وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَىٕنَّا لَمُخْرَجُوْنَ(۶۷)

اور کافر بولے کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے کیا ہم پھر نکالے جائیں گے (ف۱۲۱)

(ف121)

اپنی قبروں سے زندہ ۔

لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُۙ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۶۸)

بےشک اس کا وعدہ دیا گیا ہم کو اور ہم سے پہلے ہمارے باپ داداؤں کو یہ تو نہیں مگر اگلوں کی کہانیاں(ف۱۲۲)

(ف122)

یعنی (معاذ اللہ) جھوٹی باتیں ۔

قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِیْنَ(۶۹)

تم فرماؤ زمین میں چل کر دیکھو کیسا ہوا نجام مجرموں کا (ف۱۲۳)

(ف123)

کہ وہ انکار کے سبب عذاب سے ہلاک کئے گئے ۔

وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ لَا تَكُنْ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْكُرُوْنَ(۷۰)

اور تم ان پر غم نہ کھاؤ (ف۱۲۴) اور ان کے مکر سے دل تنگ نہ ہو (ف۱۲۵)

(ف124)

ان کے اعراض و تکذیب کرنے اور اسلام سے محروم رہنے کے سبب ۔

(ف125)

کیونکہ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہے ۔

وَ یَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۷۱)

اور کہتے ہیں کب آئے گا یہ وعدہ (ف۱۲۶) اگر تم سچے ہو

(ف126)

یعنی یہ وعدۂ عذاب کب پورا ہو گا ۔

قُلْ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِیْ تَسْتَعْجِلُوْنَ(۷۲)

تم فرماؤ قریب ہے کہ تمہارے پیچھے آلگی ہو بعض وہ چیز جس کی تم جلدی مچارہے ہو(ف۱۲۷)

(ف127)

یعنی عذابِ الٰہی چنانچہ وہ عذاب روزِ بدر ان پر آ ہی گیا اور باقی کو وہ بعدِ موت پائیں گے ۔

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَشْكُرُوْنَ(۷۳)

اور بےشک تیرا رب فضل والا ہے آدمیوں پر (ف۱۲۸) لیکن اکثر آدمی حق نہیں مانتے (ف۱۲۹)

(ف128)

اسی لئے عذاب میں تاخیر فرماتا ہے ۔

(ف129)

اور شکر گزاری نہیں کرتے اور اپنی جہالت سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں ۔

وَ اِنَّ رَبَّكَ لَیَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ(۷۴)

اور بےشک تمہارا رب جانتا ہے جو اُن کے سینوں میں چھپی ہے اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں (ف۱۳۰)

(ف130)

یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عداوت رکھنا اور آپ کی مخالفت میں مکاریاں کرنا سب کچھ اللہ تعالٰی کو معلوم ہے وہ اس کی سزا دے گا ۔

وَ مَا مِنْ غَآىٕبَةٍ فِی السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۷۵)

اور جتنے غیب ہیں آسمان اور زمین کے سب ایک بتانے والی کتاب میں ہیں (ف۱۳۱)

(ف131)

یعنی لوحِ محفوظ میں ثبت ہیں اور جنہیں ان کا دیکھنا بفضلِ الٰہی میّسر ہے ان کے لئے ظاہر ہیں ۔

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَكْثَرَ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ(۷۶)

بےشک یہ قرآن ذکر فرماتا ہے بنی اسرائیل سے اکثر وہ باتیں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں (ف۱۳۲)

(ف132)

دینی امور میں اہلِ کتاب نے آپس میں اختلاف کیا ان کے بہت فِرقے ہو گئے اور آپس میں لعن طعن کرنے لگے تو قرآنِ کریم نے اس کا بیان فرمایا ایسا بیان کیا کہ اگر وہ انصاف کریں اور اس کو قبول کریں اور اسلام لائیں تو ان میں یہ باہمی اختلاف باقی نہ رہے ۔

وَ اِنَّهٗ لَهُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ(۷۷)

اور بےشک وہ ہدایت اور رحمت ہے مسلمانوں کے لیے

اِنَّ رَبَّكَ یَقْضِیْ بَیْنَهُمْ بِحُكْمِهٖ ۙۚ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ ﳐ (۷۸)

