وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَاۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ حَتّٰى تَفِىۡٓءَ اِلٰٓى اَمۡرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 49 الحجرات آیت نمبر 9
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَاۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮهُمَا عَلَى الۡاُخۡرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِىۡ تَبۡغِىۡ حَتّٰى تَفِىۡٓءَ اِلٰٓى اَمۡرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَيۡنَهُمَا بِالۡعَدۡلِ وَاَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُقۡسِطِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور اگر مؤمنوں کے دو گروہ باہم جنگ کریں تو ان میں صلح کرادو، پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے گروہ سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے، پس اگر وہ رجوع کرلے تو ان میں عدل کے ساتھ صلح کرادو، اور انصاف سے کام لو، بیشک اللہ انصاف سے کام لینے والوں کو پسند فرماتا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر مؤمنوں کے دو گروہ باہم جنگ کریں تو ان میں صلح کرادو، پھر اگر ان میں سے ایک گروہ دوسرے پر زیادتی کرے تو زیادتی کرنے والے گروہ سے جنگ کرو حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرلے، پس اگر وہ رجوع کرلے تو ان میں عدل کے ساتھ صلح کرادو، اور انصاف سے کام لو، بیشک اللہ انصاف سے کام لینے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ بیشک سب مومن آپس میں بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرائو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات : ١٠۔ ٩)
مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرانے کے متعلق احادیث اور آثار
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں اور بعد میں بھی مسلمانوں کے دو فریقوں میں جنگ ہوئی اور ظاہر ہے کہ ان متحارب فریقوں میں سے ایک حق پر تھا اور دوسرا باطل پر تھا اس کے باوجود ان دونوں فریقوں کو مسلمان ہی قرار دیا گیا ہے اور ان کے درمیان صلح کرائی گئی یا صلح کرانے کی کوشش کی گئی۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی و سے کہا گیا (جب آپ ابتداء مدینہ منورہ آئے تھے): اگر آپ عبد اللہ بن ابی کے پاس تشریف لے جائیں (تو اچھا ہو) ، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دراز گوش پر سوار ہو کر اس کے پاس گئے، مسلمان بھی آپ کے ہم راہ گئے، وہ بنجرز میں تھی، جب نبی و اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا : مجھ سے دور ہٹو، تمہاری سواری کی بدبو مجھے ایداء پہنچا رہی ہے، آپ کے ساتھ جو انصاری مسلمان تھے، ان میں سے ایک نے کہا : اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بو تم سے بہت اچھی ہے، عبد اللہ بن ابی کی قوم کا ایک شخص یہ سن کر غصہ میں آگیا اور اس انصاری کو گالی دی، پھر دونوں طرف سے فریق غضب میں آگئے اور وہ ایک دوسرے کو ڈنڈوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارنے لگے، پھر ہم کو یہ خبر پہنچی کہ ان ہی دو جماعتوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی : اور اگر مؤمنوں کے دو گروہ باہم جنگ کریں تو ان میں صلح کرادو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٩٩)
حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل قباء آپس میں لڑ پڑے حتی کہ انہوں نے ایک دوسرے پر پتھرائو کیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایاـ: چلو ہم ان کے درمیان صلح کرادیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٩٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢١، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٩٤٠، سنن نسائی رقم الحدیث : ٧٨٤)
جب اہل شام اور اہل عراق میں جنگ تیار تھی، ایک طرف حضرت معاویہ (رض) کی افواج تھیں، دوسری طرف حضرت حسن بن علی (رض) کی افواج تھیں، اس وقت حضرت حسن بن علی (رض) نے خلافت سے دست بردار ہو کر حضرت امیر معاویہ (رض) سے صلح کرلی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے ہی اس صلح کی پیش گوئی کردی تھی۔
حضرت حسن (رض) کا حضرت معاویہ (رض) سے صلح کرنا۔
حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! جب حضرت حسن بن علی (رض) (حضرت معاویہ (رض) کے مقابلہ میں) پہاڑوں کی مانند لشکر لے کر پہنچے تو حضرت عمرو بن العاص (رض) نے حضرت معاویہ (رض) سے کہا کہ میں ایسا لشکر دیکھ رہا ہوں جو اپنے مقابل کو پسپا کیے بگیر واپس نہیں جائے گا، حضرت معاویہ نے کہا : ( اور وہ ان دونوں میں زیادہ بہتر تھے) کہ اگر اس لشکر نے اس لشکر کا صفایا کردیا تو میری کس پر حکومت ہوگی، عورتوں کی کفالت کون کرے گا، لوگوں کی زمینوں اور ان کے بچوں کی حفاظت کون کرے گا ؟ پھر حضرت معاویہ نے حضرت حسن (رض) کے پاس دو سفیر بھیجے جن کا تعلق قریش کی شاخ بنو عبد شمس کے ساتھ تھا۔ عبد الرحمان بن سمرہ اور عبد اللہ بن عامر، حضرت معاویہ نے ان دونوں سے کہا کہ تم حضرت حسن بن علی (رض) عنما کے پاس جائو اور ان کے سامنے صلح کی پیش کش کرو اور ان سے اس معاملہ میں گفتگو کرو، سو وہ دونوں گئے اور آپ سے گفتگو کر، حضرت حسن بن علی (رض) نے فرمایا : ہم بنو عبد المطلب سے ہیں اور ہم نے (اپنے دور خلافت میں) اس مال کو حاصل کیا ہے اور یہ قوم اپنے خون میں لتھڑی ہوئی ہے، ان دونوں نے کہا : حضرت معاویہ آپ کی خدمت میں اتنا اتنا مال پیش کرتے ہیں اور صلح کا مطالبہ اور اس کا سوال کرتے ہیں، حضرت حسن نے فرمایا : اس مال کی ادائیگی کا کون ضامن ہے ؟ ان دونوں نے عرض کیا کہ ہم ضامن ہیں، حضرت حسن نے ان سے جس چیز کا بھی سوال کیا، ان دونوں نے کہا : ہم اس کے ضامن ہیں، پھر حضرت حسن نے حضرت معاویہ سے صلح کرلی، حضرت حسن نے کہا : میں نے حضرت ابوبکر (رض) سے سنا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور حضرت حسن بن علی (رض) آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حضرت حسن کی طرف اور آپ فرماتے : میرا یہ بیٹا، سید ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں صلح کرائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٠٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٦٦٢۔ ٣٧٧٣)
علامہ ابو الحسن علی بن خلف (المعروف بابن بطال) مالکی متوفی ٤٤٩ ھ لکھتے ہیں :
اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں تاویل کے ساتھ ایک دوسرے سے جنگ کریں تو وہ دونوں جماعتیں مسلمان ہی ہیں کیونکہ حضرت معاویہ اور حضرت علی کی جماعتیں جو ایک دوسرے سے برسرپیکار تھیں، آپ نے دونوں جماعتوں کو مسلمانوں کی دو بڑی جماعتیں فرمایا اور جس حدیث میں یہ فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان ا اپس میں جنگ کریں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣١) اس سے مراد ہے : جو بغیر تاویل اور اجتہاد کے آپس میں جنگ کر رہے ہوں اور دونوں کو مؤقف باطل ہو (جیسے لسانی عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے کو قتل کرنا) ۔
مؤرخی نے ذکر کیا ہے کہ جب حضرت علی (رض) شہید ہوئے، تو اہل کوفہ نے حضرت حسن (رض) سے بیعت کرلی اور اہل شام نے حضرت معاویہ (رض) سے بیعت کرلی، پھر سرزمین کوفہ پر دونوں کے لشکر ایک دوسرے کے بالمقابل صف آراء ہوئے، پھر حضرت حسن نے اپنے لشکر کی کثرت کو دیکھا، پھر نداء کی : اے معاویہ ! میں نے اللہ کے پاس جو اجر ہے اس کو اختیار کرلیا، اگر یہ حکومت تمہارے لئے ہے تو میرے لئے اس میں مزاحمت کا نا مناسب نہیں ہے اور اگر یہ میرے لئے ہے تب بھی میں نے اس کو تمہارے لئے چھوڑ دیا، حضرت معاویہ کے اصحاب نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت حسن (رض) کے متعلق یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میرا یہ بیٹا سید ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو بری جماعتوں کے درمیان صلح کرادے گا، پس اللہ آپ کو مسلمانوں کی طرف سے نیک جزا دے۔
حضرت حسن (رض) نے کہا : اے معاویہ ! سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے متعلق اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا، دنیا کی طلب کی وجہ سے ان کو فنا نہ کردینا، پھر حضرت حسن نے حکومت حضرت معاویہ کے سپرد کردی اور اس پر ان کی بیعت کرلی کہ جب تک تم اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر قائم رہو گے ہم تمہارے احکام سنیں گے اور تمہاری ا اعت کریں گے، پھر حضرت حسن اور حضرت معاویہ دونوں کوفہ چلے گئے اور حضرت معاویہ نے اہل عراق سے اپنی بیعت لی اور اس سال کا نام جماعت کا سال رکھا گیا، کیونکہ اس سال تمام لوگ مجتمع ہوگئے تھے اور جنگ سے منقطع ہوگئے تھے اور وہ تمام لوگ جنہوں نے اب تک حضرت معاویہ (رض) سے بیعت نہیں کی تھی ان سب نے بیعت لی، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد الہ بن عمر، حضرت محمد بن مسلمہ وغیرہم نے حضرت معاویہ سے بیعت کرلی اور لوگ اس سے بہت خوش ہوئے اور حضرت معاویہ (رض) نے حضرت حسن بن علی (رض) کو تین لاکھ درہم، ایک لاکھ پوشاکیں، تیس غلام اور سو اونٹ پیش کیے، حضرت حسن بن علی (رض) مدینہ چلے گئے اور حضرت معاویہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کردیا اور عبد اللہ بن عامر کو بصرہ کا گورنر مقرر کردیا اور خود دمشق چلے گئے اور اس کا اپنا دار الخلافہ قرار دیا۔ (شرح صحیح بخاری لابن بطال ج ٨ س ٩٧۔ ٩٦، مکتبہ الرشید، ریاض، ١٤٢٠ ھ)
