أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَّيُعَذِّبَ الۡمُنٰفِقِيۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتِ وَالۡمُشۡرِكِيۡنَ وَ الۡمُشۡرِكٰتِ الظَّآنِّيۡنَ بِاللّٰهِ ظَنَّ السَّوۡءِ‌ؕ عَلَيۡهِمۡ دَآئِرَةُ السَّوۡءِ‌ ۚ وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ وَلَعَنَهُمۡ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَهَنَّمَؕ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا ۞

ترجمہ:

اور تاکہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اللہ کے متعلق گرا گمان رکھتے ہیں، ان ہی پر بری گردش ہے، اور اللہ نے ان پر غضب فرمایا اور لعنت فرمائی اور ان کے لئے دوزخ کو تیار کیا اور وہ کیسا برا ٹھکانا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تاکہ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اللہ کے متعلق گرا گمان رکھتے ہیں، ان ہی پر بری گردش ہے، اور اللہ نے ان پر غضب فرمایا اور لعنت فرمائی اور ان کے لئے دوزخ کو تیار کیا اور وہ کیسا برا ٹھکانا ہے۔ اور آسمانوں اور زمینوں کے لشکر اللہ ہی کی ملک میں ہیں اور اللہ بہت غالب بےحد حکمت والا ہے۔ بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، ثواب کی بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور تم اس کے رسول کی تعظیم اور توقیر کرو اور صبح اور شام اللہ کی تسبیح پڑھو۔ بیشک جو لوگ آپ کی بیعت کرتے ہیں اور درحقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ہے ان کے ہاتھوں پر، سو جس نے یہ بیعت توڑی تو اس کا وبال صرف اسی پر وہو گا اور جس نے اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کیا تو عنقریب اللہ اسے بہت اجر دے گا۔ (الفتح : ١٠۔ ٦)

منافقوں اور مشرکوں کی ضرور رسانی اور ان کے عذاب کی نوعیت کا فرق

الفتح : ٦ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے منافقوں کا ذکر فرمایا ہے، اس کے بعد مشرکوں کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مؤمنین کے حق میں منافقین کا ضرر مشرکین سے زیادہ ہے، کیونکہ مشرک تو اپنے کفر اور شرک کا اظہار کرکے مسلمانوں کے کھلا ہوا دشمن ہے اور مسلمان اس کے ضرر سے بچائو کی تدبیر کرلیتے ہیں، اس کے برخلاف منافق مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور مسلمانوں پر اپنے مومن ہونے کا اظہار کرتا ہے اور مسلمان اپنے راز کی باتیں اسے بتادیتا ہے اور وہ ان باتوں کو مشرکین تک پہنچا دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ منافقوں اور مشرکوں کو عذاب دے گا، منافقوں کو عذاب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح اور سربلندی عطا فرمائی، جس سے منافقوں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ اس فکر اور تشویش میں مبتلا ہوگئے کہ اب مسلمان غالب ہوگئے اور ہم نے جو ان کی ناکامی کا خواب دیکھا تھا وہ سچا نہ ہوا اور مشرکوں کو عذاب یہ تھا کہ بعد کے غزوات میں وہ قتل کیے گئے، انکو قید کیا گیا اور ان کو غلام بنا لیا گیا۔

اور اس آیت میں فرمایا :” جو اللہ کے متعلق برا گمان رکھتے تھے “ منافقوں کا برا گمان یہ تھا کہ اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ واپس نہیں جاسکیں گے اور نہ آپ کے ان اصحاب میں سے کوئی واپس آسکے گا جو حدیبیہ کی طرف گئے تھے اور مشرکین اب مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، انہوں نے اللہ کے رسول اور ان کے اصحاب کے ساتھ برا گمان کیا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کا وہ برا گمان خود ان پر الٹ دیا کہ مشرکین دنیا میں قتل کیے گئے اور قید کئے گئے اور آخرت میں ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور منافقوں کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی آرزوئیں خاک میں مل گئیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح آیت نمبر 6