معترضین کے تعجب خیز اقوال
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
معترضین کے تعجب خیز اقوال
اشخاص اربعہ کو کافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ اشخاص اربعہ کو کافر ماننا ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔یہ غلط ہے۔اس کی تفہیم درج ذیل ہے۔
1-ہر انسان حیوان ناطق ہے۔
اہل منطق کے یہاں یہ قاعدہ کلیہ یقینیات میں سے ہے یعنی ہر انسان یقینی طور پر حیوان ناطق ہے۔زید,بکروخالد بھی یقینی طور پر انسان کے افراد میں سے ہیں تو وہ سب یقینی طور پر حیوان ناطق ہیں۔یعنی جب ان لوگوں کا انسانی افراد ہونا یقینیات سے ہے تو حیوان ناطق ہونا بھی یقینیات سے ہے۔
اگر کوئی کہے کہ زید,بکر وخالد یقینی طور پر انسان کے افراد میں سے ہیں,لیکن وہ سب ظنی طور حیوان ناطق ہیں,یعنی ان لوگوں کا انسانی افراد ہونا یقینیات سے ہے,لیکن حیوان ناطق ہونا ظنیات سے ہے تو یہ بات غلط ہے۔
2-مغرب کی نماز فرض ہے۔
یہ ضروریات دین سے ہے۔غروب شمس کے بعد جو نماز ادا کی جاتی ہے۔اس کو نماز مغرب کہا جاتا ہے۔ہر شام کو سورج غروب ہوتا ہے۔ہر دن کی نماز مغرب فرض ہے۔اگر کوئی کسی دن مثلا اتوار کے دن کی نماز مغرب کو فرض نہ مانے تو کافر ہے۔
3-ہر نبی مومن ہے۔یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین سے ہے۔کوئی شخص اس قاعدہ کلیہ کو مانے,لیکن کسی نبی مثلا حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی مانے,لیکن مومن نہ مانے تو وہ کافر ہے۔ہر نبی کو مومن ماننا ضروریات دین سے ہے۔
ضروریات دین میں جو قواعد کلیہ ہیں,ان کے موضوع کے یقینی افراد کے لئے محمول کا یقینی ثبوت ماننا ضروریات دین سے ہے۔جب حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نبی ہیں تو ان کو مومن ماننا ضروریات دین سے ہے۔
جس طرح ضروریات دین کو ماننا فرض ہے۔اسی طرح ضروریات دین کے موضوع کے افراد کے لئے محمول کو یقینی طور پر ثابت ماننا فرض ہے۔
تاویل فاسد کے ساتھ ضروریات اہل سنت کا منکر گمراہ ہے۔کافر کلامی نہیں۔
لیکن تاویل کے ذریعہ کافر کلامی کو مومن ماننے والا کافر ہے۔
اگر کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریات اہل سنت سے ہے تو پھر کافر کلامی کو مومن ماننے والا گمراہ ہونا چاہئے۔کافر نہیں ہونا چاہئے۔
اسی طرح کفر کلامی کے فتوی میں”من شک فی کفرہ فقد کفر”کا استعمال غلط ہو گا۔شک وانکار کرنے والا گمراہ ہونا چاہئے نہ کہ کافر؟
4-ہر گستاخ رسول کافر ہے۔
اہل اسلام کے یہاں یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین سے ہے,یعنی ہر گستاخ رسول کا کافر ہونا ضروریات دین سے ہے۔
زید وبکر یقینی طور پر گستاخ رسول ہیں۔اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں تو زید وبکر کا کافر ہونا ضروریات دین سے ہے۔ان دونوں کا کافر ہونا ضروریات اہل سنت سے کیسے ہو جائے گا؟
سوال; ضروری دینی وہ ہے جس کو عوام وخواص سب جانتے ہیں اور زید وبکر کے کافر ہونے کو سب لوگ نہیں جانتے ہیں تو زید وبکر کا کافر ہونا ضروریات دین سے نہیں؟
جواب:قاعدہ کلیہ کے موضوع کے لئے محمول کا ثبوت اگر یقینی ہو تو موضوع کے تمام افراد کے لئے محمول کا ثبوت یقینی ہو گا۔
