کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 20 رکوع 3 سورہ النمل آیت نمبر 83 تا 93
وَ یَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ یُّكَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ(۸۳)
اور جس دن اٹھائیں گے ہم ہر گروہ میں سے ایک فوج جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتی ہے (ف۱۴۱) تو اُن کے اگلے روکے جائیں گے کہ پچھلے ان سے آملیں
(ف141)
جو کہ ہم نے اپنے انبیاء پر نازِل فرمائیں ۔ فوج سے مراد جماعتِ کثیرہ ہے ۔
حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰیٰتِیْ وَ لَمْ تُحِیْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۸۴)
یہاں تک کہ جب سب حاضر ہولیں گے (ف۱۴۲) فرمائے گا کیا تم نے میری آیتیں جھٹلائیں حالانکہ تمہارا علم اُن تک نہ پہنچتا تھا (ف۱۴۳) یا کیا کام کرتے تھے (ف۱۴۴)
(ف142)
روزِ قیامت موقَفِ حسا ب میں ۔
(ف143)
اور تم نے ان کی معرفت حاصل نہ کی تھی بغیر سوچے سمجھے ہی ان آیتوں کا انکار کر دیا ۔
(ف144)
جب تم نے ان آیتوں کو بھی نہیں سوچا ۔ تم بے کار تو نہیں پیدا کئے گئے تھے ۔
وَ وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ لَا یَنْطِقُوْنَ(۸۵)
اور بات پڑچکی ان پر (ف۱۴۵) اُن کے ظلم کے سبب تو وہ اب کچھ نہیں بولتے(ف۱۴۶)
(ف145)
عذاب ثابت ہو چکا ۔
(ف146)
کہ ان کے لئے کوئی حُجّت اور کوئی گفتگو باقی نہیں ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ عذاب ان پر اس طرح چھا جائے گا کہ وہ بول نہ سکیں گے ۔
اَلَمْ یَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّیْلَ لِیَسْكُنُوْا فِیْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًاؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۸۶)
کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ ہم نے رات بنائی کہ اس میں آرام کریں اور دن کو بنایا سوجھانے(دِکھانے) والا بےشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے کہ ایمان رکھتے ہیں (ف۱۴۷)
(ف147)
اور آیت میں بَعث بعد الموت پر دلیل ہے اس لئے کہ جو دن کی روشنی کو شب کی تاریکی سے اور شب کی تاریکی کو دن کی روشنی سے بدلنے پر قادر ہے وہ مردے کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے نیز انقلابِ لیل و نہار سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ان کی دنیوی زندگی کا انتظام ہے تو یہ عبث نہیں کیا گیا بلکہ اس زندگانی کے اعمال پر عذاب و ثواب کا ترتُّب مقتضائے حکمت ہے اور جب دنیا دارالعمل ہے تو ضروری ہے کہ ایک دارِ آخرت بھی ہو وہاں کی زندگانی میں یہاں کے اعمال کی جزا ملے ۔
وَ یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُؕ-وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِیْنَ(۸۷)
اور جس دن پھونکا جائے گا صور (ف۱۴۸) تو گھبرائے جائیں گے جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں (ف۱۴۹) مگر جسے خدا چاہے (ف۱۵۰) اور سب اس کے حضور حاضر ہوئے عاجزی کرتے (ف۱۵۱)
(ف148)
اور اس کے پھونکنے والے حضرت اسرافیل ہوں گے علیہ السلام ۔
(ف149)
ایسا گھبرانا جو سببِ موت ہو گا ۔
(ف150)
اور جس کے قلب کو اللہ تعالٰی سکون عطا فرمائے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ یہ شُہداء ہیں جو اپنی تلواریں گلوں میں حمائل کئے عرش کے گرد حاضر ہوں گے ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا وہ شہداء ہیں اس لئے کہ وہ اپنے ربّ کے نزدیک زندہ ہیں فَزَعْ ان کو نہ پہنچے گا ۔ ایک قول یہ ہے کہ نفخہ کے بعد حضرت جبریل و میکائل و اسرافیل و عزرائیل ہی باقی رہیں گے ۔
(ف151)
یعنی روزِ قیامت سب لوگ بعدِ موت زندہ کئے جائیں گے اور موقف میں اللہ تعالٰی کے حضور عاجزی کرتے حاضر ہوں گے ۔ صیغۂ ماضی سے تعبیر فرمانا تحققِ وقوع کے لئے ہے ۔