حضرت معاویہ اور ان کے لشکر کا حضرت علی سے جنگ صفین کے باوجود اسلام سے خارج نہ ہونا
اس آیت سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں جنگ کر رہی ہوں اور ان میں سے ایک حق پر ہو اور دوسری باطل پر ہو تو جو جماعت باطل پر ہو، اس سے اس وقت تک جنگ کی جائے جب تک وہ حق کی طرف رجوع نہ کرلے، اس بناء پر یہ سوال ہوتا ہے کہ اس آیت کی روشنی میں جنگ جمل اور جنگ صفین کا کیا حکم ہے ؟ ان میں سے کون سا فریق حق پر تھا اور کون سا فریق باطل پر تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی فریق صریح باطل پر نہیں تھا، دونوں فریقوں کا مؤقف تاویل اور اجتہاد پر مبنی تھا، لیکن حضرت علی (رض) کی تاویل صحیح تھی اور حضرت معاویہ کی تاویل مبنی برخطا اور اس کا فیصلہ اس حدیث سے ہوگیا جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار بن یاسر (رض) سے فرمایا : افسوس ہے ! عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا، عمار ان کو جنت کی طرف بلائے گا اور وہ گروہ اس کو دوزخ کی طرف بلائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٧) اور حضرت عمار بن یاسر کو حضرت امیر معاویہ کے لشکر نے قتل کیا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی (رض) کا مؤقف صحیح اور حق تھا اور حضرت معاویہ (رض) کی تاویل مبنی برخطا تھی، اور ان کا مؤقف باطل محض نہیں تھا، ورنہ حضرت حسن بن علی (رض) ان سیصلح نہ کرتے اور اگر وہ باغی ہوتے تو حضرت علی (رض) ان سے جنگ موقوف نہ کرتے اور جنگ موقوف کرکے تحکیم کو اختیار نہ کرتے اور تادم مرگ جنگ جاری رکھتے، کیونہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
……(الحجرات : ٩)
جو جماعت باغی ہے اس سے اس وقت تک قتال کرتے رہو حتی کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئو۔
اگر حضرت علی (رض) کے نزدیک حضرت معاویہ کی جماعت صراحتہً باغی ہوتی تو وہ ان سے کبھی جنگ موقوف نہ کرتے اور کبھی تحکیم کو قبول نہ کرتے۔
حافظ اسماعیل بن عمرو بن کثیر دمشقی متوفی ٧٧٤ ھ روایت کرتے ہیں :
سفیان بن اللیل بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت حسن بن علی (رض) کوفہ سے مدینہ آئے تو میں نے ان سے کہا : اے مؤمنین کو ذلیل کرنے والے ! ، حضرت حسن نے فرمایا : اس طرح مت کہو کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : دن اور رات کا سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا حتیٰ کہ معاویہ (رض) حکمران بن جائیں گے، پس میں نے جان لیا کہ اللہ کا حکم نافذ ہونے والا ہے۔ پس میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ میرے اور ان کے درمیان مسلمانوں کو خون بہایا جائے۔ (تاریخِ دمشق الکبیر ج ٦٢ ص ٧١۔ رقم الحدیث : ١٣٥٠٢، البدایہ النہایہ ج ص ٦٣٤، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧٠٨)
حارث اعور بیان کرتے ہیں کہ حضر علی (رض) نے صفین سے لوٹ کر فرمایا : اے لوگو ! معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے ان کو گم کردیا تو تم دیکھو گے کہ تمہارے سرتمہارے کندھوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گیں گے جس طرح حنظل کے پھل درخت سے گرتے ہیں۔ (کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧١٢) (البدایہ والنہایہ ج ص ٦٣٤، دار الفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ)
حافظ ابن کثیر امام بیہقی کے حوالے سے لکھتے ہیں :
صفوان بن عمرو نے بیان کیا ہے کہ اہل شام کا لشکر ساتھ ہزار تھا ان میں سے بیس ہزار قتل کیے گئے اور اہل عراق کا لشکر ایک لاکھ بیس ہزار ھا ان میں سے چالیس ہزار شہید کئے گئے اور امام بیہقی نے اس واقعہ کو ” صحیح بخاری “ اور ” صحیح مسلم ’“ کی اس حدیث پر منطق کیا ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک کہ دو عظیم جماعتیں باہم عظیم جنگ نہیں کریں گے، حالانکہ ان دونوں جماعتوں کا دین واحد ہوگا۔ (الحدیث
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧١٢١، صحیح مسل رقم الحدیث : ١٥٧ )
امام بہیقی نے کہا ہے کہ وہ جماعتیں اسلام کا دعویٰ کریں گی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پیشین گوئی جنگ صفین پر منطبق ہوتی ہے۔ (دلائل النبوۃ ج ص ٤١٩۔ ٤١٨، البدایہ النہایہ ٥ س ٣٧٧۔ ٣٧٦)
نیز حافط ابن کثیر لکھتے ہیں :
امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں گے، ایک گروہ ان دونوں سے خارج ہوجائے گا (یعنی خوارج) اور دونوں گروہوں میں سے جو گروہ حق کے زیادہ قریب ہوگا وہ ان خوارج کو قتل کرے گا۔ (مسند احمد ج ص ٧٩، سنن سعید ابن منصور رقم الحدیث : ٢٩٧٢)
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل ہے، کیونکہ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی ہے اسی طرح واقع ہوا، اور اس حدیث میں آپ نے اہل شام اور اہل عراق کے دونوں گروہوں کے اوپر اسلام کا حکم لگایا ہے۔ اس طرح نہیں جس طرح رافضی فرقہ کا زعم باطل ہے اور وہ اہل شام کو کافر قرار دیتے ہیں اور اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ حضرت علی (رض) کے اصحاب حق کے زیادہ قریب تھے اور یہی اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے کہ حضرت علی (رض) حق پر تھے اور حضرت معاویہ مجتہد تھے اور ان کو اجتہاد میں خطا لاحق ہوئی اور ان کو بھی انشاء اللہ اجر ملے گا اور حضرت علی امام برحق ہیں اور ان کو دو اجر ملیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے :
حضرت عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب حاکم اجتہاد کرے اور اس کی رائے درست ہو تو اس کو دو اجر ملتے ہیں اور جب اس کے اجتہاد میں خطاء ہو تو اس کو ایک اجر ملتا ہے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٣٥٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧١٦، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٥٧٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣١٤) (البدایہ النہایہ ج ٥ س ٣٨٢۔ ٣٨١، دار الفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ)
حضرت عمار (رض) نے کہا : یہ نہ کہو کہ اہل شام نے کفر کیا بلکہ یہ کہو انہوں نے فسق اور ظلم کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧، رقم الحدیث : ٣٧٨٣١، بیروت)
حضرت علی کے حضرت معاویہ کے متعلق دعائیہ کلمات اور اس سلسلے میں دیگر احادیث
حارث بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) صفین سے واپس آئے تو آپ نے ایسی باتیں فرمائیں جو اس سے پہلے نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے فرمایا : اے لوگو ! حضرت معاویہ کی امارت کو ناپسند مت کرو، اللہ کی قسم ! اگر تم نے ان کو گم کردیا تو تمہارے کندھوں سے تمہارے سر حنظل کی طرح گرنے لگیں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٧٨٤٣، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧٠٤، تاریخِ دمشق ج ٢٦ ص ١٠٦۔ ١٠٥)
عبد اللہ بن عروہ نے کہا : مجھے اس شخص نے خبر دی جو جنگ صفین میں حاضر تھا کہ حضرت علی (رض) کسی رات باہر نکلے، آپ نے اہل شام کی طرف دیکھ کر یہ دعا کی : اے اللہ ! میرے مغفرت فرما اور ان کی مغفرت فرمایا، پھر حضرت عمار لائے گئے تو آپ نے ان کے لئے بھی یہی دعا کی۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٧٨٥٤ )
یزید بن اصم بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے جنگ صفین کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ہمارے مقتول اور ان کے مقتول جنت میں ہیں اور یہ معاملہ میرے اور معاویہ کی طرف سونب دیا جائے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٣٧٨٦٩، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧٠٠، تاریخِ دمشق الکبیر ج ٢٦ ص ٩٧، بیروت)
نعیم بن ابی ہند اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں، میں صفین میں حضرت علی (رض) کے ساتھ تھا تو نماز کا وقت آگیا تو ہم نے بھی اذان دی اور اہل شام نے بھی اذان دی، ہم نے بھی اقامت کہی اور انہوں نے بھی اقامت کہی، پھر ہم نے نماز پڑھی اور انہوں نے بھی نماز پڑھی۔ پھر حضرت علی (رض) عہن نے مڑ کر دیکھتا تو ہمار درمیان بھی مقتولین تھے اور ان کے درمیان بھی مقتولین تھے۔ جب حضرت علی نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا : آپ ہمارے مقتولین اور ان کے مقتولین کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جو ہم میں سے اور ان میں سے اللہ کی رضا اور آخرت کے لئے لڑتا ہوا قتل کیا گیا وہ جنت میں ہے۔ (سنن سعید بن منصور ج ٢ ص ٣٤٥۔ ٣٤٤، رقم الحدیث : ٢٩٦٨، دار الکتب العلمیہ، بیروت، کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٧٠٧)
