اِنَّ الَّذِيۡنَ يُبَايِعُوۡنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوۡنَ اللّٰهَ ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوۡقَ اَيۡدِيۡهِمۡ ۚ فَمَنۡ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنۡكُثُ عَلٰى نَفۡسِهٖۚ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيۡهُ اللّٰهَ فَسَيُؤۡتِيۡهِ اَجۡرًا عَظِيۡمًا۞- سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 10
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّ الَّذِيۡنَ يُبَايِعُوۡنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوۡنَ اللّٰهَ ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوۡقَ اَيۡدِيۡهِمۡ ۚ فَمَنۡ نَّكَثَ فَاِنَّمَا يَنۡكُثُ عَلٰى نَفۡسِهٖۚ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِمَا عٰهَدَ عَلَيۡهُ اللّٰهَ فَسَيُؤۡتِيۡهِ اَجۡرًا عَظِيۡمًا۞
ترجمہ:
بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں اور درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھوں پر، سو جس نے یہ بیعت توڑی تو اس کا وبال صرف اسی پر وہو گا اور جس نے اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کیا تو عنقریب اللہ اسے بہت اجر دے گا
” ید اللہ “ کی توجیہات اور ” بما عاھد علیہ اللہ “ میں ضمہ کے اشکال کا جواب
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھوں پر، سو جس نے یہ بعیت توڑی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہوگا اور جس نے اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کیا تو عنقریب اللہ اسے بہت بڑا اجر دے گا۔ (الفتح : ١٠)
اس سے مراد وہ بیعت ہے جو حدیبیہ میں حضرت عثمان کا قصاص لینے پر کی گئی تھی، اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیعت کرنا، درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنا ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
……(النسائ : ٨٠) جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کرلی۔
متقدمین کے نزدیک اللہ کے ہاتھ کے معنی میں کوئی تاویل نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ ہے جو اس کی شان کے لائق ہے لیکن مخلوق میں اس کے ہاتھ کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، ائمہ اربعہ کا یہی مختار ہے، اس کی زیادہ تفصیل ہم نے الاعراف : ٥٤“ بتیان القرآن “ ج ٤ ص ١٥٧ میں کی ہے اور متاخرین نے اس کی تاویلات کی ہیں۔ امام رازی نے اس کی حسب ذیل تاویلات کی ہیں :
(١) اللہ کی نعمت ان کی نیکیوں کے اوپر ہے یعنی ان کی نیکیوں سے بہت زائد ہے۔
(٢) اللہ کی نصرت اور مدد ان کی نصرتر اور مدد سے بہت زیادہ ہے۔
(٣) اللہ تعالیٰ ان کی بیعت کی حفاظت فرمائے گا۔
علامہ قرطبی نے اس کی یہ تاویلات کی ہیں :
(١) اللہ کا ہاتھ جو ثواب عطا فرمانے میں ہے، وہ ان کی بیعت پوری کرنے سے بہت زیادہ ہے۔
(٢) اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت دے کر جو ان پر احسان کا ہاتھ رکھا ہے وہ ان کی اطاعت سے بہت زیادہ ہے۔
(٣) اللہ تعالیٰ کی قوت اور نصرت ان کی قوت اور نصرت سے بہت زیادہ ہے۔
اس کے بعد فرمایا : سو جس نے یہ بیعت توڑی تو اس کا وبال صرف اسی پر ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا :
……(الفتح : ١٠) اور جس نے اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کیا تو عنقریب اللہ اسے بہت بڑا اجر دے گا۔
اس آیت پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ اس آیت میں ” علیہ “ کی ہائے ضمیر پر ضمہ (پیش) ہے جب کہ قواعد کے مطابق یہاں ھاِ ضمیر پر کسرہ (زیر) ہونا چاہیے، کیونکہ اس کا ماقبل یاء مجزوم ہے اور یاء کی مناسبت سے اس پر کسرہ ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے فرمایا :“ فمن نکث “ یعنی جس نے عہد کو توڑا، تو اگر ہاء ضمیر پر سرہ ہوتی تو یہ معروف قاعدہ کے مطابق ہوتا ہے اور عہد کا پورا کرنا ہوتا، جب کہ آیت میں عہد توڑنے کا ذکر ہے، اس لئے جب ” علیہ اللہ “ میں ہاء پر ضمہ پڑھی گئی تو یہ نحوی قاعدہ کا توڑنا ہو اور ” فمن نکث “ کا موافق ہوگیا۔ (روح المعانی جز ٢٦ ص ١٣٩، دار الفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)
القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 10