ہر انسان کا حیوان ناطق ہونا یقینیات سے ہے اور زید وبکر انسان کے یقینی افراد ہیں تو ان دونوں کا حیوان ناطق ہونا بھی یقینات سے ہو گا۔
ہر گستاخ رسول کا کافر ہونا ضروریات دین سے ہے اور زید وبکر یقینی طور پر گستاخ رسول ہیں تو ان دونوں کا کافر ہونا بھی ضروریات دین سے ہے۔
مغرب کی نماز فرض ہے۔یہ ضروریات دین سے ہے۔خاص کر آج یعنی 30:اگست 2021کی نماز مغرب فرض ہے۔ایسا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے متواتر نہیں۔لیکن کوئی شخص آج کی نماز مغرب کی فرضیت کو ضروریات دین سے نہ مانے تو یہ غلط ہے یانہیں؟
“نماز مغرب” ایک کلی ہے۔غروب شمس کے بعد ادا کی جانے والی نماز کو نماز مغرب کہا جاتا ہے۔ہر دن کی نماز مغرب اسی کلی کے افراد میں سے ہے۔جس طرح کلی کی فرضیت کو ماننا ضروریات دین سے ہے۔اسی طرح اس کلی کے تمام افراد کی فرضیت کو ماننا بھی ضروریات دین سے ہے۔
قواعد کلیہ میں کلی کا جو حکم بیان کیا جاتا ہے۔دراصل وہ حکم جزئیات وافراد کے لئے بیان کیا جاتا ہے۔اس کلی کی حقیقت کے لئے وہ حکم بیان نہیں کیا جاتا ہے۔
ہر نبی پر ایمان لانا فرض ہے۔یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین سے ہے۔کوئی شخص اس قاعدہ کلیہ کو مانے اور حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی کے افراد میں سے بھی مانے,لیکن حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانا ضروریات دین میں سے نہ مانے تو یہ بالکل غلط ہے۔
ضروریات دین کا ایک وصف ہے کہ اس کو عوام وخواص جانتے ہوں۔ضروریات دین کے موضوع کے افراد کا یہ وصف نہیں کہ اس کو تمام عوام وخواص جانتے ہوں۔ہر گستاخ رسول کافر ہے۔یہ قاعدہ کلیہ ضروریات دین سے ہے۔عوام وخواص اس قاعدہ کلیہ کو جانتے ہیں۔زید وبکر اس قاعدہ کلیہ کے افراد میں سے ہیں۔تمام عوام وخواص ان دونوں کو کیسے جان سکتے ہیں۔بہت سے مومنین زید وبکر سے پہلے گزر چکے۔بہت سے مومنین زید وبکر سے آشنا ہی نہیں۔
ہر نبی کو نبی ماننا فرض ہے۔
یہ مسئلہ ضروریات دین میں سے ہے۔بالفرض یہ مان لیا جائے کہ قرآن مجید میں کسی نبی علیہ السلام کا ذکر آیا ہے,لیکن عوام اسے نہ جانتے ہوں تو جن خواص کو معلوم ہے کہ وہ نبی ہیں تو ان پر فرض ہے کہ ان کو اللہ تعالی کا نبی مانیں۔
عوام وخواص کا جاننا ضرویات دین کے لوازم وشرائط میں سے نہیں۔نہ ہی یہ تعریف حقیقی ہے۔یہ تعریف بالوصف ہے۔ضروریات دین کی چھ تعریفات پر ہم نے تفصیلی مضامین رقم کر دیا ہے۔پانچ تعریفات کا ذکر ہمارے رسالہ:”ضروریات دین کی تعریفات”میں ہے۔
بہت سی ضروریات دین کو عوام جانتے ہی نہیں تو ایسے امور ضروریات دین سے خارج نہیں ہوں گے۔معترضین خود ہی بتائیں کہ وہ تمام ضروریات دین کو جانتے ہیں یا نہیں؟
ضروری دینی وہ امر دینی ہے جو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہو۔یعنی حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے اس طرح ثابت ہو کہ عدم ثبوت کا احتمال بعید بھی نہ ہو۔اس کی دو صورتیں ہیں۔
(1)جو امر دینی حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے تواتر کے ساتھ مروی ہو۔وہ قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے۔
(2)کسی صحابی نے کسی امر دینی کو حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے سماعت کیا ہو۔یہ امر ان صحابی کے حق میں قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے۔
