وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيۡرَةً تَاۡخُذُوۡنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمۡ هٰذِهٖ وَكَفَّ اَيۡدِىَ النَّاسِ عَنۡكُمۡۚ وَلِتَكُوۡنَ اٰيَةً لِّلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَيَهۡدِيَكُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًاۙ ۞- سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 20
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِيۡرَةً تَاۡخُذُوۡنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمۡ هٰذِهٖ وَكَفَّ اَيۡدِىَ النَّاسِ عَنۡكُمۡۚ وَلِتَكُوۡنَ اٰيَةً لِّلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَيَهۡدِيَكُمۡ صِرَاطًا مُّسۡتَقِيۡمًاۙ ۞
ترجمہ:
اور اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ فرمالیا ہے جن کو تم حاصل کرو گے، پسیہ نعمت تو تم کو جلدی عطا فرمادی اور لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے روک لی اور تاکہ یہ (نعمت) مومنوں کے لئے نشانی ہوجائے، اور اللہ تمہیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے
الفتح : ٢٠ میں فرمایا : اور اللہ نے تم سے بہت سے غنیمتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کو تم حاصل کرو گے، پس یہ نعمت تو تم کو جلدی عطا فرمادی۔
حضرت ابن عباس اور مجاہد نے فرمایا : اس سے مراد وہ غنیمتیں ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو جہاد کے ذریعہ حاصل ہوتی رہیں گی۔ اور جس نعمت کے متعلق فرمایا ہے : یہ تو تم کو جلدی عطا فرمادی، مجاہد نے کہا : اس سے مراد خیبر کی فتح ہے اور حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔
نیز فرمایا : اور لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے روک لیا۔ یعنی صلح حدیبیہ کے ذریعہ اہل مکہ کے حملے سے تم کو بچا لیا، اور قتادہ نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم مدینہ سے حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے تھے اور پھر خیبر کی طرف روانہ ہوئے تھے تو تمہارے پس پشت یہودیوں کے حملوں سے تم کو محفوظ رکھا اور حضرت ابن عباس (رض) عنما نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ عینیہ میں حصن الفزاری اور عوف بن مالک النضری اور ان کے اصحاب جب اہل خیبر کی مدد کے لئے خیبر پہنچے تو اللہ عزوجل نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور ان کو مسلمانوں پر حملہ کرنے سے روک دیا۔
نیز فرمایا : اور تاکہ یہ (نعمت) تمہارے لئے نشانی ہوجائے، یعنی کافروں کی شکست اور مسلمانوں کا کافروں کے حملوں سے محفوظ رہنا، مسلمانوں کے لئے اللہ کی طرف سے نشانی ہوجائے، تاکہ ان کو یقین ہوجائے کہ ان کے حاضر اور غائب اللہ ان کی حفاظت فرماتا ہے اور تمہاری ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 20