حافط ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ اور حضرت اسماء، حضرت ابوبکر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر، اسود اور مقام ِ ابراہیم کے درمیان ہاتھ بلند کرکے دعا کر رہے تھے : اے اللہ ! معاویہ کے بدن کو دو خ کیا آگ پر حرام کردے، اسے اللہ ! دوزخ کی آگ کو معاویہ پر حرام کردے۔ (تاریخِ دمشق الکبیر ج ٢٦ ص ٦٦۔ ٦٥۔ رقم الحدیث : ١٣٤٨٤، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابھی تمہارے سامنے اہل سنت سے ایک شخص آئے گا پھر حضرت معاویہ آئے۔ (تاریخِ دمشق ج ٦٢ ص ٧٠۔ رقم الحدیث : ١٣٤٩٩)
حضرت ابو مسعود (رض) نے کہا : حضرت معاویہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی اور برادر نسبتی ہیں اور وحی کے کاتب اور اس پر امین ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : میرے لئے میرے اصحاب ور میرے سسرال والوں کو چھوڑ دو (ان کو برا نہ کہو) پس جس نے ان کو برا کہا اس پر اللہ کی لعنت ہو اور فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی۔ (تاریخِ دمشق الکبیر ج ٦٢ ص ١٤٣، رقم الحدیث : ١٣٥٣٧)
حضرت رویم (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی و کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ ! مجھ سے کشتی لڑئیے، حضرت معاویہ نے کھڑے ہو کر کہا : میں تم سے کشتی لڑوں گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : معاویہ ہرگز کبھی مغلوب نہیں ہوگا، پھر حضرت معاویہ نے اس اعرابی کو پچھاڑ دیا، جنگ صفین کے دن حضرت علی (رض) نے کہا : اگر مجھ سے اس حدیث کا پہلے ذکر کیا جاتا تو میں معاویہ سے جنگ نہ کرتا۔ (تاریخِ دمشق ج ٦٢ ص ٦١۔ رقم الحدیث : ١٣٤٦٥ )
حضرت رویم (رض) بیان کرت ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک اعرابی آیا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ ! مجھ سے کشتی لڑئیے، حضرت معاویہ نے کھڑ ہو کر کہا : میں تم سے کشتی لڑوں گا، نبی نے فرمایا : معاویہ ہرگز کبھی مغلوب نہیں ہوگا، پھر حضرت معاویہ نے اس اعرابی کو پچھاڑ دیا، جنگ صفین کے دن حضرت علی (رض) نے کہا : اگر مجھ سے اس حدیث کا پہلے ذکر کیا جاتا تو میں معاویہ سے جنگ نہ کرتا۔ (تاریخِ دمشق ج ٢٦ ص ٦١۔ رقم الحدیث : ١٣٤٦٥ )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں حضرت معاویہ کے لئے جو دعا فرمائی اسی کا اثر تھا کہ حضرت علی (رض) اسد اللہ الغالب ہونے کے باوجود حضرت معاویہ کو مغلوب نہ کرسکے۔
حضرت علی کے قصاص عثمان نہ لینے کی وجوہ
حضرت معاویہ کا حضرت علی سے یہ مطالبہ تھا کہ وہ حضرت عثمان (رض) کے قاتلوں سے قصاص لیں اور حضرت علی اخیر وقت تک قاتلین ِ عثمان سے قصاص نہیں لے سکے، اس کی وجہ سے یہ ہے کہ قصاص اس وقت واجب ہوتا ہے جب اس کا شرعی ثبوت ہوا اور شرعی ثبوت یہ ہے کہ کوئی شخص حضرت عثمان کے قتل کا اعتراف کرتا یا اس پر دو گواہ قائم ہوتے کہ فلاں شخص نے حضرت عثمان (رض) کو قتل کیا ہے، لیکن حضرت علی کی شہادت تک یہ ثبوت مہیا نہیں ہوسکا، پھر حضرت علی (رض) کیے قصاص لیتے ؟ اوّل تو حضرت عچمان (رض) کے قاتل مجہول اور نامعلوم تھے، ثانیاً : حضرت علی فرماتے تھے : مجھے سانس تو لینے دو ، فتنے ختم ہوجائیں اور امن وامان قائم ہوجائے پھر میں تفتیش اور تحقیق کروں کہ قاتل فی الواقع کون ہے کیونکہ اندھا قصاص تو نہیں لیا جاسکت اور فی الفور قصاص لینا واجب نہیں ہے اور قصٓس لینے میں تاخیر جائز ہے، لیکن ان پر پے در پے ایسی جنگیں مسلط کردی گئیں کہ ان کو امن اور سکون کے ساتھ تفتیش اور تحقیق کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔
جنگ جمل وقوع پذیر ہونے کی وجہ
حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) کے ساتھ جو جنگ جمل برپا ہوئی وہ ایک اتفاقی حادثہ تھا، جو طرفین میں غلط فہمی کی بناء پر وقوع پذیر ہوا، اس کو پوری تفصیل کے ساتھ ہم الاحزاب : ٣٣ میں لکھ چکے ہیں اس کو آپ ” بتیان القرآن “ ج ٩ ص ٤٣٦۔ ٤٢٧ ملاحظہ فرمائیں۔
بصرہ میں حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے درمیان صلح ہوچکی تھیں اور فریقین اس بات پر متفق ہوچکے تھے کہ حضرت عثمان کے قاتلوں کو تلاش کرکے ان سے قصاص لیا جائے گا، قاتلینِ عثمان اور ان کے حامیوں میں سے جو لوگ حضرت علی (رض) کے ساتھ تھے ان کو پریشانی ہوئی کہ اگر یہ دونوں فریق متحدہ ہوگئے تو پھر ان کی خیر نہیں ہے، سو انہوں نے سازش کی اور جس دنصلح ہوء تھی اس کے بعد رات کے اندھیرے میں جا کر حضرت عائشہ کیپڑائو پر حملہ کردی اور چلا کر کہا کہ علی نے عہد شکنی کی اور دوسروں نے جا کر حضرت علی کے لشکر میں حملہ کردیا اور چلا کر کہا کہ طلحہ اور زبیر نے عہد شکنی کی اور ان کی سازش کامیاب ہوگئی اور فریقین میں جنگ چھڑ گئی۔
حضرت علی کے دل میں حضرت عائشہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے احترام کے متعلق احادیث اور آثار