ایک صحابی نے تنہائی میں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے کوئی حکم شرعی سماعت کی۔پھر ان کی وفات ہو گئی۔انہوں نے اس حکم شرعی کی روایت کسی سے نہیں کی۔اس حکم شرعی کو افراد امت میں سے کوئی جانتا ہی نہیں,مثلا حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے وہ حکم شرعی ان کے علاوہ کسی کو بتایا ہی نہیں۔پس یہ امر دینی ان صحابی کے حق میں ضروریات دین سے ہے,کیوں کہ وہ حکم شرعی ان کے حق میں قطعی الثبوت بالمعنی الاخص ہے۔عوام وخواص کا جاننا ضروریات دین کے اوصاف میں سے ہے۔لوازم میں سے نہیں۔
5-بعض اہل علم تصدیق اور تکفیر میں فرق نہیں کرتے۔جب ایک یا چند علمائے کرام نے تحقیق کامل کے بعد کسی کو کافر کلامی قرار دے دیا۔وہ فتوی صحیح ہے تو دیگر مسلمانوں کو اس کی تصدیق کرنی فرض ہے,کیوں کہ کافر کلامی کو کافر ماننا ضروریات دین سے ہے۔تصدیق کا حکم ان تمام عام وخاص مسلمانوں کے لئے ہے جن کو یہ علم ہے کہ علمائے کرام نے ایسے غلط عقائد کے سبب فلاں کو کافر کہا ہے۔
تکفیر کی اجازت سب کو نہیں ہے۔مکفر کے شرائط ہیں۔جو ان شرائط سے متصف ہو,صرف اسی کو تکفیر کلامی کی اجازت ہے۔جب کسی پر کفر کلامی کا صحیح فتوی عائد ہو جائے تو تصدیق کرنا ہر اس شخص کے لئے ضروری ہے۔جس کو بات کا علم ہے۔خواہ وہ عوام میں سے ہو,یا خواص میں سے۔
تصدیق اور تکفیر دو جداگانہ امر ہیں۔دونوں میں فرق ہے۔تکفیر کی اجازت سب کو نہیں۔تصدیق کا حکم یر واقف وآشنا کے لئے ہے۔
تکفیر یہ ہے کہ شرعی اصول وقوانین کی روشنی میں ملزم کے قول وفعل پر غور کیا جائے اور ملزم کا شرعی حکم بیان کیا جائے۔جب عوام کو فقہی وعملی امور میں تحقیق کی اجازت نہیں تو اعتقادی امور میں تحقیق کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے۔
بہت سے کفار کو یقین تھا کہ ہمارے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ کے نبی اور رسول ہیں,لیکن وہ تصدیق نہیں کرتے تھے۔یقین کے ساتھ اعتقاد ہو,تب وہ ایمان اور تصدیق ہے۔
6-کافر کلامی کے کافر ہونے کی تصدیق کرنا ہے۔یعنی اس پر جو شرعی حکم وارد ہوا ہے۔اس کی تصدیق کرنی ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ کسی کو شبہہ ہو جائے اور کافر نہ مانے تو اس پر حکم کفر نہیں۔
آج کل ملحدین وجود خداوندی پر سوالات اٹھاتے ہیں۔اگر کسی کو وجود الہی پر شبہہ ہوجائے۔شبہہ کے سبب اللہ تعالی کے وجود کا انکار کر دے تو وہ مومن ہے یا کافر؟
مشرکین مکہ کو توحید الہی پرشبہہ تھا۔وہ کہتے تھے۔
(ا جعل الالہۃ الہا واحدا ان ہذا لشیء عجاب)(سورہ ص:آیت5)
ترجمہ:کیا اس نے بہت خداؤں کا ایک خدا کر دیا۔بے شک یہ عجیب بات ہے۔(کنز الایمان)
شبہہ کے سبب مشرکین نے توحید کا انکار کیا تو اللہ تعالی نے انہیں کافر ومشرک کیوں قرار دیا؟
دراصل جیاں شبہات باطلہ ہوں۔وہاں شبہات باطلہ دور کر کے حکم شرعی کو ماننا ہے۔اگر شبہات باطلہ بالکل نہ ہوں تو تکلیف کا معنی باطل ہو جائے گا۔بندے مکلف ہیں۔تمام احکام شرعیہ پر اضطراری یقین حاصل ہو تو تکلیف کا معنی باطل ہو جائے گا۔
