برصغیر پاک و ہند میں مروجہ بیعت کے اثرات۔

ڈاکٹر محمد رضا المصطفی۔

 

برصغیر پاک و ہند کے اندر ایک سیدھا سادہ مسلمان جو شریعت مطہرہ کا عامل ، نماز روزے کا پابند، رزق حلال کمانے والا، اپنے والدین کی خدمت کرنے والا ،رشتے داروں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ،ہر بزرگ کا ادب و احترام کرنے والا ،دینی محافل میں ذوق و شوق کے ساتھ شرکت کرنے والا ،ہر دینی کتاب کو لگن اور شوق کے ساتھ پڑھنے والا قرآن و سنت میں مذکور مسنون دعاؤں کو اہتمام سے پڑھنے والا جب کسی پیر صاحب کا مرید ہو جاتا ہے تو اس کا اندازِ زیست ہی بدل جاتا ہے ۔ اس بیعت کے بڑے گہرے اور دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں کچھ کا تذکرہ اختصار کے ساتھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

 

1۔مخصوص وضع قطع اختیار کر لیتا ہے جس میں اپنے پیر خانے کی تشہیر نمایاں ہو ۔مخصوص رنگ کی ٹوپیاں ،عمامہ شریف ،گلے میں لٹکانے والی چادر وغیرہ۔پیر صاحب کا ذوق جس رنگ کا ہے سارے مرید اسی رنگ کی ٹوپیاں کرتے وغیرہ سلواتےہیں۔شیخ صاحب کے ذوق کو اس میں مرکزی اور نمایاں حیثیت ہوتی ہے ۔

 

2۔مروجہ طریقت میں پیر صاحب کا ذوق بھی ایک مستقل حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اگر پیر صاحب کو قوالی پسند ہے اور اس میں ایک مخصوص راگ اور ساز پسند ہے تو جملہ مریدین اسی راگ اور ساز کو سنیں گے ۔اگر پیر صاحب کو نماز کے بعد جہری ذکر ایک مخصوص طرز اور لے میں پسند ہے تو جملہ مریدین بھی اسی انداز اور طرز میں ذکر کریں گے۔ یہی معاملہ لباس کا ہے جو آستانہ کا آفیشل لباس منظور شدہ ہے تمام پیر بھائی حضرات وہی پہنتے ہیں کچھ عملی طور پر سست مرید یوں بھی کر لیتے ہیں پورا سال جینز ،تھری پیس ،شارٹس پہنے رکھتے ہیں جب پیر صاحب کے سامنے حاضری دیتے ہیں تو پیر صاحب کے مرغوب لباس پہن کر حاضر ہو جاتے ہیں یوں رند کے رند بھی رہے اور ہاتھ سے جنت نہ گئی ۔ قصہ مختصر پیر صاحب کے ذوق کی فرضوں کی طرح پابندی کی جاتی ہے ۔

 

3۔بیعت سے پہلے ہر دینی محفل میں شرکت کرنے والا اب بیعت کے بعد دوسری دینی محافل میں جانا چھوڑ دیتا ہے ۔صرف یاران طریقت کی محافل میں شرکت کی جاتی ہے دوسری محافل میں جتنا بھی قابل،عالم فاضل ،صاحب تقوی عالم دین بیان کرنے کے لیے آئے اسے در خور اعناء نہیں سمجھا جاتا۔

 

4۔ہر بزرگ کا ادب و احترام کرنے والا سالک اپنی تمام محبتیں شفقتیں، الفتیں ،چاہتیں، پیار ،خلوص، عزت و احترام اپنے شیخ پر ہی نچھاور کرتا ہے۔ بہت کم مرید ایسے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جو دوسرے بزرگ کو بھی وہی ادب و احترام دے رہے ہو ں جو اپنے پیر صاحب کو دیتے ہیں۔ ایسی بازاری اور گھٹیا سیاست کی مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں کہ ایک علاقے میں کسی پیر صاحب کا حلقہ ارادت زیادہ ہو ،اسی علاقے میں کوئی دوسرے پیر صاحب آ جائیں تو مریدین دوسرے پیر صاحب پر گھٹیا الزام لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے جھوٹ، غیبت، چغلی، تہمت بہتان طرازی کا بھی سہارا لینے میں کوئی عار نہیں سمجھی جاتی۔

 

5۔مسنون دعاؤں کی پابندی کرنے والا اب اپنے آستانے کے اکثر غیر مسنون اوراد و وظائف کی اہتمام سے پابندی کرتا نظر آتا ہے۔

یہ ذاتی مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ مروجہ امور تصوف میں مسنون اوراد و وظائف کی جگہ غیر مسنون اوراد و وظائف زیادہ شامل ہیں۔

 

