أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ اهۡتَدَوۡا زَادَهُمۡ هُدًى وَّاٰتٰٮهُمۡ تَقۡوٰٮهُمۡ ۞

ترجمہ:

اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کی ہدایت کو زیادہ کردیا اور ان کو ان کا تقویٰ عطا فرما دیا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ان کی ہدایت کو زیادہ کردیا اور ان کو ان کا تقویٰ عطا فرما دیا یہ لوگ صرف اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس قیامت اچانک آجائے، سو بیشک اس کی نشانیاں آچکی ہیں، پس جب وہ (قیامت) ان کے پاس آچکے گی تو ان کو نصیحت قبول کرنے کا موقع کہاں میسر ہوگا پس آپ یاد رکھئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور آپ اپنے بہ ظاہر اولیٰ سب کاموں پر استغفار کیجئے اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کے لئے تم اور اللہ تم سب لوگوں کی آمدروفت اور آرام کی جگہ کو خوب جانتا ہے (محمد : ١٩۔ ١٧)

ھادی، ہدایت اور تقویٰ کے مصداق کے متعلق اقاویل

اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہے ان کی ہدایت کو زیادہ کردیا، اس میں ہدایت دینے والے کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے ان میں زیادہ ہدایت کو پیدا کردیا

(٢) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو ہدایت پیدا کی تھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ہدایت کو جاری اور نافذ کردیا

(٣) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن کریم کی تلاوت کی سماعت نے ان کی ہدایت کو مزید مستحکم کردیا

(٤) منافقین کے اعتراض کرنے اور مسلمانوں کا مذاق اڑانے سے ان کی ہدایت پر گرفت اور مضبوط ہوگئی

(٥) آیاتِ ناسخہ کے نزول سے ان کی ہدایت زیادہ ہوگئی۔

ان کی جو ہدایت زیادہ ہوئی اس کے مصداق میں حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) ان کا علم دین زیادہ ہوگیا

(٢) یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات توجہ اور غور سے سن کر علم حاصل کرتے اور علم کے تقاضوں پر عمل کرتے

(٣) ان کی دین اسلام پر بصیرت اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق زیادہ ہوگئی

(٤) ان کا اپنے ایمان پر شرح صدر زیادہ ہوگیا۔

نیز اس آیت میں فرمایا : اور ان کو تقویٰ عطا فرمادیا، یعنی ان کی تقویٰ کا الہام کردیا، اس کی حسب ذیل تفسیریں ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنا خوف عطا فرمادیا

(٢) ان کے تقویٰ کا آخرت میں ان کو ثواب عطا فرمادیا

(٣) ان کو فرائض پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمادی

(٤) ان کو یہ الہام فرمادیا کہ وہ محرمات اور مکروہات کے ارتکاب سے اور فرائض اور واجبات کے ترک سے اجتناب کریں

(٥) منسوخ شدہ احکام پر عمل کرنے کو ترک کردیں اور احکام ناسخہ پر عمل کرنے کو اپنائیں

(٦) جب سہولت ہو تو عزیمت پر عمل کریں اور جب ضرورت ہو یا سختی اور تنگی ہو تو رخصت پر عمل کریں، مثلاً سفر خوشگوار اور آسان ہو تو روزہ رکھیں اور سفر مشکل اور سخت ہو تو روزہ نہ رکھیں اور بعد میں قضا کرلیں، اسی طرح جب صحت مند ہوں تو روزہ رکھیں اور جب بیمار ہوں تو روزہ ترک کردیں اور بعد میں اس کی قضاء کرلیں اور اگر دائمی مرض ہو تو روزہ کی جگہ فدیہ دے دیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 17