علم اضطراری کا کوئی انکار نہیں کرتا۔آگ میں ہاتھ ڈالنے والا ہر شخص کہتا ہے کہ آگ جلانے والی ہے۔یہ یقین اضطراری ہے۔تمام ضروریات دین واحکام شرعیہ میں ایسا اضطراری یقین ہو تو تکلیف کا معنی باطل ہو گا۔اس کی تفصیلی بحث ہمارے رسالہ:”ضروریات دین اور عہد حاضر کے منکرین”(دفتر اول:ص85)میں مرقوم ہے۔
7-سوال: جب اعلی حضرت قدس سرہ العزیز اشخاص اربعہ کے حکم کی تحقیق فرما رہے تھے۔اس وقت اعلی حضرت کو ان کے کفر میں شک تھا۔یقین نہیں تھا,تب
(من شک فی کفرہ فقد کفر)کا حکم ان پر بھی عائد ہو جائے گا,لہذا یہ قاعدہ کلیہ اپنے عموم پر محمول نہیں؟
جواب:(1)تحقیق کی مدت میں مفتی یہ اعتقاد رکھتاہے کہ ملزم عند اللہ جیسا ہے۔ہمارے اعتقاد میں بھی ویسا ہی ہے۔یہ انکار نہیں ہے,بلکہ اجمالی ایمان ہے۔جب کسی ضروری دینی کا تفصیلی علم ہو جائے,تب تفصیلی ایمان کا حکم ہے۔جب تفصیلی علم ہی نہیں تو تفصیلی ایمان کیسے لائے گا؟
کسی غیر مسلم نے اجمالی طور پر کہا کہ جو کچھ مذہب اسلام میں ہے۔ہم نے سب پر ایمان لایا تو وہ مومن ہے۔جب کسی ضروری دینی کا تفصیلی علم ہونے پر انکار کر دے,تب حکم شرعی وارد ہو گا۔کیا کسی نومسلم کو تمام ضروریات دین کا تفصیلی علم ہوتا ہے؟کیا معترضین کو تمام ضروریات دین کا تفصیلی علم ہے؟اگر ہے تو تمام ضروریات دین کی صرف ایک فہرست پیش کریں۔
(2) کافر کلامی کے کافر کلامی ہونے کا قطعی علم ہو جانے کے بعد شک کرے,تب حکم کفر ہے۔تحقیق کی مدت میں اس کے کافر کلامی ہونے کا یقین حاصل نہیں ہوتا ہے۔جب تحقیق مکمل ہو گئی۔ملزم کے کفر میں کسی قسم کا شک وشبہہ باقی نہیں رہا۔مفتی شرعی دلائل کی روشنی میں اس کے کفر پر مطمئن بھی ہو گیا۔اب مفتی شک وشبہہ کرے تو حکم کفر عائد ہو گا۔
اسی طرح کسی کو قطعی علم حاصل ہو گیا,مثلا بیس پچیس قابل اعتماد مومنین نے بتایا کہ تمام علمائے حق اشخاص اربعہ کو کافر مانتے ہیں۔اتنے مومنین کے بتانے سے اسے یقین حاصل ہو گیا کہ اشخاص اربعہ کافر ہیں۔اب وہ اس کے کافر ہونے شک کرتا ہے تو کافر ہے۔
اگر کوئی علمی شبہہ ہے تو شبہہ دور کیا جائے گا۔نہ کہ اشخاص اربعہ کے کافر ہونے میں شک کیا جائے گا۔کافر ہونے میں شک کرنا الگ ہے اور کوئی علمی شبہہ ہونا الگ ہے۔
دیابنہ اشخاص اربعہ کی تکفیر پر شبہات پیش کرتے ہیں۔علمائے اہل سنت کتابوں میں ان کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔ان کے شبہات کو دور کرتے ہیں۔جواب تلاش کرنے کی مدت میں علمائے حق اشخاص اربعہ کی تکفیر سے متعلق کسی شک میں مبتلا نہیں رہتے ہیں,بلکہ حسب سابق ان کو یقین حاصل رہتا ہے۔
نیز تمام عوام وخواص کو اشخاص اربعہ کی تکفیر پر وارد ہونے والے تمام شبہات کے جواب پر مطلع ہونا ضروری نہیں۔بس حکم شرعی کو ماننا ضروری ہے۔
توحید الہی,ہمارے رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی رسالت ونبوت,قیامت اور بے شمار اسلامی احکام پر مخالفین کے طرح طرح کے اعتراضات ہیں۔تمام عوام وخواص کو ان شبہات اور ان کے جوابات پر مطلع ہونا ضروری نہیں۔
سارے اعتراضات اشخاص اربعہ کی تکفیر پر اٹھتے ہیں۔قادیانی کی تکفیر پر کوئی اعتراض نہیں,کیوں کہ دیوبندیوں نے تکفیر کر دی ہے۔یعنی دیابنہ جس کو کافر کہہ دیں۔وہ صحیح ہے۔علمائے اہل سنت کے فتاوی پر اعتماد نہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:30:اگست2021