :

………(جواہر البحارج ٣ ص ٢١٤۔ ٢١٣، مصر)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دے دی ہے کہ آپ کے اگلے اور پچھلے ذنوب (بہ ظاہر خلافِ اولیٰ کاموں) کی مغفرت کردی گئی ہے اور یہ منقول نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) میں سے اور کسی کو بھی یہ خبر دی ہو، بلکہ ظاہر یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اور کسی نبی کو یہ خبر نہیں دی کیونکہ جب حشر کے دن انبیاء سے شفاعت طلب کی جائے گی تو ہر نبی کو اپنی (ظاہری) خطاء یاد آئے گی اور وہ ”…“ کہیں گے اگر ان میں سے کسی کو بھی اپنی (ظاہری) خطاء کی مغفرت کا علم ہوتا تو وہ اس مقام پر شفاعت کا انکار نہ کرتا اور جب تمام لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شفاعت طلب کریں گے تو آپ فرمائیں گے : میں اس شفاعت کے لئے ہوں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی حنفی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص کے بیان میں لکھتے ہیں :

………(مدارج النبوت ج ا ص ١٢٥۔ ١٢٤، سکھر)

اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جملہ خصوصیات میں سے یہ ہے کہ آپ کے تمام مقدم اور مؤخر ذنوب کی بخش دیا گیا ہے، شیخ عزالدین بن عبد السلام (رح) نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے یہ ہے کہ آپ کو دنیا میں مغفرت کی خبر دے دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے باقی انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی نبی کو یہ خبر نہیں دی ہے، اسی وجہ سے وہ قیامت کے دن ”…“ کہیں گے۔ (علامہ عز الدین کی عبارت ختم ہوئی، اس کے بعد شیخ محقق لکھتے ہیں :) یعنی اگرچہ تمام انبیاء مغفور ہیں اور انبیاء کو عذاب ہونا ممکن نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحتہ خبر نہیں دی اور کسینی کو بھی اس فضیلت کی خبر نہیں دی اور مغفرت کی تصریح صرف حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے، تاکہ آپ اپنے متعلق تشویش سے فارغ ہو کر تسلی کے ساتھ امت کے گناہوں کی مغفرت اور ان کے درجات کی بلندی کی شفاعت میں کوشش کریں۔

نیز شیخ عبد الحق محدث دہلوی حنفی لکھتے ہیں :

(اشعتہ اللمعات ج ا ص ٥٢٠، لکھنؤ )

پس آں حضرت سے عرض کیا گیا کہ آپ عبادت و ریاضت میں اس قدر کوشش و تھکاوٹ کیوں اختیار کرتے ہیں حالانکہ آپ کے تمام گناہ (یعنی ترک افضل یا خلافِ اولیٰ ) بخش دئیے گئے ہیں خواہ وہ پہلے ہوں یا بعد کے ؟ آپ نے فرمایا : اگر تمام گناہ بخش دئیے گئے ہیں تو کیا میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرنے والا نہ بنوں، خصوصاً مغفرت ذنوب کی اس عظیم نعمت پر ؟

یہ حدیث حضرت مغیرہ بن شعبہ سے مروی ہے اور ” مشکوٰۃ “ ص ١٠٩۔ ١٠٨، مطبوعہ دہلی اور ” صحیح بخاری “ ج ٢ ص ٧١٦، مطبوعہ کراچی میں مذکور ہے۔

عشرہ مبشرہ اور اصحابِ بدر کی مغفرت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کی خصوصیت…پر معارضہ کا جواب

مستند فقہاء اسلام کی ان عبارات سے واضح ہوگیا کہ قرآن مجید میں تمام ذنوب کی کلی مغفرت کا قطعی اعلان، یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی عظیم نعمت اور آپ کی منفرد خصوصیت ہے، کسی عام امتی اور ماوشما کی بات چھوڑیں اور اولوالعزم انبیاء اور رسل میں سے بھی کسی کو یہ نعمت حاصل نہیں ہوئی ” شرح صحیح مسلم “ جلد ثالث میں بھی میں نے اس دلیل کا اختصاراً ذکر کیا ہے۔ اس پر بعض لوگوں نے یہ معارضہ کیا کہ کیا عشرہ مبشرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس دنیا ہی میں مغفرت کی نوید سنادی گئی ؟

