أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ يَغُضُّوۡنَ اَصۡوَاتَهُمۡ عِنۡدَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ امۡتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ لِلتَّقۡوٰى‌ؕ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے پرکھ لیا ہے، ان ہی کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے

الحجرات : ٣ میں فرمایا : بیشک جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے پرکھ لیا ہے، ان ہی کے لئے مغفرت ہے اور اجر عظیم ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آواز پست رکھنے والے صحابہ

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ثابت بن قیس (رض) کو گم پایا، تو ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! میں آپ کو اس کی خبر لا کر دوں گا، پس وہ شخص ان کے پاس گیا تو وہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے تھے، اس شخص نے پوچھا : تمہیں کیا ہوا ؟ حضرت ثابت بن قیس نے کہا : بہت برا ہوگیا، وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بلند آواز سے بولتا تھا اس کے اعمال تو ضائع ہوگئے اور وہ تو اہل دوزخ میں سے ہے، پھر اس شخص نے جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ حضرت ثابت بن قیس اس طرح کہہ رہے تھے، پھر وہ شخص دوبارہ حضرت ثابت بن قیس کے پاس عظیم بشارت لے کر گیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اس کے پاس جائو اور اس سے کہو کہ تم اہل دوزخ سے نہیں ہو بلکہ تم اہل جنت سے ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٤٦۔ ٣٦١٣)

” صحیح مسلم “ میں یہ روایت اس طرح ہے :

حضرت سعد، حضرت ثابت کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں کیوں حاضر نہیں ہوتے ؟ انہوں نے کہا : یہ آیت (الحجرات : ٣) نازل ہوچکی ہے اور تم کو معلوم ہے کہ میری آواز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تم سب سے بلند ہے، سو میں تو اہل دوزخ سے ہوا۔ حضرت سعد نے جا کر یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا تو رسول الہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلکہ وہ اہل جنت سے ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١١٩)

حضرت ثابت بن قیس انصاری تھے ان کا تعلق خزرج سے تھا، اس حدیث میں ان کے لئے عظیم بشارت ہے کہ وہ جنتی ہیں اور وہ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے، نیز اس حدیث میں بھی یہ دلیل ہے کہ مطلقاً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اونچی آواز سے بات کرنے پر وعید نہیں ہے اگر کوئی شخص قدرتی طور پر بلند آواز سے بولتا ہو اور اس کی آواز غیر اختیار طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تقویٰ کو پرکھنے کا معنی

اس آیت میں فرمایا ہے : بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے پرکھ لیا ہے۔

تقویٰ کے معنی ہیں : خوفِ خدا۔ پس جس شخص نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول مان لیا اور آپ کی اس قدر تعظیم کی کہ آپ کے سامنے اپنی آواز پست رکھی کہ کہیں زور سے بولنے کی وجہ سے اس کے اعمال ضائع نہ ہوجائیں تو اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم کس قدر زیادہ ہوگی اور اس کے دل میں اللہ کا خوف کتنا زیادہ ہوگا کہ اگر اس کے رسول کی تعظیم میں اس نے کمی کی تو وہ دوزخ کا مستحق ہوجائے گا، پس اللہ کے رسول کی تعظیم کرنا، دراصل اس کے دل میں چھپے ہوئے خوفِ خدا اور تقویٰ کی وجہ سے ہے اور ایسے لوگوں کے دلوں کے تقویٰ کو اللہ نے پرکھ لیا ہے یعنی انکے تقویٰ کو ظاہر فرمایا دیا ہے اور اس کی مثال یہ ہے :

……(الحج : ٣٢)

جو لوگ اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ ان کے دلوں میں خوفِ خدا کی وجہ سے ہے۔

شعائر اللہ سے مراد ہیں : دین کے امتیازی احکام اور مناسک حج کو بجا لانا، صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا، کعبہ کا طواف کرنا، حجرِ اسود کو بوسہ دینا، قربانی کے لئے فربہ جانور لانا اور ان کی تعظیم کرنا، صفا اور مروہ دو پہاڑیوں اور کعبہ پتھر کی ایک عمارت ہے، حجرِ اسود ایک پتھر ہے اور قربانی کے اونٹ جانور ہیں اور فی نفسہ ان کی تعظیم کی کوئی وجہ نہیں ہے، حج کرنے والا جو ان کی تعظیم کرتا ہے تو وہ اللہ کے حکم کی وجہ سے کرتا ہے، پس جو شخص اللہ کے حکم کی وجہ سے ان پتھروں اور جانوروں کی تعظیم کرتا ہے اس کے دل میں اللہ کی تعظیم کس قدر ہوگی اور اللہ کا خوف اور تقویٰ کتنا زیادہ ہوگا کہ وہ اللہ کی ناراضگی کے خوف سے ان پتھروں اور جانوروں کی بھی تعظیم کر رہا ہے، جب کہ انسان بلکہ مسلمان پتھروں اور جانوروں سے بہت افضل اور اعلیٰ ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول کی تعظیم کرنا اور ان کے سامنے اپنی آواز کو پست رکھنا دراصل اللہ کی تعظیم اور اس کے خوف کی وجہ سے ہے کہ اگر اس نے اللہ کے رسول اور اس کے نمائندہ کی تعظیم میں کمی کی تو اللہ اس کے نیک اعمال کو ضائع کردے گا اور اس کو دوزخ میں ڈال دے گا، سو جن لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی آواز کو پست رکھا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں چھپے ہوئے خوفِ خدا کو ظاہر کردیا۔

اور فرمایا : ان کے لئے مغفرت ہے اور اجر عظیم ہے۔ مغفرت کا معنی ہے : انسان کے برے کاموں کو چھپانا اور ان پر سزا نہ اینا اور اجر کا معنی ہے : اس کے نیک کاموں پر ثواب عطا فرمانا۔

القرآن – سورۃ نمبر 49 الحجرات آیت نمبر 3