اب ہم متعدد احادیث اور آثار کے ذریعہ یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جنگ جمل کے باوجود حضرت علی (رض) کے دل میں ام المؤمنین حضرت عائشہ (رض) اور حضرت زبیر اور حضرت طلحہ (رض) کی بہت عزت اور بہت احترام تھا۔
حافط ابوبکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) سے اہل جمل کے متعلق سوال کیا گیا : کیا وہ مشرک ہیں ؟ فرمایا : نہیں، وہ شرک سے بھاگ چکے ہیں۔ کہا گیا : کیا وہ منافق ہیں ؟ فرمایا : منافق اللہ کا بہت کم ذکر کرتے ہیں، کہا گیا : پھر وہ کیا ہیں ؟ فرمایا : وہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ ص ٥٣٥۔ رقم الحدیث : ٣٧٧٥٢، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٦ ھ)
ابو جعفر بیان کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے دن حضرت علی اور ان کے اصحاب حضرت زبیر اور حضرت طلحہ (رض) پر رو رہے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ س ٥٣٦، رقم الحدیث : ٣٧٧٦٣، تاریخِ دمشق ج ٢٧ س ٨١)
طلحہ بن مصرف بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے حضرت طلحہ کے چہرے سے مٹی صاف کی، پھر حضرت حسن کی طرف مڑ کر کہا : کاش ! میں آج سے پہلے مرچکا ہوتا۔ (مصنف ابنی ابی شیبہ ج ٧ س ٥٣٩۔ رقم الحدیث : ٣٧٧٨٥، تاریخِ دمشق ج ٢٧ ص ٨١)
حبیب بن ابی ثابت بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے جنگ جمل کے دن فرمایا : اے اللہ ! میں نے اس کا ارادہ نہیں کیا تھا، اے اللہ ! میں نے اس کا رادہ نہیں کیا تھا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ س ٥٤١، رقم الحدیث : ٣٧٩٠)
عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : کاش میں درخت کی ایک ترشاخ ہوتی اور میں نے یہ سفر نہ کیا ہوتا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ س ٥٤٣۔ رقم الحدیث : ٣٧٨٠٧)
ربعی بن حراش بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے کہا کہ مجھے توقع ہے کہ میں اور طلحہ اور زبیر اس آیت کے مصداق ہوں گے :
……(الحجر : ٤٧ )
ان کے دلوں میں جو (ایک دوسرے کے خلاف) رنجش تھی، ہم اس کو نکال دیں گے وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ ص ٥٤٤۔ رقم الحدیث : ٣٧٨١٠، تاریخِ دمشق ج ٢٠ ص ٢٠٩)
ابو صالح بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے جنگ جمل کے دن کہا : کاش ! میں اس واقعہ سے بیس سال پہلچے مرچکا ہوتا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ٧ س ٥٤٤۔ رقم الحدیث : ٣٧٨١٣)
حافط ابن القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
مسلم بن یزید بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی نے اہل بصرہ سے جنگ کی توابین جر موز آپ سے اجازت لے کر ا ایا اور کہا : میں نے زبیر قتل کردیا، حضرت علی نے فرمایا : تو نے صفیہ کے بیٹے کو قتل کردیا، تجھے دوزخ کی بشارت ہے، ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حواری زبیر تھے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٢٠ ص ٣٠٧، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)
عبید اللہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ جنگ جمل کے ان ایک شخص نے آکر کہا : میں نے طلحہ کو قتل کیا ہے، حضرت علی نے سن کر فرمایا : تمہیں دوزخ کی بشارت ہے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٢٧ ص ٨١، بیروت، ١٤٢١ ھ)
حافظ اسماعیل بن عمرو بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :
اس جنگ میں دونوں طرف سے دس ہزار مسلمان قتل کیے گئے، ٥ ہزار ایک طرف سے اور ٥ ہزار دوسری طرف سے، حضرت عائشہ (رض) کو مسلمانوں نے حصار میں لیا ہوا تھا، آپ ایک اونٹ پر سوار تھین اور ھودج میں بیٹھی ہوئیں تھیں، جب یہ خطرہ ہوا کہ آپ تیروں کی زد میں آرہی ہیں تو حضرت علی کے حکم سے اس اونٹ کو کونچیں کاٹ دی گئیں، پھر جنگ رک گئی۔ حضرت علی نے حکم دیا : کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، نہ کسی گرے ہوئے یا زخمی پر ہاتھ اٹھایا جائے۔ حضرت علی نے مقتولین کے درمیان سے حضرت عائشہ کا ھودج (پالان) اٹھانے کا حکم دیا اور محمد بن ابی بکر اور عمار کا حکم دیا کہ وہ ام المومنین کے لیے خیمہ لگا دیں، محمد ابن ابی بکر نے آکر پوچھا : آپ کو کوئی زخم تو نہیں ا ایا ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، پہلے عمار نے آکر آپ کو اسلام کیا اور کہا کے اے اماں جان ! آپ کو سلام ہو، پھر امیر المؤمنین حضرت علی (رض) نے آکر آپ کو سلام کی اور آپ کی خیریت دریافت کی، اور کہا : اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، پھر لگا تار مسلمان آکر آپ کو سلام کرتے رہے، رات کو آپ اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کے ساتھ عبد اللہ بن خلف اکزاعی کے گھر تشریف لے گئیں، آپ تین دن بصرہ میں ٹھہری تھیں، اس کے بعد محمد بن ابی بکر کے ساتھ مدینہ منورہ چلی گئیں، حضرت علی بھی بصرہ کے باہر تین دن تک ٹھہرے پھر آپ نے فریقین کے تمام مقتولین کی نماز جنازہ پڑھائی اور یہ اعلان کردیا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے اصحاب میں سے کسی کا سامان لوٹا نہیں جائے گا۔ (البدایہ ولنہایہ ج ٥ ص ٣٤١۔ ٣٤٠، دار الفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ، تاریخ ابن خلدون ج ٢ ص ٥٠٤، دار النفائس، ریاض)