الجواب : عشرہ مبشرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مغفرت کی نہیں جنت کی نوید دی گئی ہے، اور وہ بھی خبر واحد ہے، لیکن جنت کی بشارت اور شے ہے اور مغففرت کی نوید اور چیز ہے اور یوں تو رسول اللہ و نے اہل بدر کو مغفرت کی نوید سنائی ہے، لیکن یہ نوید بہرحال خبر واحد سے ثابت ہے اور ظنی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام ذنوب کی کلی مغفرت کا اعلان قرآن مجید میں ہے اور قطعی ہے اور اس خصوصیت میں آپ کا کوئی شریک اور سہیم نہیں ہے۔

واضح رہے کہ دخول جنت کی نوید مغفرت کلی کو مستلزم نہیں، کیونکہ ہر مومن جنت میں جائے گا، البتہ دخول جنت کی شخصی بشارت ایمان پر خاتمہ کو مستلزم ہے اور نفس مغفرت کی نوید بھی ابتداء جنت میں دخول کو مستلزم نہیں ہے، البتہ مغفرت کلی کی بشارت ابتداء دخول جنت کو مستلزم ہے اور اس کی شخصی بشارت پر پوری کائنات میں صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے اور یہ آپ کی منفرد فضیلت اور عظیم خصوصیت ہے۔

صاحب یسین کی مغفرت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کی خصوصیت پر معارضہ…کا جواب

صاحب یسین کے متعلق قرآن مجید میں ہے :

……(یسین : ٢٧۔ ٢٥ )

میں تو تمہارے رب پر ایمان لاچکا ہوں تم میری بات سن لو۔ حکم ہوا : جنت میں داخ (رح) ہوجا، تو اس نے کہا کہ کاش ! میری قوم کو معلوم ہوتا۔ کہ میرے رب نے میری مغفرت کردی اور مجھے عزت داروں میں شامل کردیا۔

مخالفین کہتے ہیں کہ ایک روایت میں ہے کہ صاحب یسین کو اس کی زندگی میں فرمایا : تو جنت میں داخل ہوجا اور دوسری روایت یہ ہے کہ اس کی وفات کے بعد فرمایا : تو جنت میں داخ (رح) ہوجا، بہرحال صاحب یسین کو بھی اس کی زندگی میں جنت اور مغفرت کی بشارت دے دی گئی تھی، لہٰذا نبی و کو جو آپ کی زندگی میں الفتح : ٢ کے ذریعہ مغفرت کی بشارت دی گئی ہے وہ آپ کی خصوصی نہ رہی، کیونکہ یہ بشارت تو صاحب یسین کو بھی حاصل ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے یہ لکھا ہے کہ سیدنا محمد و کے علاوہ کسی نبی یا کسی رسول یا کسی بھی شخص کی زندگی میں اس کی مغفرت کلی کا اعلان قطعیت سے ثابت نہیں ہے، اس کا ان تفسیری روایت سے معارضہ کرنا باطل ہے کیونک اول تو یہ روایات زیادہ سے زیادہ اخبار احاد ہیں، اس لئے قطعیت الثبوت نہیں ہیں، ثانیا : یہ دو قسم کی روایات ہے، زیادہ تر یہ ہیں کہ صاحب یسین سے ان کو وفات کے بعد کہا گیا کہ تو جنت میں داخل ہوجا اور یہی اقرب الی القیاس ہیں اور یہ ہمارے موقف کے خلاف نہیں ہیں اور بعض مجہول السند روایات میں ہے کہ ان کی زندگی میں ان سے کہا گیا۔ امام ابن اسحاق اپنے بعض اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے صاحب یسین سے فرمایا : تو جنت میں داخل ہوجا، پس وہ زندہ جنت میں داخل ہوگئے، ان کو جنتی رزق دیا جاتا ہے۔ (جاع البیان : جز ٢٢ ص ١٩٣) امام رازی نے دونوں روایتیں ذکر کی ہیں، پہلے وہ روایت ذکر کی ہے جس میں ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان سے فرمایا : تو جنت میں داخل ہوجا اور دوسری روایت وہ ذکر کی ہے جس میں ہے کہ ان سے زندگی میں فرمایا : تو جنت میں داخل ہوجا۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٢٦٧، ایضاً تفسیر قرطبی جز ١٥ ص ٢٠) اور جب یہ دو روایتیں ہیں تو ان کی زندگی میں ان کی مغفرت کا اعلان قطعیت الدلالۃ نہ رہا اور نہ ہی متعلق الفتح : ٢ میں قطعی الثبوت بھی ہے اور قطعی الدلالۃ بھی ہے تو صاحب یسیٰن کی مغفرت سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کلی مغفرت کی قطعیت سے کیسے معارضہ کیا جاسکتا ہے اور صاحب یسین کی مغفرت سے آپ کی کلی مغفرت کی تنقیص کیسے کی جاسکتی ہے ؟

