وَلَوۡ نَشَآءُ لَاَرَيۡنٰكَهُمۡ فَلَعَرَفۡتَهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡؕ وَلَتَعۡرِفَنَّهُمۡ فِىۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اَعۡمَالَكُمۡ ۞- سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 30
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَوۡ نَشَآءُ لَاَرَيۡنٰكَهُمۡ فَلَعَرَفۡتَهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡؕ وَلَتَعۡرِفَنَّهُمۡ فِىۡ لَحۡنِ الۡقَوۡلِؕ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اَعۡمَالَكُمۡ ۞
ترجمہ:
اور اگر ہم چاہتے تو ہم ضرور یہ سب لوگ (منافقین) آپ کو دکھا دیتے اور آپ ضرور ان کو ان کے چہروں سے پہنچان لیتے، اور آپ ضرور انکو ان کی طرز گفتگو سے پہچان لیں گے اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے
محمد : ٣٠ میں فرمایا : اور اگر ہم چاہتے تو ہم ضرور یہ سب لوگ (منافقین) آپ کو دکھا دیتے اور آپ ضرور ان کو ان کے چہروں سے پہنچان لیتے اور آپ ضرور ان کو ان کی طرز گفتگو سے پہچان لیں گے اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین کا علم تھا یا نہیں ؟
امام محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں ابن زید سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب منافقین رسول اللہ و کو دکھا دئیے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ وہ مسجد سے نکل جائیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٤٣١٧، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کوئی منافق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مخفی نہیں رہا، آپ منافقوں کو ان کے چہروں سے پہنچان لیتے تھے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٢١٧، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقوں کو ان کی بات کے لہجہ سے پہچان لیتے تھے اور کوئی دوسرا نہیں پہچان پاتا تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقین کو پہنچان لیتے اور ان کے باطن کو آپ نے اس وقت تک ظاہر نہیں فرمایا جب تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اجازت نہیں دی اور آپ کو ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع نہیں فرمایا اور ان کی قبروں پر کھڑے ہونے سے منع نہیں فرمایا (دیکھئے التوبۃ : ٨٤) ۔ (تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٥٩، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابو عبد اللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :
کلبی نے روایت کیا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب بھی آپ سے کوئی منافق بات کرتا تھا آپ اس کو پہنچان لیتے تھے، حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کوئی منافق آپ سے مخفی نہیں رہا، اللہ تعالیٰ آپ کو وحی سے بتادیتا تھا یا آپ اس علامت سے منافقی کو پہنچان لیتے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقرر فرمائی تھی۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٦ ص ٢٣١، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ اس آیت کی تفصیل میں لکھتے ہیں :
حضرت عثمان بن عفان (رض) نے فرمایا : جو شخص بھی پوشیدگی میں کوئی کام کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کے آثار اور اس کی زبان کی لغزشوں سے اس کام کو ظاہر فرما دیتا ہے، حدیث میں ہے :
حضرت جندب بن سفیان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص بھی کسی کام کو پوشیدگی سے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو اس کی چادر پہنا دیتا ہے اگر وہ اچھا کام ہو تو اچھی چادر اور برا کام ہو تو بری چادر۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٧٠٢، حافظ الہیثمی نے کہا : اس کی سند میں ایک راوی کذاب ہے۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٦٧٦)
اس کے بعد حافظ ابن کثیر نے ” مسند احمد “ کے حوالے سے یہ حدیث ذکر کی ہے :
حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں خطبہ دیا اور اس میں اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کی، پھر فرمایا : تم میں منافقین ہیں سو میں جس کا نام لوں وہ کھڑا ہوجائے، پھر فرمایا : تم میں منافقین ہیں سو تم اللہ سے ڈرو، پھر حضرت عمر کا ان میں سے ایک شخص کے پاس سے گزر ہوا جن کا آپ نے نام لیا تھا، حضرت عمر اس کو پہنچانتے تھے، انہوں نے پوچھا : تمہارے ساتھ کیا ہوا ؟ اس نے یہ حدیث بیان کی، حضرت عمر نے فرمایا : تمہارے لئے سارا دن دوری ہو۔ (مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٣ طبع قدیم، مسند احمد ج ٧ ٣ ص ٣٦، رقم الحدیث : ٢٢٣٤٨ طبعی جدید، موسستہ الرسالۃ، بیروت، دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٢٨٦، تاریخ کبیر ج ٧ س ٢٣۔ ٢٢) (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ١٩٧، دار الفکر، بیروت ١٤١٩ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی منافق مخفی نہیں رہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منافقوں کو ان کے چہروں سے پہنچان لیتے تھے اور ہم ایک غزوہ میں تھے جس میں نو منافق تھے، لوگ ان کی شکایت کرتے تھے، ایک رات وہ سوگئے، صبح اٹھے تو ہر ایک کی پیشانی پر لکھا ہوا تھا، یہ منافق ہے۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١١٦، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ اپنے تفسیری حاشیہ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
بعض احادیث سے ثابت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے منافقین کو نام بہ نام پکارا اور اپنی مجلس سے اتھا دیا، ممکن ہے کہ وہ شناخت ” لحن القول “ اور ” سیما “ وغیرہ سے حاصل ہوئی ہو یا آیت ہذا کے بعد حق تعالیٰ نے آپ کو بعض منافقین کے اسماء پر تفصیل اور تعیین کے ساتھ مطلع فرمادیا ہو۔
مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٢ ھ اس آیت کی تفسیر میں ” ابن کثیر “ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
” مسنداحمد “ کی حدیث میں عقبہ بن عمر کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خطبہ میں خاص خاص منافقین کے نام لے کر ان کو مجلس سے اٹھا دیا، اس میں چھتیس آدمیوں کے نام شمار کئے گئے۔ (معارف القرآن ج ٨ ص ٤٤، ادارۃ المعارف، کراچی، ١٤١٤ ھ)
القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 30