حضرت عائشہ ام المؤمنین حج کے لئے مکہ مکرمہ گئی ہوئی تھیں وہاں آپ کو خبر ملی تھی کہ باغیوں نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کردیا ہے، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے آپ کو بتایا کہ انہیں اور ان کے ساتھی مسلمانوں کو بھی اپنی جانوں کا خطرہ ہے اور ان سے یہ توقع نہیں ہے کہ یہ آپ کی عزت اور احترام کا لحاظ رکھیں گے، آپ ہمارے ساتھ بصرہچلیں وہاں ہمارے حامی بہت مسلمان ہیں، آپ ان کے اصرار سے بصرہ چلی گئیں، ادھر باغیوں کو اس علم کا ہوا تو انہوں نے حضرت علی (رض) سے کہا کہ حضرت طلحہ اور حضرت زبیر آپ کے خلاف بغاوت کرنے کے لئے بصرہ میں جمع ہو رہے ہیں، آپ اپنے حامیوں کے ساتھ بصرہ چلیں اور ان کا قلع قمع کردیں، بصرہ میں فریقین کے درمیان تین دن تک مذاکرات ہوتے رہے اور اس پر اتفاق ہوگیا کہ حضرت عثمان (رض) کا قصاص لیا جائے گا، باغیوں کو خطرہ ہوا کہ اب ان کی خیر نہیں ہے اور قصاص عثمان میں ان سب کو قتل کردیا جائے گا، انہوں نے سازش کرکے ایک رات دونوں فریقوں پر حملہ کردیا، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کے حامیوں میں یہ نعرہ لگایا کہ علی نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور حضرت علی کے حامیوں میں یہ نداء کی کہ طلحہ اور زبیر نے دھوکا دیا اور یوں غلط فہمی میں جنگ چھڑ گئی اور طرفین سے دس ہزار مسلمان شہید ہوگئے۔
جنگ جملہ اور جنگ صفین کے متعلق حرفِ آخر
میں جنگ جمل اور جنگ صفین کی یہ دل خراش داستان نہ لکھتا لیکن میں نے دیکھا کہ ان جنگوں کے حوالے سے مسلمانوں میں بہت بےچینی ہے اور عام لوگوں سے یہ سنا کہ صحابہ کرام بھی حصول اقتدار کے لئے آپس میں لڑتے رہے تھے تو میں نے سوچا کہ میں اختصار کے ساتھ حقیقتِ حال کو واضح کروں کہ جنگ جمل قاتلینِ عثمان کی سازش سے غلط فہمی کی بناء پر ظہور میں آئی اور جنگ صفین حضرت معاویہ (رض) کی اجتہادی خطاء کے نتیجہ میں ظہور میں آئی، وہ سمجھتے تھے کہ میں حضرت عثمان کا ولی ہوں اور مقتول کے ولی کو قصاص لینے کے لئے لڑنے کا حق ہے، قرآن مجید میں ہے :
……(بنی اسرائیل : ٣٣) جس کو ظلما قتل کیا گیا ہم نے اس کے ولی کو قصاص لینے پر غلبہ دے دیا ہے۔
اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ جب قصاص شرعی ثبوت کے بعد حاکم وقت قصاص لینے کا شرعی فیصلہ کردے تو اس کا علی قاتل سے قصاص لے سکتا ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ قاتل قتل کا اعتراف کرے نہ اس کے قتل کرنے پر گواہ ہوں اور ولی مقتول اندھا قصاص لینے کے لئے حاکم پر دبائو ڈال کر اس سے جنگ کرنا شروع کردے۔ بہرحال یہ دونوں مجتہد تھے، حضرت علی کا اجتہاد صحیح اور برحق تھا اور حضرت معاویہ کا اجتہادی پر ایک اجر ملے گا اور حضرت علی (رض) کا اجتہاد صائب پر دو اجر ملیں گے اور جہاں تک دیگر فضائل اور اسلامی خدمات کا تعلق ہے تو حضرت علی (رض) سابقین اولین میں سے ہیں وہ اس معاملہ میں حضرت معاویہ سے بہت آگے ہیں بلکہ دونوں کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔
جنگ جمل اور جنگ صفین پر محمود عباسی ” خلافتِ معاویہ و یزید، تحقیق مزید “ اور ” حقیت خلافت و ملوکیت “ لکھیں اور ان میں حضرت علی (رض) اور اہل بیت کی بہت تنقیص بلکہ توہین کی، پھر سید الاعلیٰ مودودی نے ” خلافت و ملوکیت “ کے نام سے کتاب لکھی اور اس میں حضرت عثمان (رض) اور حضرت معاویہ (رض) کی بہت تنقیس بلک توہین کی، علاوہ ازیں یہ بہت صخیم کتابیں ہیں، میں چاہتا تھا کہ میں اس موضوع پر دلائل اور حوالہ جات کے ساتھ اختصار سے ایک مقالہ لکھوں، جس میں فریقین کا صحیح مؤقف بھی سامنے آئے اور جمہور علماء اہل سنت کا نظریہ بھی اور اس میں احادیث سے حضرت علی (رض) اور حضرت معاویہ (رض) دونوں کا احترام اور وقار بیان کیا جائے۔ الحمد اللہ رب العلمین ! الحجرات : ٩ کی تفسیر میں میری دیرنہ خواہش پوری ہوئی، اگر میری اس تحریر کو پڑھ کر کوئی ایک شخص بھی حضرت علی یا حضرت معاویہ میں سے کسی ایک کی بھی تنقیص کرنے سے باز آگیا تو میں سمجھوں گا میری محنت ٹھکانے لگی۔ ………