اصحابِ حدیبیہ کی مغفرت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کی خصوصیت پر معارضہ کا جواب

قرآن مجید میں ہے :

……(الفتح : ٥)

تاکہ اللہ مومنوں اور مومنات کو ان جنتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ان کی برائیوں کو ان سے مٹا دے اور یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس آیت کی بنیاد پر مخالفین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ان احادیچ کے مطابق جب الفتح : ٢ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کلی کا علان کردیا گیا تو اصحاب حدیبیہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! ہمارے لئے کیا ہوگا ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے الفتح : ٥ کی تلاوت فرمائی، یعنی مؤمنین اور مؤمنات کو اللہ تعالیٰ دائمی جنات عطا فرمائے گا اور اصحابِ حدیبیہ بھی مؤمنین اور مؤمنات میں سے ہیں، لہٰذا وہ بھی اس بشارت میں داخل ہیں، سو ان کی بھی مغفرت کلی اور قطعی ثابت ہوگی، پس دنیا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کلی کا قطعی اعلان آپ کی خصوصیت نہیں رہا۔ مخالفین کہتے ہیں : اور اگر اس کا ثبوت اس طرح نہ ہو تو حضرات صحابہ کرام کو اس کا حق تھا کہ وہ کہتے : ہم نے مگفرت کلی و قطعی کا مطالبہ کیا تھا، نہ ہماری مغفرت ہوئی، نہ اس میں کلیت آئی، نہ اس میں قطعیت آئی، تو گویا ان کا مطالبہ پورا ہی نہ ہو ؟

الجواب : صحابہ کرام نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا، یہ صرف معترض کا مفروضہ اور صحابہ کرام پر بےجا الزام ہے، صحابہ کرام کا تو بہت بلند مقام ہے، کسی عام مسلمان کے متعلق بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ یہ کہے کہ جو انعام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے یعینہ وہی انعام اس کو بھی دیا جائے یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت میں جو مرتبہ دیا گیا اس کو بھی جنت میں وہی مرتبہ دیا جائے، یہ بہت گم راہانہ سوچ ہے، صحابہ کرام اس تہمت سے بری ہیں۔

……(الفتح : ٢) تاکہ اللہ آپ کے لئے معاف فرما دے آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ سب کام۔

تو صحابہ نے عرض کی : آپ کو مبارک ہو خدا کی قسم ! اللہ عزوجل نے یہ تو صاف فرمادیا کہ آپ کے ساتھ کیا کرے گا، اب رہا یہ کہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ؟ اس پر الفتح : ٥ نازل ہوئی۔

صحابہ کرام نے صرف یہ جاننا چاہا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کرے گا، یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ ان کو بھی وہی انعام عطا کیا جائے تو جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمایا تھا اور ان کی بھی خصوصیت اور شخصی تعین کے ساتھ ان کی زندگی میں ان کی مغفرت کلی کا قطعی اعلان کردیا جائے اور ایسا کہنا صحابہ کرام (رض) پر صریح بہتان ہے۔

نیز بعض لوگوں نے کہا ہے کہ الفتح : ٢ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کا اعلان آپ کی خصوصیت نہیں ہے، کیونکہ الفتح : ٥ میں اصحابِ حدیبیہ کی مغفرت کا اعلان بھی ہے۔

الجواب : میں کہتا ہوں کہ ان دونوں آیتوں کی حیثیتوں میں دو وجہ سے فرق ہے :

(١) الفتح : ٢ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شخصی طور پر خطاب ہے اور الفتح : ٥ میں اصحاب حدیبیہ سے شخصی طور پر خطاب نہیں ہے، بلکہ عمومی طور پر مؤمنین اور مؤمنات کو جنت اور مغفرت کی نوید سنائی ہے، اور اس نوید میں قیامت تک کے مؤمنین اور مؤمنات داخل ہیں، اگرچہ اصحابِ حدیبیہ اس نوید میں اولا داخل ہیں مگر یہ نوید ان کے ساتھ خاص نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ یہ آیت ان ہی کے سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے خصوصیت مورد کا نہیں ہوتا۔

