ٹومی کے ہاتھ میں اُسترا
ٹومی کے ہاتھ میں اُسترا
✍️ پٹیل عبد الرحمٰن مصباحی ،گجرات (انڈیا)
یہ بات مسلّم ہے کہ علمائے امت معصوم نہیں. حدود کی پاسداری کے ساتھ بہت سوں کے اپنے تفردات ہیں اور امکان خطا کا ٹائٹل بھی ہر ایک کے نظریات سے جڑا ہوا ہے. در اصل یہ سب امت کی آسانی کے لیے خدائی انتظام ہے تاکہ عزیمت اور رخصت دونوں راستوں سے لوگوں کو ہدایت ملتی رہے. مانا کہ اصول یہی ہے مگر یہ اصول ہمارے دور کے کچھ لوگوں کے ہاتھ ایسے چڑھ گیا ہے جیسے بندر کے ہاتھ میں استرا. جہاں کوئی کمزور قول نظر آیا یا انفرادی رائے سامنے آئی یا اپنے زمانے کے ماحول کے مطابق کسی فقیہ کا کوئی احتیاطی فتویٰ دیکھا کہ فوراً ہی یہ بانَر اپنا طعن و تشنیع کا استرا نکال کر علمائے امت کے سر سے عزت کے بال مونڈنا شروع ہو جاتے ہیں. علمائے امت کی بڑی تعداد کو کوستے وقت یہ بانر بھول جاتے ہیں کہ ان کی برادری میں عقل کی داڑھ نمودار نہیں ہوتی اور جہالت کی پونچھ الگ سے لگی ہوئی ہے. یعنی اپنی بے مایگی کا حال یہ ہے کہ ہندی نما اردو کے علاوہ کچھ نہیں جانتے اور کردار کی پستی اس پر مستزاد مگر ملامت ان کو کرتے ہیں جن کی علمی بلندیوں اور کردار کی عظمتوں کا زمانہ معترف رہا ہے. یہ علمی یتیم ہیچ مدانی کے تحت الثرا میں بیٹھ کر ہمہ دانی کے آسمانوں پر تھوکنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ چاند میں اگر چھوٹا سا داغ بھی ہو تو عقل مندوں کے یہاں وہ حُسن کا استعارہ ہی مانا جاتا ہے، اسے دیکھ کر چلّانے کا کام ایک خاص مخلوق کا ہے جسے نئی دنیا میں ٹومی کہا جاتا ہے. ہم نے احباب کی جدت پسندی کا لحاظ کرتے ہوئے ٹومی کا لفظ استعمال کیا ہے، اردو والے چاہیں تو اپنا معروف لفظ پڑھ سکتے ہیں. موجودہ دور میں اِس گروہ کا سب سے بڑا سرغنہ انجینئر مرزا ہے.
ان کے بعد ایک طبقہ کتابوں سے لدی اُس جماعت کا ہے جن کے پاس علم تو مَنوں میں ہوتا ہے مگر عقل چند گرام بھی نہیں رکھتے. ان کو لگتا ہے کہ پچھلے تمام علما یا تو بزدل تھے یا ایک دوسرے کے چاپلوس، اس لیے انہوں نے سر زد ہونے والی خطاؤں کا سرِ عام اعلان نہیں کیا اور مفاہمت پسندی میں اسلام کو مسخ کرتے رہے. آج تاریخ میں پہلی مرتبہ ہماری نسل زمین پر آئی ہے جو حق بیانی کے اعلیٰ معیار سے واقف ہے اور بلا کسی رو رعایت کے ہر ایک کی پگڑی اچھال کر دین کا عظیم کارنامہ انجام دے رہی ہے. ایسا خیال رکھنے والوں میں کچھ تو نادان دوست ہیں اور کچھ دانا دشمن. بہر حال اسلام کی بنیادوں کو نقصان دونوں برابر پہنچا رہے ہیں. مزعومہ حق بیانی کے نشے میں چُور یہ گروہ؛ عیب پوشی اور اعتدال کے تمام اسلامی اصولوں سے بے خبر ہو کر ہمہ وقت اسلاف دشمنی میں مست رہتا ہے. اب انہیں کون سمجھائے کہ بزرگوں کا دفاع شخصیت پرستی نہیں بلکہ اسلام پسندی ہے. قلعے کے محافظین کا دفاع اہل قلعہ بلکہ خود قلعے کے تحفظ کے لیے لازم ہے. اسلام کی نمائندہ شخصیات اسلام کی ترجمان ہیں، ان کا دفاع در اصل اسلام ہی کا دفاع ہے. امام احمد رضا سے لے امام ابو حنیفہ، ملا علی قاری سے لے کر امام بخاری، پیر مہر علی شاہ صاحب سے لے کر امام قشیری اور حضرت مجدد الف ثانی سے لے کر حضرت عمر بن عبد العزیز تک…… اسلام کی نمائندہ شخصیات میں سے ہر ایک کا دفاع اسلام کا دفاع ہے کیوں کہ “إنما الاسناد مِن الدین” ہی ہماری بنیادی تعلیم ہے. جب یہ حضرات دین ہم تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں تو گویا ان کا دفاع بعینہ دین کا دفاع ہے. ورنہ ان کی کسی امکانی خطا کے سبب ان پر طعن کا دروازہ کھول کر انہیں غیر مستند قرار دے دیا جائے تو ان کے ذریعے پہنچنے والی تمام تر اسلامی تعلیمات مشکوک ہو کر رہ جائیں گی، چاہے آپ اسے فرمان رسول کہہ کر جانتے ہوں یا کلام خداوندی کے نام سے پہچانتے ہوں. اس کے بعد تو قرآن و سنت پر اکتفا کرنے والا ڈھکوسلہ بھی باقی نہیں رہے گا. موجودہ دور میں یہ جماعت غامدی صاحب کے مقلدین کی ہے.
رہی بات موجودہ دور کے عالم نما جاہلوں اور صوفی نما مجاوروں کی تو ان کی کردار کشی و پردہ دری کے کارِ خیر ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہے. مگر ان کا بہانہ بنا کر اکابرینِ امت کو کوسنا شقاوت کی علامت ہے. احباب سے گزارش ہے کہ حق بیانی کے زعم میں لبرل نہ بنیں اور خانقاہ و چلہ گاہ کے نام پر بیوقوف بھی نہ بنیں. اعتدال پر رہیں. میانہ روی کا وسط ہی راہ نجات و صراط مستقیم. ہر حق دار کو اس کا حق پہنچائیے. یہ کیا بات ہوئی کہ غیروں کے لیے مہربانی و سہل بیانی اور اپنوں کے لیے فقط زہر افشانی و سخت کلامی؟ اہلِ ذکر و صاحبِ علم کا احترام اور ان پر بے جا تنقید کا دفاع؛ بطور مسلمان ہم پر لازم ہے. بالکل ایسے ہی جیسے دجل و فریب کے ماروں کا بھید کھول کر ان کی گمراہی سے خود کو اور لوگوں کو بچانا لازم ہے. اور ہاں! یہ بات بھی جان لیں کہ جتنے زور و شور سے مذہبی مافیا کا رد آپ کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ شد و مد کے ساتھ جدیدیت کے کلمہ خوانوں اور مغربی تہذیب کے دِلداروں کی مذمت کرنے کا فریضہ بھی آپ کے سر ہے. اگر اصلاح کے نام پر صرف ایک طرفہ لعن طعن سے کام چلایا گیا تو ممکن ہے حساب کے دوران احباب کو بھی منافقین کی صف میں کھڑا کر دیا جائے اور اس وقت سر جھکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو.
23.01.1443
31.09.2021