بےشک تمہارا رب اُن کے آپس میں فیصلہ فرماتا ہے اپنے حکم سے اور وہی ہے عزت و الا علم والا

فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِیْنِ(۷۹)

تو تم اللہ پر بھروسہ کرو بےشک تم روشن حق پر ہو

اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ(۸۰)

بےشک تمہارے سُنائے نہیں سُنتے مُردے (ف۱۳۳) اور نہ تمہارے سنائے بہرے پکار سنیں جب پھریں پیٹھ دے کر (ف۱۳۴)

(ف133)

مُردوں سے مراد یہاں کُفّار ہیں جن کے دل مُردہ ہیں چنانچہ اسی آیت میں ان کے مقابل اہلِ ایمان کا ذکر فرمایا ۔ ” اِنْ تُسْمِعُ اِلاَّ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا ” جو لوگ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرتے ہیں ان کا استدلال غلط ہے چونکہ یہاں مُردہ کُفّار کو فرمایا گیا اور ان سے بھی مطلقاً ہر کلام کے سننے کی نفی مراد نہیں ہے بلکہ پند و موعِظت اور کلامِ ہدایت کے بسمعِ قبول سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافِر مُردہ دل ہیں کہ نصیحت سے منتفع نہیں ہوتے ۔ اس آیت کے معنی یہ بتانا کہ مردے نہیں سنتے بالکل غلط ہے صحیح احادیث سے مُردوں کا سُننا ثابت ہے ۔

(ف134)

معنٰی یہ ہیں کہ کُفّار غایت اعراض و روگردانی سے مُردے اور بہرے کے مثل ہو گئے ہیں کہ انہیں پکارنا اور حق کی دعوت دینا کسی طرح نافع نہیں ہوتا ۔

وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِی الْعُمْیِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْؕ-اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۸۱)

اور اندھوں کو (ف۱۳۵)ان کی گمراہی سے تم ہدایت کرنے والے نہیں تمہارے سُنائے تو وہی سنتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں (ف۱۳۶) اور وہ مسلمان ہیں

(ف135)

جن کی بصیرت جاتی رہی اور دل اندھے ہو گئے ۔

(ف136)

جن کے پاس سمجھنے والے دل ہیں اور جو علمِ الٰہی میں سعادتِ ایمان سے بہرہ اندوز ہونے والے ہیں ۔(بیضاوی و کبیر و ابوالسعود و مدارک)

وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْۙ-اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠(۸۲)

اور جب بات اُن پر آپڑے گی(ف۱۳۷) ہم زمین سے ان کے لیے ایک چوپایہ نکالیں گے (ف۱۳۸) جو لوگوں سے کلام کرے گا(ف۱۳۹) اس لیے کہ لوگ ہماری آیتوں پر ایمان نہ لاتے تھے (ف۱۴۰)

(ف137)

یعنی ان پر غضبِ الٰہی ہو گا اور عذاب واجب ہو جائے گا اور حُجّت پوری ہو چکے گی اس طرح کہ لوگ امر بالمعروف اور نہی منکر ترک کر دیں گے اور ان کی درستی کی کوئی امید باقی نہ رہے گی یعنی قیامت قریب ہو جائے گی اور اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں گی اور اس وقت توبہ نفع نہ دے گی ۔

(ف138)

اس چوپایہ کو دابۃ الارض کہتے ہیں یہ عجب شکل کا جانور ہو گا جو کوہِ صفا سے برآمد ہو کر تمام شہروں میں بہت جلد پھرے گا ، فصاحت کے ساتھ کلام کرے گا ، ہر شخص کی پیشانی پر ایک نشان لگائے گا ، ایمانداروں کی پیشانی پر عصائے موسٰی علیہ السلام سے نورانی خط کھینچے گا ، کافِر کی پیشانی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگُشتری سے سیاہ مُہر لگائے گا ۔

(ف139)

بزبانِ فصیح اور کہے گا ہذا مؤمن و ہذا کا فِر یہ مؤمن ہے اور یہ کافِر ہے ۔

(ف140)

یعنی قرآنِ پاک پر ایمان نہ لاتے تھے جس میں بَعث و حساب و عذاب و خروجِ دابۃ الارض کا بیان ہے اس کے بعد کی آیت میں قیامت کا بیان فرمایا جاتا ہے ۔