(٢) الفتح : ٢ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اگلی اور پھچلی مغفرت کا ذکر ہے اور یہی مغفرت کلی ہے اس کے برخلاف الفتح : ٥ میں مطلق مغفرت کا ذکر ہے اور مطلق مغفرت، مغفرت کلی کو مستلزم نہیں ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں جنت کی بشارت بھی ہے اور جنت کی بشارت مغفرت کلی کو مستلزم ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنت مغفرت کو تو مستلزم ہے مغفرت کلی کو مستلزم نہیں ہے، کیونکہ کئی مسلمان حساب کی سختی، محشر میں طول قیام وغیرہ کے مرحلہ سے گزر کر جنت میں جائیں گے۔

بہرحال مغفرت کلی کا دنیا میں اعلان قطعی صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے اور یہ آپ کی بہت بڑی فضیلت ہے اور وہ تمام علماء جن کے دلوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اور عظمت ہے انہوں نے آپ کی اس فضیلت کا بہ صراحت ذکر کیا ہے، جن کے حوالے ہم اسے پہلے نقل کرچکے ہیں۔

اعلیٰ حضرتِ ان کے والد گرامی اور دیگر علماء اہل سنت کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف…مغفرت ذنب کی نسبت کو برقرار رکھنا۔

الفتح : ٢ میں بغیر تاویل کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرتِ ذنب کی نسبت ہے اور ہم یہ بیان کرچکے ہیں کہ دنیا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مغفرت کلی کا قطعی اعلان آپ کی بہت بڑی فضیلت ہے اور اعلیٰ حضرت امام اھمد رضا نے ” کنز الایمان “ کے علاوہ اپنی دوسری تصانیف میں، اور آپ کے والد گرامی نے اپنی تصانیف میں جن کی اعلیٰ حضرت نے توثیق کی ہے اور دیگر علماء اہل سنت نے اپنی تصانیف میں اس آیت میں اور اس طرح کی احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت ذنب کی نسبت کو برقرار رکھا ہے، ملاحظہ فرمائیں :

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ، تحریر فرماتے ہیں : (حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے) ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی۔ اور میں سن رہی تھی کہ یا رسول اللہ ! میں صبح کو جنب اٹھتا ہوں اور نیت روزے کی ہوتی ہے، حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں خود ایسا کرتا ہوں، اس نے عرض کی : حضور کی اور ہماری کیا برابری، حضور کی تو اللہ عزوجل نے ہمیشہ کے لئے پوری معافی عطا فرمادی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص ٢١٦۔ ٦١٥، مکتبہ رضویہ، کراچی، ١٤١٠ ھ)

نعمائے الہیہ ہر وقت، ہر لمحہ، ہر آن، ہرحال میں متزاید ہیں۔ خصوصاً خاصوں پر خصوصاً ان پر جو سب خاصوں کے سردار ہیں، اور بشر کو کسی وقت کھانے پینے سونے میں مشغولی ضرور اگرچہ خاصوں کے یہ افعال بھی عبادت ہیں مگر اصل عبادت سے تو ایک درجہ کم ہیں، اس کمی کو تقصیر کو ذنب فرمایا گیا۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٥، مطبوعہ دار العلوم امجدیہ، کراچی)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی اپنے والد قدس سرہ کی کتاب ” احسن الوعاء و آداب الدعائ “ کی شرح ” ذیل الودعا احسن الدعا “ میں لکھتے ہیں : قال الرضایہ بھی ابو الشیخ نے روایت کی اور خود قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے :”……“ (محمد : ١٩) مغفرت مانگ اپنے گناہوں کی اور سب مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے۔ (احسن الوعاء ص ٢٦، مطبوعہ ضیاء الدین پبلی کیشنز، کھارادر، کراچی)

اعلیٰ حضرت کے والد ماجد امام المتکلمین مولانا شاہ نقی علی خان متوفی ١٢٩٧ ھ نے سورة الم نشرح کی تفسیر لکھی ہے جس کو ” انوارِ جمال مصطفیٰ “ کے نام سے شائع کیا گیا، اس کے متعلق اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں : …… کہ مجلد کبیر ہے علوم کثیرہ پر مشتمل۔ (انوارِ جمال مصطفیٰ ص ٨، شبیر برادرز، لاہور)

اس کتاب میں الفتح : ٢ کے ترجمہ میں مولانا شاہ نقی علی خان تحریر فرماتے ہیں : تا معاف کرے اللہ تیرے اگلے اور پچھلے گناہ۔ (انوارِ جمال مصطفیٰ ص ٧١، شبیر برادرز، لاہور)

نیز مولانا شاہ نقی علی خان ایک حدیث کے ترجمہ میں تحریر فرماتے ہیں :

مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں : آپ نے اس قدر عبادت کی کہ پائے مبارک سوج گئے، لوگوں نے کہا : آپ تکلیف اس قدر کیوں اٹھاتے ہیں کہ خدا نے آپ کو اگلی پچھلی خطا معاف کی ؟ فرمایا :”……“۔ (سردار القلوب بذکر المحبوب ص ٢٣٦، شبیر بردارز، لاہور)

شیخ عبد الحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ ایک حدیث کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

……(اشعتہ اللمعات ج ٤ ص ٣٨٦، لکھنؤ )

پھر لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، حضرت عیسیٰ فرمائیں گے : میں اس کام کا اہل نہیں ہوں لیکن تم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو، وہ ایسے بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام گناہ (یعنی ترک افضل) بخش دئیے ہیں خواہ پہلے کے ہوں یا بعد کے۔

اور علامہ فضل حق خیر آبادی متوفی ١٨٦١ ھ اس حدیث کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

……(تحقیق الفتویٰ ص ٣٢١۔ ٣٢٠، لاہور )

پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، وہ فرمائیں گے : میں شفاعت (کبریٰ ) کے لئے نہیں ہوں، تم پر لازم ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو، وہ ایسے عبد مکرم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے اور پچھلے ذنوب معاف کردیے ہیں۔ (ترجمہ تحقیق الفتویٰ ص ١٢٥، مکتبہ قادریہ، ١٣٩٩ ھ)

مولانا غلام رسول رضوی لکھتے ہیں :

لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے، وہ کہیں گے : میں اس پوزیشن میں نہیں کہ تمہاری شفاعت کروں تم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو، اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردئیے ہیں۔ (تفہیم البخاری ج ١٠ ص ٤٨، الجدہ پر نٹرز)

میرے شیخ غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ، العزیز متوفی ١٤٦٧ ھ، الفتح : ٢ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

تاکہ اللہ آپ کے لئے معاف فرما دے آپ کے اگلے اور پچھلے (بہ ظاہر) خلافِ اولیٰ سب کام (جو آپ کے کمال قرب کی وجہ محض صورۃ ذنب ہیں، حقیقہً حسنات الابرابر سے افضل ہیں) ۔

حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری (رح) متوفی ٢٩٩٨ ء نے اس آیت کے ترجمہ میں لکھا ہے :

تاکہ دور فرمادے آپ کے لئے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے اور جو (ہجرت کے) بعد لگائے گئے۔

مولانا فیض احمد اویسی لکھے ہیں :

” عفا اللہ عنک “ کی تقدیم میں لطیف اشارہ ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر “ کی خوش خبری سے نوازا ‘ تو ” عفا اللہ عنک “ میں اس کی تصدیق و توثیق فرمائی، اب مطلب واضح ہوگا کہ اب محبوبِ اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر آپ نے منافقین کو اجازت بخشی کر خلافِ اولیٰ کا ارتکاب فرمایا ہے جسے عوام (وہابی وغیرہ) عتاب یا غلطی سے تعبیر کرتے ہیں تو کیا ہوا، آپ تسلی فرمائیے کہ جب میں نے آپ سے پہلے وعدہ کر رکھا ہے کہ آپ کے گزشتہ اور آئندہ امور اگرچہ خلاف اولیٰ ہوں تمام بخش دئیے ہیں۔ (علم الرسول ص ٨٠، مکتبہ اویسیہ رضویہ، بہاولپور)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ سے دعا کی : تو میری ساری خطائیں بخش دے، تیرے سوا کوئی خطائیں نہیں بخش سکتا۔ (مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٨١٣)

مفتی احمد یار خاں متوفی ١٣٩١ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

خیال رہے اس قسم کی ساری دعائیں امت کی تعلیم کے لئے ہیں ورنہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہوں سے محفوظ ہیں اور آپ کی خطائوں کی مغفرت ہوچکی ہے جس کا اعلان قرآن شریف میں بھی ہوا جو اس قسم کی دعائیں دیکھ کر حضور کو گناہ گار مانے، وہ بےدین ہے۔ (مراۃ المناجیح ج ٢ ص ٣٤۔ ٣٣، نعیمی کتب خانہ، گجرات)

ہم نے اس سے پہلے ” انباء المصطفی “ اور ” انباء الحئی “ کے حوالوں سے ان احادیث کو بیا کیا تھا جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت ذنب کی نسبت کی گئی ہے، اب ہم اس سلسلہ میں مزید احادیث بیان کررہے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مغفرت ذنب کی نسبت کے ثبوت میں مزید احادیث