6۔مروجہ بیعت کی ایک تاثیر یہ بھی دیکھنے میں نظر آئی ہے کہ رسومات تصوف ،معمولات تصوف مثلا دست بوسی، قدم بوسی، استان بوسی،چادر پوشی، عرس اور قوالی میں اہتمام سے شرکت بلکہ ان محافل میں شرکت کو لازم اور فرض خیال کرتے ہیں، جب کہ فرائض دینیہ نماز ،روزہ، حج، زکوۃ، کسب حلال ،اکل حلال وغیرہ کو یکسر نظر انداز کیا جاتاہے۔مریدوں کے اندر یہ تصور بیٹھ چکا ہے کہ ہم جتنی بھی بد اعمالیاں کرلیں، صاحب مزار ہماری شفاعت کریں گے ۔اس غلط بات کو مزید ان واعظین نے عام کیا ہے جنہوں نے حضور غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کے دھوبی والی کرامت اور اس طرح کی دیگر کرامتیں بیان کرکے لوگوں کے ذہنوں میں یہ تصور پختہ کر دیا ہے کہ تم جو مرضی کرو صاحب مزار آخرت میں تم کو قبر کے عذاب سے بھی چھڑوا لیں گے اور حشر میں اپنے جھنڈے تلے جگہہ دے کر تمہارے گناہ بھی بخشوا لیں گے تمہاری شفاعت کریں گے۔اور تمہیں جنت میں اپنے ساتھ رکھیں گے۔

 

8۔ شومئی قسمت اگر پیر صاحب علم دین سے کورے ہیں اور مسند ارشاد میراث میں ہی پائی ہے تو ان کے مریدین علم اور علماء سے سخت تنفر اور بیزاری رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایسی سرگرمیوں کو فضول اور وقت کا زیاں سمجھتے ہیں جیسا کہ مدارس میں پڑھنا ،علم دین کی ترویج و اشاعت وغیرہ ۔ان کا موقف ہے کہ ہم درگاہ سے نسبت کی برکت سے اس مقام عالی پر فائز ہیں جہاں پر ظاہر بیں علماء سوچ بھی نہیں سکتے۔

 

9. ہم نے ایک سروے کیا تھا جس میں مختلف درگاہوں سے وابستہ افراد مثلآ مریدین، معتقدین ،محبین سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ اس درگاہ پر بیعت ہونے کی برکت سے آپ کے اخلاق کردار، رویے اور اعمال میں کیا تبدیلی واقع ہوئی ہے ؟ بہت سے لوگ یہ سوال سن کر خلا میں گھورنے لگتے۔۔۔۔۔ ۔یا گم صُم ہو کر منہ دیکھنے لگتے جیسے ہم نے کوئی بہت ہی مشکل سوال کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔کئی حضرات نے کہا کہ ہم نماز روزے کی پابندی کرتے ہیں لیکن یہ حضرات بیعت سے پہلے بھی نماز روزے کے پابند تھے۔۔۔۔۔۔۔ ۔ایک فیصد سے بھی کم وہ حضرات تھے جنہوں نے کہا کہ اس آستانے پر بیعت کی برکت سے میں عملی طور پر اچھا مسلمان بن رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔یا میرے اخلاق اور رویے میں بہتری اور تبدیلی آئی ہے ۔یہ کسوٹی ہے اس بات کو دیکھنے کی کہ اس جگہ پر بیعت کی برکت سے میرے اندر کیا انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں ؟

 

حقیقت یہ ہے کہ بیعت کا ثمرہ وصول الی اللہ بطریق سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔۔۔۔۔درگاہوں اور آستانوں پر جو بیعت ہوتی ہے یہ فقط بیعت برکت ہے حدیث مبارکہ میں جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ حاکم اسلام کی بیعت ہے ۔۔۔ ۔ پہلے لوگ بیعت کرتے تھے ۔۔۔باطنی تطہیر، روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے اللہ تبارک و تعالی کا قرب حاصل کرنے کے لیے اور اپنی تربیت کے لیے ۔ اب رسومات تصوف تو موجود ہیں حقیقت تصوف یعنی تزکیہ ،روحانی پاکیزگی مفقود ہے۔جس طرح دنیا کے تمام شعبے مادیت زدہ ہوئے ہیں اسی طرح روحانی پاکیزگی کا شعبہ بھی اس سے متاثر ہوا ہے اب بیعت کی جاتی ہے امریکہ کے گرین کارڈ کے لیے،یورپی ممالک کی نیشنلٹی کے لیے،کسی دنیاوی عہدے کے حصول کے لیے یا کوئی دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے لئے نہ مریدوں میں وہ تڑپ اور جذبہ صادق ہے کہ ہم گناہوں سے پاک ہو کر نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سیرت اور سنت کے مطابق زندگی بسر کریں اور نہ ہی شیوخ کا یہ مطمح نظر ہے کہ اپنے مریدوں کی تربیت کریں ۔

 

جاری ہے۔۔۔۔۔

 

ڈاکٹر محمد رضاء المصطفیٰ

29-08-2021۔اتوار

00923444650892واٹس اپ نمبر