وَهُوَ الَّذِىۡ كَفَّ اَيۡدِيَهُمۡ عَنۡكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ عَنۡهُمۡ بِبَطۡنِ مَكَّةَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَكُمۡ عَلَيۡهِمۡؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرًا ۞- سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 24
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَهُوَ الَّذِىۡ كَفَّ اَيۡدِيَهُمۡ عَنۡكُمۡ وَاَيۡدِيَكُمۡ عَنۡهُمۡ بِبَطۡنِ مَكَّةَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَكُمۡ عَلَيۡهِمۡؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرًا ۞
ترجمہ:
وہی جس نے تم کو ان پر کامیاب کرنے کے بعد مکہ کے وسط میں ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا اور اور اللہ تمہارے تمام کاموں کو خوب دیکھنے والا ہے
اللہ تعالیٰ کا حدیبیہ میں کفار کو مسلمانوں پر حملہ کرنے سے روکنا
الفتح : 24 میں فرمایا : وہی جس نے تم کو ان پر کامیاب کرنے کے بعد مکہ کے وسط میں ان کے ہاتھوں سے تم کو روک دیا۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل مکہ کے اسی (٨٠) مسلح افراد جبل تنعیم سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب پر اترے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب پر حملہ کرنا چاہتے تھے، ہم نے ان کو پکڑ لیا، پھر صلح کرکے ان کو چھوڑ دیا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٠٨)
حضرت عبد اللہ بن مغفل المزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس درخت کی جر میں تھے جس کا قرآن میں ذکر ہے، ہم اسی حال میں تھے کہ تیس مسلح جوان ہم پر حملہ آور ہوئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف دعا، ضرر کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی سلب کرلی۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : آیا تم کسی معاہد کی بناء پر آئے ہو یا تم کو کسی نے یہ ان پر امان دی تھی ؟ انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! نہیں۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں واپس جانے دیا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : وہی ہے جس نے تم کو ان پر کامیاب کرنے کے بعد مکہ کے وسط میں ان کے ہاتھوں سے روک دیا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٢٢٦٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٦٢٨٨)
ابن ہشام نے وکیع سے روایت کیا ہے کہ ستر (٧٠) یا اسی (٨٠) کے لگ بھگ قریش مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے آئے، مسلمانوں کو پتا چل گیا تو مسلمانوں نے ان سب کو گرفتار کرلیا اور اس دوران قریش کی طرف سے لوگ صلح پر گفتگو کرنے کے لئے آئے آ اور جا رہے تھے، تو رسول الہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چھوڑ دیا اور ان ہی لوگوں کا نا ” العتقائ “ یا ” الطلقائ “ رکھا گیا تھا، حضرت معاویہ (رض) اور ان کے والد ابو سفیان (رض) بھی ان ہی میں سے تھے۔
اور مجاہد نے بیان کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمرہ کرنے کے لئے آئے تو آپ کے اصحاب نے حرم میں کچھ لوگوں کو غافل یا کر پکڑ لیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو چھوڑ دیا اور اس آیت میں جو فرمایا ہے :” وہی جس نے تم کو ان پر کامیاب کرنے کے بعد بطن مکہ میں ان کے ہاتھوں سے تم کو روک دیا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا “ اس سے یہی واقعہ مراد ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں متعدد روعایت ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ آیت حدیبیہ کے واقعہ کے متعلق نازل ہوئی ہے جیسا کہ ہم نے شروع میں امام ترمذی کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 24