حضرت عثمان (رض) کے مشہور قاتلین
امام ابو جعفر محمد بن جریرطبری متوفی ٣١٠ ھ لکھتے ہیں :
عبد الرحمان نے بیان کیا کہ محمد بن ابی بکر دیوار پھاند کر حضرت عثمان کے مکان میں داخ (رح) ہوئے، ان کے ساتھ کنانہ بن بشر، سودا ان بن حمران اور حضرت عمرو بن الحق بھی تھے اس وقت حضرت عثمان (رض) قرآن شریف سے سورة البقرہ پڑھ رہے تھے، محمد بن ابی بکر نے حضرت عثمان کی ڈاڑھی پکڑ کر کہا : اے بڈھے ! تجھے اللہ نے رسوا کردیا، حضرت عثمان نے کہا : تم میری ڈاڑھی چھوڑ دو ، اگر تمہارے باپ ہوتے تو وہ اس ڈاڑھی کو پنہ پکڑتے، محمد بن ابوبکر نے کہا : اگر میرا باپ زندہ ہوتا تو وہ تمہارے افعال سے متنفر ہوجاتا، محمد بن ابی بکر کے ہاتھ میں ایک چورے پھل کا تیر تھا وہ انہوں نے حضرت عثمان پیشانی میں گھونپ دیا، کنانہ بن بشر کے ہاتھ میں ایسے کئی تیر تھے وہ اس نے آپ کے کان کی جر میں گھونپ دئیے اور وہ تیر آپ کے حلق کے آرپار ہوگئے، پھر اس نے اپنی تلوار سے آپ کو قتل کردیا۔ ابو عون نے بیا کہ کنانہ بن بشر نے آپ کی پیشانی اور سر پر لوہے کا دنڈا مارا اور سودان بن حمران نے آپ کی پیشانی پر وار کرکے آپ کو قتل کردیا۔ عبد الرحمان بن الحارچ نے بیان کیا کہ کنانہ بن بشر کے حملہ کے بعد ابھی آپ میں رمق حیات تھی، پھر حضرت عمرو بن الحق آپ کے سینہ پر چڑھ بیٹھے اور آپ کے سینہ پر نوار کیے بالآخر آپ کو شہید کردیا۔ حملہ کے دوران آپ کا خون قرآن مجید کے اوراق پر گرا۔ اٹھارہ ذوالحجہ چھتیس ہجری کو جمعہ کے دن آپ شہید ہوئے (حضرت ابوبکر نے وفات سے چند سال پہلے اسماء بنت عمیس سے شادی کی تھی، ان سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے، حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد ان سے حضرت علی نے شادی کرلی تھی اور محمد بن ابوبکر، حضرت علی کے پروردہ تھے۔ الاستیعاب ج ٣ س ٤٢٢ ) ۔ (تاریخ الامم و الملوک ج ؍ ص ٤٢٤، موسستہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت)
ان مؤرخین نے بھی اسی طرح لکھا ہے : امام ابن سعد متوفی ٢٣٠ ھ (الطبقات الکبریٰ ج ٣ س ٥٥۔ ٥٤ ) ، امام ابن الاثیر متوفی ٦٣٠ ھ (الکامل فی التاریخ ج ٣ س ٩٠) ، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ (البدایہ والنہائی ج ٥ س ٢٧٣۔ ٢٧٢)
حضرت عثمان کے قاتلین کا دنیا میں انجام
سودان بن حمران کو اسی وقت حضرت عثمان کے غلاموں نے پکڑ کر قتل کردیا تھا۔ (الکامل فی التاریخ ج ٣ ص ٩٠)
کنانہ بن بشر کو ٣٦ ھ میں حضرت معاویہ کے اس لشکر نے قتل کردیا تھا جس کو انہوں نے مصر کے لئے تیار کیا تھا۔ (تاریخِ دمشق ج ٥٣ ص ١٩٨)
مالک بن الحارچ الاشتر (یہ بھی قاتلین میں سے تھا) کو حضرت عی نے مصر کو گورنر مقرر کیا تھا، ٣٨ ھ میں کسی نے اس کو زہر کھلا دیا اور یہ مرگیا۔ اس کے بعد حضرت علی نے محمد ابن ابوبکر کو مصر کو گورنر مقرر کیا، پھر ٣٨ ھ میں یہ بھی حضرت عمرو بن العاص کے لشکر سے شکست کھا کر قتل کردیا گیا، پھر اس کو گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دیا گیا۔ (الاستیعاب ج ٣ س ٤٢٣، تاریخ الامم والملوک ج ٤ س ٧٩، تاریخ ابن خلدون ج ٢ ص ٥٢٢، دار النفائس، ریاض، ١٤١٩ ھ)
سید مودودی لکھتے ہیں :
حضرت علی نے مالک بن الحارث الاشتر اور محمد بن ابی بکر کو گورنری کے عہدے تک دئیے اور آں حالیکہ قتل عثمان میں ان دونوں صاحبوں کا جو حصہ تھا وہ سب کو معلوم ہے، حضرت علی کے پورے نظام خلافت میں ہم کو صرف یہی ایک ایسا کام نظر آتا ہے جس کو غلط کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ (خلافت و ملوکیت ص ١٤٦ )
علامہ ابن عبد البرمال کی متوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں :
حضرت عمرو بن الحق (رض) صلح حدیبیہ کے بعد اسلام لائے اور ہجرت کی، بعد میں انہوں نے کوفہ کو مسکن بنا لیا، انہوں نے جنگ جمل اور جنگ صفین میں حضرت علی کا ساتھ دیا، زیاد کے زمانہ میں یہ موصل چلے گئے اور غار میں جا کر چھپ گئے، وہاں ان کو سانپ نے ڈس لیا، زیاد کے عامل نے ان کا سر کاٹ کر زیاد کے پاس بھیج دیا، اس نے وہ سر حضرت معاویہ کے پاس بھیج دیا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، یہ پچاس ہجری کا واقعہ ہے۔ (الاستیعاب ج ٣ س ٢٥٨، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)
علامہ ابن خلدون متوفی ٨٠٨ ھ نے لکھا ہے : اصل قاتل کنانہ بن بشر تھا اور حضرت عمرو بن الحق نے حضرت عثمان (رض) نیزوں کے متعدد وار کیے تھے۔ (تاریخِ ابن خلدون ج ٢ س ٤٩٠)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 49 الحجرات آیت نمبر 9