امام بزار اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

……(کشف الاستار ج ٣ ص ١٤٧، بیروت)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے انبیاء پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی ہے، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں، میرے تمام اگلے اور پچھلے ذنوب (بہ ظاہر خلافِ اولیٰ کاموں) کی مغفرت کردی گئی ہے میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں تھا، میری امت کو تمام امتوں سے افضل قرار دیا گیا ہے، میرے لئے تمام روئے زمین کو مسجد اور مطہر بنادیا گیا ہے، مجھے کوثر دیا گیا ہے اور میری رعب سے مدد کی گئی ہے اور قسم اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! تمہارا پیغمبر قیامت کے دن حمد کے جھنڈے کا حامل ہوگا اور آدم اور ان کے ماسوا تمام انبیاء اس جھندے کے نیچے ہوں گے۔

حافظ الہیثمی اس حدیث کی سند کے متعلق لکھتے ہیں :

……(مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٦٩، بیروت) اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کی سند عمدہ ہے۔

امام بیہقی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

……(دلائل النبوت ج ٦ ص ٤٨٧۔ ٤٨٦، بیروت)

عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس (رض) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام آسمان والوں اور تمام نبیوں پر فضیلت دی ہے، لوگوں نے کہا : اے ابن عباس ! آسمان والوں پر آپ کی فضیلت کی کیا دلیل ہے ؟ حضرت ابن عباس نے کہا :” اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان والوں کے معلق فرمایا : اور فرشتوں میں سے جس نے یہ کہا کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں، تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے، اور ہم اسی طرح ظالموں کو سزا دیتے ہیں “۔ اور اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے فرمایا :” بیشک ہم نے آپ کو روشن فتح عطا فرمائی، تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب یعنی (بہ ظاہر) خلافِ حضور کی انبیاء پر کیا فضیلت ہے ؟ انہوں نے کہا : کیونکہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے متعلق فرماتا ہے :” ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں مبعوث کیا ہے “ اور اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا :” ہم نے آپ کو قیامت تک کے تمام لوگوں کے لئے مبعوث کیا ہے “ سو آپ کو عزوجل نے تمام انسانوں اور جنوں کی طرف مبعوث فرمایا۔

اس حدیث کو امام ابو یعلیٰ نے بھی اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ (مسند ابو یعلیٰ ج ٣ ص ١٥٣ )

حافظ نور الدین الہیثمی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :

……(مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٥٥۔ ٢٥٤ )

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی حدیث صحیح کے راوی ہیں، ماسوا حکم ابن ابان کے اور وہ بھی ثقہ ہے، امام ابو یعلیٰ نے بی اس کو اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے۔

……(دلائل النبوۃ ج ٥ ص ٤٨٧)

” نفل آپ کی خصوصیت ہے “ اس کی تفسیر میں مجاہد نے بیان کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ اور کسی کے لئے نفلی عبادت زائد نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب (بہ ظاہر خلافِ اولیٰ کاموں) کی مغفرت کردی ہے، اس لئے آپ فرائض کے علاوہ جو بھی عبادت کرتے ہیں، وہ نفل یعنی زائد نہیں ہے، عبادت کا نفل (زائد) ہونا صرف آپ کی خصوصیت ہے۔

……(دلائل النبوۃ ج ا ص ٣٨٠)

وہب نے منبہ نے حضرت دائود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قصہ میں ذکر کیا ہے کہ ” زبور “ میں ان کی طرف یہ وحی کی گئی تھی کہ اے دائود ! آپ کے بعد ایک نبی مبعوث ہوں گے جن کا نام احمد اور محمد ہوگا، وہ صادق اور سید ہوں گے، میں ان پر کبھی ناراض ہوں گا نہ وہ کبھی مجھ سے ناراض ہوں گے، میں نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے ذنوب (بہ ظاہر خلاف اولیٰ کاموں) کو ارتکاب سے پہلے ہی معاف کردیا ہے اور ان کی امت پر رحمت کی گئی ہے۔

ان تمام احادیث میں تمام اگلے اور پچھلے ذنوب کی مغفرت کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت قرار دیا گیا ہے، سو یہ کہنا کہ یہ مغفرت آپ کو حاصل نہیں ہوئی بلکہ آپ کے اگلوں اور پچھلوں کو حاصل ہوئی ہے، ان تمام احادیث کے خلاف ہے۔

آثارِ صحابہ کی روشنی میں آپ کے ساتھ مغفرت ذنوب کے متعلق کا بیان

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

……(صحیح بخاری ج ٢ ص ٧٥٧، طبع کراچی )

