ہمارے ہاں ایک شعر پڑھا جاتا ہے

 

غرور حوروں کا توڑ ڈالا لگا کے ماتھے پہ تِل خدا نے

جو کالے رنگ کا غلام تیرا ﷺ بلال رضی اللہ عنہ آیا کمال آیا

 

اس بارے میں چند باتیں عرض ہیں

 

اولا:

سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ سوڈان حبشی ہیں اور خاص سوڈانی حضرات کے متعلق وارد ہے کہ جنت میں جب داخل ہونگے تو سفید ہونگے

چنانچہ علامہ عجلونی رحمۃ اللہ عليہ ایک حدیث کے تحت فرماتے ہیں

ويعلم من الحديث أن مؤمني السودان لا يدخلون الجنة إلا بيضا

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سوڈانی مومنین جنت میں سفید رنگت ہوکر داخل ہونگے

[كشف الخفا ج1ص394]

 

ثانیا:

سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کی رنگت سیاہ تھی خاص آپکی رنگت کی سیاہی کو رب تعالی ضائع نہیں کرے گا انکے متعلق فضیلت وارد ہے کہ آپکے رنگت کی سیاہی سے جنتی حوروں کے حسن کی تکمیل ہوگی آپکے رنگت کی سیاہی کو انکے گالوں میں تل کی صورت میں تقسیم کیا جائے گا

 

چنانچہ علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

في المحلى أنه لا يكمل حسن الحور العين في الجنة إلا بسواد بلال يتفرق سواده شامة في خدودهن

جنت میں حوروں کا حسن سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے سیاہی سے مکمل ہوگا ان کی سیاہی جنتی حوروں کے رخساروں پر تِل کی صورت میں تقسیم ہو جائے گی

[فيض القدير جلد 4ص 79]

 

اسی طرح علامہ صنعانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

في المحلى لابن حزم أنه لا يكمل حسن لحور العين في الجنة إلا بسواد بلال فإنه يعرف سوادهن شامات في خدودهن سبحان من أكرم أهل طاعته

[التنوير شرح الجامع الصغير ج6ص352]

 

علامہ شمس الدین سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کو ذکر کیا ہے

وفي المحلى لا يكمل حسن الحور العين في الجنة إلا بسواد بلال فإنه يفرق سواده شامتين في خدودهن

[المقاصد الحسنة ج1ص335]

 

تنبیہ ضروری:

 

ان عبارات سے معلوم ہوا کہ ایسی روایت موجود ہے لیکن ہمیں تلاش کے باجود نہیں مل سکی ہے یہاں تک کہ ان جمیع محدثین نے اس روایت کا انتساب امام ابن حزم کی المحلی کی طرف کیا ہم نے المحلی بالاثار میں تلاش کیا مگر ہمیں وہاں بھی نہیں مل سکا ممکن ہے المحلی کے پرانے نسخوں میں موجود ہو واللہ اعلم البتہ بالفرض اگر کتب حدیث میں ایسی روایت موجود نہیں لیکن ایسی روایت کا کلمات علماء میں ہونا حجت ہوتا ہے

 

امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

بالفرض اگر کتبِ حدیث میں اصلا پتا نہ ہوتا، تاہم ایسی حدیث کا بعض کلماتِ علماء میں بلا سند مذکور ہونا کافی ہے

(فتاوی رضویہ ج5 ص555)

 

ثالثا:

شعر مذکور میں اگر غرور سے مراد شاعر کی ناز ہے کہ حوروں کو اپنے حسن پر بہت ناز تھا لہذا اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کے ذریعے انکے حسن کے تکمیل کر کہ انکے ناز کو توڑ دیا تو شعر مذکور میں حرج نہیں لیکن اسکے باجود اس شعر کو غرور کے لفظ کے ساتھ پڑھنا درست نہیں ہے کیونکہ غرور سے متبادر ایک صفت رذیلہ کی طرف ذہن جاتا ہے اور حوروں کے متعلق ایسے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے لہذا شعر کو یوں پڑھا جائے

 

جمال حوروں کا اور بڑھایا لگا کے ماتھے پہ تِل خدا نے

جو کالے رنگ کا غلام تیرا ﷺ بلال رضی اللہ عنہ آیا کمال آیا

 

اللہ تعالی ہم سب کی سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے صدقے مغفرت فرمائے! امین

 

خادم الحدیث

وقار رضا القادری العینی

22محرم الحرام 1443