سَيَـقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انْطَلَقۡتُمۡ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡهَا ذَرُوۡنَا نَـتَّبِعۡكُمۡ ۚ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّبَدِّلُوۡا كَلٰمَ اللّٰهِ ؕ قُلْ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا كَذٰلِكُمۡ قَالَ اللّٰهُ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَسَيَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَـنَا ؕ بَلۡ كَانُوۡا لَا يَفۡقَهُوۡنَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۞- سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 15
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
سَيَـقُوۡلُ الۡمُخَلَّفُوۡنَ اِذَا انْطَلَقۡتُمۡ اِلٰى مَغَانِمَ لِتَاۡخُذُوۡهَا ذَرُوۡنَا نَـتَّبِعۡكُمۡ ۚ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّبَدِّلُوۡا كَلٰمَ اللّٰهِ ؕ قُلْ لَّنۡ تَتَّبِعُوۡنَا كَذٰلِكُمۡ قَالَ اللّٰهُ مِنۡ قَبۡلُ ۚ فَسَيَقُوۡلُوۡنَ بَلۡ تَحۡسُدُوۡنَـنَا ؕ بَلۡ كَانُوۡا لَا يَفۡقَهُوۡنَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۞
ترجمہ:
اور جب تم اموالِ غنیمت لینے کے لئے جائو گے تو عنقریب پیچھے کردئیے جانے والے لوگ یہ کہیں گے : ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ، وہ اللہ کے کلام کو بدلنا چاہتے ہیں، آپ کہیے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، اللہ نے اسی طرح پہلے فرما دیا ہے، پھر عنقریب وہ کہیں گے کہ تم ہی سے حسد کرتے ( یہ بات نہیں ہے) بلکہ وہ لوگ بہت کم سمجھتے ہیں
منافقین کا غزوہ خیبر میں شرکت کے لئے اصرار اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منع فرمانا اور اس کی حکمتیں
الفتح : ١٥ میں فرمایا : اور جب تم اموالِ غنیمت لینے کے لئے جائو گے تو عنقریب پیچھے کردئیے جانے والے لوگ یہ کہیں گے : ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو ۔ الایۃ
اس آیت میں اموالِ غنیمت سے مراد خبیر کے اموالِ غنیمت ہیں، ٧ ھ میں مسلمانوں نے خیبر فتح کیا اور اس کا مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے اور اللہ نے صرف ان ہی لوگوں کو خیبر کا مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جانے کی اجازت دی تھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس سے پہلے عمرہ کرنے کے لئے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تھے، جب منافقوں نے یہ دیکھا کہ خیبر کی طرف جانے سے مال و متاع ہاتھ آئے گا تو انہوں نے کہا : ہمیں بھی ساتھ لے چلو، اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب فرمائی کہ جب تہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرہ کے لئے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا تھا تو تم نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے اموال اور گھر بار کی حفاظت کرنی ہے، اب جب خیبر کی طرف جانے کا موقع ہے تو اب تم اپنے اموال اور گھر بار کی حفاظت کیوں نہیں کرتے، اب کیوں مسلمانوں کے ساتھ جانے کے لئے اصرار کر رہے ہو ؟
اس آیت میں اور الفتح : ١١، میں ان منافقوں کو اس وصف سے تعبیر فرمایا ہے کہ ” ان کو پیچھے کردیا گیا تھا “ اور ان کو یوں نہیں فرمایا کہ ” یہ پیچھے رہ گئے تھے “ اور اسمیں یہ حکمت ہے کہ منافق یوں نہ کہیں کہ ہم خود پیچھے رہ گئے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے رسول کی مصاحبت کے لائق نہیں جانا، اس لئے تم پیچھے کردئیے گئے، اس کے بعد فرمایا :
وہ اللہ کے کلام کو بدلنا چاہتے ہیں، اللہ کے کلام کو بدلنے کے دو محمل ہیں :
(١) اللہ تعالیٰ نے جو اپنے رسول پر وحی خفی کی تھی کہ خیبر کا مال غنیمت ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حدیبیہ گئے تھے، اب منافق یہ چاہتے تھے کہ خیبر کا مال غنیمت حاصل کرکے اللہ کے کلام کو بدل دیں اور اس وحی خفی کو جھوٹا ثابت کردیں۔
(٢) امام رازی نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
……(التوبہ : ٨٣) آپ کہیے کہ تم کبھی بھی میرے ساتھ روانہ نہیں ہوگے اور تم کبھی بھی میرے ساتھ دشمن کے خلاف جہاد نہیں کرو گے۔
اور وہ خیبر میں آپ کے ساتھ جا کر اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو بدلنا چاہتے تھے۔
لیکن اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ آیت غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے منافقوں کے متعلق نازل ہوئی ہے اور غزوہ تبوک، فتح خیبر اور فتح مکہ کے بعد ہوا ہے۔
اور مجاہد اور قتادہ نے کہا ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب مسلمان حدیبیہ سے واپس ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے بدلہ میں ان سے خیبر کی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا تھ اور اب منافقین غنائم خیبر میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو بدلنا چاہتے ہیں اور اسی طرح اس آیت کے اس حصہ میں ارشارہ ہے :
آپ کہیے کہ تم ہمارے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے، اللہ نے اسی طرح پہلے فرمادیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسی طرح جو پہلے فرمایدا ہے کہ ” تم ہمارے ساتھ نہیں جاسکتے اور خیبر کی غنیمتیں صرف ان مسلمانوں کے لئے ہیں جو میرے ساتھ حدیبیہ گئے تھے “ اس کا ذکر صریح قرآن اور وحی جلی میں نہیں ہے، اس کا ثبوت صرف وحی خفی میں ہے اور یہ آیت وحی خفی کے ثبوت پر دلیل ہے۔
اس کے بعد فرمایا : پھر عنقری وہ کہیں گے کہ تم ہم سے حسد کرتے ہو ( یہ بات نہیں ہے) بلکہ وہ لوگ بہت کم سمجھتے ہیں۔
منافقین نے کہا کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف حدیبیہ میں ساتھ جانے والوں کو خیبر میں جانے کی اجازت ہوگی بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو، اس لئے ہم کو غزوہ خبیر میں نہیں لے جا رہے۔ منافقین کا مطلب یہ تھا کہ حدیبیہ میں مسلمانوں کے ساتھ نہ جانے کے متعلق ہماری رائے صحیح تھی کیونکہ مسلمان حدیبیہ سے بےنیل مرام واپس آئے اور ہم یہاں بےفائدہ سفر کی مشقتیں جھیلنے کے بجائے آرام سے رہے اور اب اگر ہم غزوہ خیبر میں ان کے ساتھ جائیں تو یہ کہیں گے کہ یہ ہمارے ساتھ حدیبیہ گئے نہیں اور خیبر کی غنیمتوں میں حصہ دار بن گئے، اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے کلام کو بہت کم سمجھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ کہیے کہ تم ہمارے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور اللہ تعالیٰ پہلے بھی اسی طرح فرما چکا ہے، کیونکہ مسلمان جو حدیبیہ سے خالی ہاتھ واپس آئے تھے، اس کی تلافی اور تدارک کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانون سے خبیر کی غنیمتوں کا وعدہ فرمایا تھا، تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ جن لوگوں نے محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا کے لئے سفر کی مشقتوں کو برداشت کیا اور کفار کے ظاہری دبائو کو برداشت کیا، ان کو آخرت میں جو اجر عظیم ملے گا وہ تو الگ ہے، اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بھی محروم نہیں رکھے گا اور ان کو اس سفر کے بدلہ میں خیبر کی غنیمتیں عطا فرمائے گا۔
القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 15