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے گھروں میں تین صحابی آئے، انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کے متعلق سوال کیا جب ان کو خبر دی گئی تو انہوں نے اس عبادت کو کم خیال کیا اور کہا : کہاں ہم اور کہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کے تو اگلے اور پچھلے ذنب کی مغفرت کردی گئی ہے، ایک نے کہا : میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا : میں تمام عمر روزے رکھوں گا اور افطار نہیں کروں گا، تیسرے نے کہا : ہمیں ہمیشہ عورتوں سے الگ رہوں گا اور شادی نہیں کروں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور فرمایا : تم لوگوں نے ایسے ایسے کہا ہے ؟ سنو ! بخدا ! میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور کھانا بھی کھاتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں ور سوتا بھی ہوں اور ازواج سے نکاح بھی کرتا ہوں، سو جو شخص میری سنت سے اعتراض کرے گا وہ میرے طریقہ پر نہیں ہوگا۔

امام عبد الرزاق نے بیان کیا ہے کہ یہ تین صحابی، حضرت علی ابن ابی طالب، حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن عاص اور حضرت عثمان بن مظعون (رض) تھے۔ (مصنف عبد الرزاق ج ٦ ص ١٦٧ قدیم)

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ صحابہ کرام کے نزدیک اس آیت میں مغفرت ذنوب کا تعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہیَ

امام مسلم روایت کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ آپ روزے میں اپنی ازواج کا بوسہ لیتے ہیں تو حضرت عمر بن ابی سلمہ (رض) نے کہا :

……(صحیح مسلم ج ا ص ٣٥٣، کراچی )

انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے اور پچھلے ذنب کی مغفرت کردی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : سنو ! خدا کی قسم ! میں تم سے زیادہ پرہیز گار اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں۔

امام مسلم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا کہ ایک صحابی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا : کیا کوئی شخص حالت جنابت میں روزہ کی نیت کرسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : میں بھی (بعض اوقات تاخیر کی وجہ سے) ایسا کرتا ہوں، اس پر اس صحابی نے کہا :

……(صحیح مسلم ج ا ص ٣٥٤، کراچی)

اس صحابی نے کہا : یا رسول اللہ ! آپ تو ہماری مثل نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب کی مغفرت کردی ہے، آپ نے فرمایا : بہ خدا مجھے یہ امید ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور جن چیزوں سے بچنا چاہیے ان کا سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

……(صحیح البخاری ج ٢ ص ٧١٦، کراچی )

حضرت عائشہ (رض) روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو (بہت) قیام کرتے تھے، حتیٰ کہ آپ کے دونوں پیر سوج جاتے، حضرت عائشہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ اتنا قیام کیوں کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے ذنب کی مغفرت کردی ہے ؟ آپ نے فرمایا : کیا میں یہ پسند نہ کروں کہ اللہ کا شکر گزار بندہ ہوں۔

اعلیٰ حضرت کے دونوں ترجموں میں محاکمہ

قرآن مجید کی ظاہر آیات المومن : ٥٥، محمد : ١٩، اور الفتح : ٢، میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف استغفار اور مغفرت کی نسبت کی گئی ہے، اسی طرح بہ کثرت احادیث اور آثار میں بھی آپ کی طرف مغفرت کی نسب ہے جن کو ہم نے ” انباء المصطفی “ اور ” انباء الحی “ کے حوالوں سے بیان کیا ہے اور مزید احادیث ” مسند بزار، دلائل النبوت، طبرانی، ابو یعلیٰ “ وغیرہا کے حوالوں سے ذکر کی ہیں اور آثار صحابہ ” صحیح بخاری “ اور ” صحیح مسلم “ کے حوالوں سے ذکر کیے ہیں اور اعلیٰ حضرت نے اپنی دیگر تصانیف میں جو ان آیات اور احادیث کا ترجمہ کیا ہے، وہ ظاہر قرآن اور احادیث کے مطابق ہے، اس لئے ہمارے نزدیک اعلیٰ حضرت کا یہ ترجمہ راجح ہے اور ” کنز الایمان “ کے ترجمہ میں جو مغفرت ذنب کی نسبت اگلوں اور پچھلوں کی طرف کی گئی ہے وہ چونکہ ظاہر قرآن اور حدیث کے مطابق نہیں ہے، اس لئے وہ مرجوح ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے : چونکہ الفتح : ٢ میں آپ کی طرف مغفرت ذنب کی نسبت ہے اور بہ ظاہر مغفرب ذنب کی آپ کی طرف نسبت آپ کے معصوم ہونے کے خلاف ہے اس لئے اس آیت میں تاویل کی جائے گی اور یہ تاویل اعلیٰ حضرت نے دو طرح کی ہے ” کنز الایمان “ میں آپ نے اس آیت میں مغفرت کی نسبت کو مجاز عقلی پر محمول کیا، یعنی بہ ظاہر مغفرت کی نسبت آپ کی طرف ہے اور حقیقت میں یہ نسبت اگلوں اور پچھلوں کی طرف ہے اور اعلیٰ حضرت نے دوسرے تراجم میں اور آپ کے والد گرامی اور دوسرے علماء اہل سنت نے اس آیت کو مجاز مرسل پر محمول کیا اور ذنب کے معنی میں تاویل کی اور کہا : اس سے ذنب کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے بلکہ اس سے بہ ظاہر خلافِ اولیٰ مراد ہے۔

