أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سَيَـقُوۡلُ لَكَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَـتۡنَاۤ اَمۡوَالُـنَا وَاَهۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَـنَا‌ ۚ يَقُوۡلُوۡنَ بِاَلۡسِنَتِهِمۡ مَّا لَـيۡسَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ‌ؕ قُلۡ فَمَنۡ يَّمۡلِكُ لَـكُمۡ مِّنَ اللّٰهِ شَيۡئًــا اِنۡ اَرَادَ بِكُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِكُمۡ نَفۡعًا ‌ؕ بَلۡ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرًا ۞

ترجمہ:

جو اعرابی (سفر حدیبیہ میں) آپ سے پیچھے کر دئے گئے تھے وہ عنقریب یہ عذر پیش کریں گے کہ ہم اپنے اموال اور گھروں کو دیکھ بھال میں مشغول تھے، سو آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے، وہ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں، آپ کہیے کہ اللہ کے مقابلہ میں کس کو کسی چیز کا اختیار ہے ؟ اگر وہ تم کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے یا تم کو نفع پہنچانے کا ارادہ کرے بلکہ اللہ تمہارے تمام کاموں کی خبر رکھنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو اعرابی (سفر حدیبیہ میں) آپ سے پیچھے کر دئے گئے تھے وہ عنقریب یہ عذر پیش کریں گے کہ ہم اپنے اموال اور گھروں کو دیکھ بھال میں مشغول تھے، سو آپ ہمارے لئے استغفار کیجئے، وہ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں، آپ کہیے کہ اللہ کے مقابلہ میں کس کو کسی چیز کا اختیار ہے ؟ اگر وہ تم کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے یا تم کو نفع پہنچانے کا ارادہ کرے بلکہ اللہ تمہارے تمام کاموں کی خبر رکھنے والا ہے۔ بلکہ تم نے یہ گمان کیا تھا کہ رسول اور مومنوں کبھی بھی اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ نہیں سکیں گے، اور تمہارے دلوں میں یہ بات خوش نما بنادی گئی تھی، تم نے بہت برا گمان کیا تھا، اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔ اور جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لایا تو بیشک ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ (الفتح : ١٣۔ ١١)

منافقوں کا عذر اور اس کا نامقبول ہونا

” المخلفون “ کا معنی ہے : جن کو پیچھے کردیا گیا، یعنی اللہ نے ان کو اپنے نبی کے ساتھ جانے اور ان کی ہم راہی سے پیچھے کردیا تھا، یہ منافق لوگ تھے جو مدینہ کے قریب دیہاتوں میں رہتے تھے، ان کے قبائل یہ تھے۔ غفار، مزینہ، اسلم اشجع اور دیل، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٦ ہجری کو مکہ کی طرف روانہ ہونے کا ارادہ کیا اور ان کو اپنے ساتھ چلنے کے لئے بلایا تو یہ قریش کے ڈر سے آپ کے ساتھ چلنے کے لئے تیار نہیں ہوئے، حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب نے احرام باندھا ہوا تھا، انہوں نے ساتھ نہ جانے کے لئے یہ عذر پیش کیا تھا کہ ہمارے امول اور گھروں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے، آپ کے حدیبیہ سے واپس آنے کے بعد یہ آپ کے پاس عذر پیش کرتے ہوئے آئے اور کہا کہ آپ ہماری اس فروگزاشت کے اوپر اللہ سے استغفار کیجئے، اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر ان کو رسوا کردیا کہ یہ اپنی زبانوں سے جس شرمندگی اور افسوس اور معذرت کا اظہار کررہے ہیں اور ان کے دلوں میں نہیں ہے، بلکہ یہ محض ان کا نفاق ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرمایا : تم نے اپنے اموال اور گھروں کو ضرر سے بچانے کی فکر کی اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو نظر انداز کردیا، اور تم اپنے اموال اور گھروں کی حفاظت کی خاطر گھروں میں بیٹھے رہے، اگر اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور پہنچانا چاہے تو تمہارا گھروں میں بیٹھنا تم کو اللہ کے ضرر سے بچا نہیں سکتا، یا تم اس لئے گھروں میں بیٹھے رہے کہ تمہیں مسلمانوں کے ساتھ جہاد نہ کرنا پڑے اور تمہارا یہ خیال تھا کہ تمہارے گھر تم کو دشمن سے بچالیں، اگر بالفرض تم نے دنیا میں اپنے آپ کو خطرہ سے بچا بھی لیا تو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی بناء پر تم کو آخرت میں جو عذاب ہوگا اس سے تم کیسے بچ سکے گے ؟

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 11