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِؕ-صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍؕ-اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ(۸۸)
اور تو دیکھے گا پہاڑوں کو خیال کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں اور وہ چلتے ہوں گے بادل کی چال (ف۱۵۲) یہ کام ہے اللہ کا جس نے حکمت سے بنائی ہر چیز بےشک اُسے خبر ہے تمہارے کاموں کی
(ف152)
معنٰی یہ ہیں کہ نفخہ کے وقت پہاڑ دیکھنے میں تو اپنی جگہ ثابت و قائم معلوم ہوں گے اور حقیقت میں وہ مثل بادلوں کے نہایت تیز چلتے ہوں گے جیسے کہ بادل وغیرہ بڑے جسم چلتے ہیں متحرک نہیں معلوم ہوتے یہاں تک کہ وہ پہاڑ زمین پر گر کر اس کے برابر ہو جائیں گے پھر ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے ۔
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَاۚ-وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَىٕذٍ اٰمِنُوْنَ(۸۹)
جو نیکی لائے (ف۱۵۳) اس کے لیے اس سے بہتر صلہ ہے (ف۱۵۴) اور ان کو اس دن کی گھبراہٹ سے امان ہے (ف۱۵۵)
(ف153)
نیکی سے مراد کلمۂ توحید کی شہادت ہے ۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اخلا صِ عمل اور بعض نے کہا کہ ہر طاعت جو اللہ کے لئے کی ہو ۔
(ف154)
جنّت اور ثواب ۔
(ف155)
جو خوفِ عذاب سے ہو گی پہلی گھبراہٹ جس کا اوپر کی آیت میں ذکر ہوا ہے وہ اس کے علاوہ ہے ۔
وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِؕ-هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۹۰)
اور جو بدی لائے (ف۱۵۶) تو اُن کے منہ اوندھائے گئے آ گ میں (ف۱۵۷) تمہیں کیا بدلہ ملے گا مگر اسی کا جو کرتے تھے (ف۱۵۸)
(ف156)
یعنی شرک ۔
(ف157)
یعنی وہ اوندھے منہ آ گ میں ڈالے جائیں گے اور جہنّم کے خازن ان سے کہیں گے ۔
(ف158)
یعنی شرک اور معاصی اور اللہ تعالٰی اپنے رسول سے فرمائے گا کہ آپ فرما دیجئے کہ ۔
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ٘-وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ(۹۱)
مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ پوجوں اس شہر کے رب کو (ف۱۵۹) جس نے اسے حرمت والا کیا ہے (ف۱۶۰) اور سب کچھ اسی کا ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ فرمان برداروں میں ہوں
(ف159)
یعنی مکّہ مکرّمہ کے اور اپنی عبادت اس ربّ کے ساتھ خاص کروں مکّۂ مکرّمہ کا ذکر اس لئے ہے کہ وہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وطن اور وحی کا جائے نُزول ہے ۔
(ف160)
کہ وہاں نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے نہ کوئی شکار مارا جائے نہ وہاں کی گھانس کاٹی جائے ۔
وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَۚ-فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا یَهْتَدِیْ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ(۹۲)
اور یہ کہ قرآن کی تلاوت کروں (ف۱۶۱) تو جس نے راہ پائی اس نے اپنے بھلے کو راہ پائی (ف۱۶۲) اور جو بہکے (ف۱۶۳) تو فرمادو کہ میں تو یہی ڈر سنانے والا ہوں (ف۱۶۴)
(ف161)
مخلوقِ خدا کو ایمان کی دعوت دینے کے لئے ۔
(ف162)
اس کا نفع و ثواب وہ پائے گا ۔
(ف163)
اور رسولِ خدا کی اطاعت نہ کرے اور ایمان نہ لائے ۔
(ف164)
میرے ذمہ پہنچا دینا تھا وہ میں نے انجام دیا ” ھَذِہ اٰیَۃ نسختھا اٰیۃ القتال ۔
وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَیُرِیْكُمْ اٰیٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَاؕ-وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ۠(۹۳)
اور فرماؤ کہ سب خوبیاں اللہ کے لیے ہیں عنقریب وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا تو اُنہیں پہچان لو گے (ف۱۶۵) اور اے محبوب تمہارا رب غافل نہیں اے لوگو تمہارے اعمال سے
(ف165)
ان نشانیوں سے مراد شقِ قمر وغیرہ معجزات ہیں اور وہ عقوبتیں جو دنیا میں آئیں جیسے کہ بدر میں کُفّار کا قتل ہونا ، قید ہونا ، ملائکہ کا انہیں مارنا ۔