بہرحال مجاز عقلی ہو یا مجاز مرسل، مغفرت کی نسبت کو مجاز پر محمول کیا جائے یا ذنب کے معنی میں تاویل کی جاے اور اس کو خلافِ اولیٰ پر محمول کیا جائے یہ دونوں طریقے عربی قواعد کے مطابق اور دونوں کا مقصد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعتراض کو دور کرنا اور آپ کی عظمت کو اجاگر کرنا ہے اور دونوں کی نیت محمود اور مستحسن ہے اور ان میں سے کسی طریقہ کو طعن اور ملامت کا ہدف نہیں بنانا چاہیے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک طریقہ افضل اور راجح ہے اور دوسرا طریقہ مفضول اور مرجوح ہے اور ہمارے نزدیک افضل اور راجح طریقہ عہی ہے جس میں ظاہر قرآن اور حدیث کی موافقت ہے۔

” القرآن ذو وجوہ “ کا جواب

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ ” القرآں ذو وجوہ “ یعنی قرآن مجید کی ایک آیت کے کئی محمل ہوتے ہیں اور وہ سب درست ہوتے ہیں، لہٰذا اعلیٰ حضرت نے الفتح : ٢ کا جو ترجمہ ” کنز الایمان “ میں کیا ہے وہ بھی صحیح ہے اور جو ترجمہ آپ نے دوسری تصانیف میں کیا ہے وہ بھی درست ہے، میں کہتا ہوں : یہ اصول ٹھیک ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت کے کئی محمل ہوتے ہیں اور وہ سب درست بھی ہوتے ہیں لیکن ان میں راجح اور مرجوح اور قوی اور ضعیف تو ہوتے ہیں، مثلاً قرآن مجید کی یہ آیت ہے :

……(البقرۃ : ٢٢٨) اور طلاق یافتہ عورتیں تین قروء عدت گزاریں۔

” قرئ “ کا معنی حیض بھی ہے اور طہر بھی ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس آیت میں ” قرئ “ کا معنی حیض ہے اور ان کے نزدیک مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے اور امام شافعی کے نزدیک اس آیت میں ” قرئ “ کا معنی طہر ہے اور ان کے نزدیک مطلقہ کی عدت تین طہر ہے، لغت کے اعتبار سے یہ دونوں محمل درست ہیں لیکن دلائل کے اعتبار سے یہاں ” قرئ “ بہ معنی حیض راجح ہے، تین کا عدد صرف حیض کی صورت میں متحقق ہے کیونکہ جس طہر میں طلاق دی گئی اگر اس کو عدت میں شمار کریں تو اڑھائی طہر بنتے ہیں اور اگر اس طہر کو عدت میں شمار نہ کریں تو ساڑھے تین طہر بنتے ہیں، تین کا عدد پورا صرف اس صورت میں متحقق ہوگا جب ” قرئ “ بہ معنی حیض ہو، سو [قرئ “ کے دو محمل ہیں اور دونوں صحیح ہیں، لیکن راجح ” قرئ “ بہ معنی حیض ہے، اسی طرح الفتح : ٢ کی دو تاویلیں ہیں، ایک یہ ہے کہ اس آیت میں ذنب بہ معنی خلافِ اولیٰ ہو اور یہ مجاز مرسل ہو اور دوسری یہ کہ مغفرت ذنب کی نسبت آپ کے اگلوں اور پچھلوں کی طرف ہو اور یہ مجاز عقلی ہو اور یہ دونوں تاویلیں درست ہیں لیکن تاویل راجح ہے کیونکہ وہ ظاہر قرآن اور حدیث کے مطابق ہے اور دوسری تاویل مرجوع ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 2