ءَاِذَا مِتۡنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِكَ رَجۡعٌ ۢ بَعِيۡدٌ ۞- سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 3
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
ءَاِذَا مِتۡنَا وَكُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰ لِكَ رَجۡعٌ ۢ بَعِيۡدٌ ۞
ترجمہ:
کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے (تو پھر زندہ ہوں گے ! ) بیشک یہ لوٹنا (عقل سے) بعید ہے
قٓ: ٣ میں یہ ذکر ہے کہ انسان مرنے کے بعد مٹی ہوجائے گا، اس کی تائید اس حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان کے جسم میں ایک ہڈی ہے جس کو مٹی کبھی نہیں کھا سکے گی، صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! وہ کون سی ہڈی ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ ” عجب الذنب “ (دُم کی ہڈی کا سرا) ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 2955، صحیح البخاری رقم الحدیث : 4814، سنن ابوداؤد رقم الحدیث :4734، مسند احمد ج ص 4743)
انسان کی پشت کے نیچے ایک ہڈی ہے جس کو ” عجب الذنب “ کہتے ہیں، انسان کے جسم میں سب سے پہلے اسی کو بنایا جاتا ہے، پھر اس پر باقی جسم کو بنایا جاتا ہے، اس ہڈی کے سوا انسان کے پورے جسم کو مٹی کھا جاتی ہے، اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ انسان مرنے کے بعد مٹی ہوجاتا ہے، اور اس کی دلیل اس حدیث میں بھی ہے :
حضرت اوس بن اوسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہارے ایام میں سب سے افضل جمعہ کا ہے، اسی دن حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا اور اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سب لوگ بےہوش ہوں گے، پس اس دن تم مجھ پر بہ کثرت درود بھیجو، کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، صحابہ نے عرض کیا : ہمارا درود آپ پر کس طرح پیش کیا جائے گا، حالانکہ آپ کا جسم بوسیدہ ہوچکا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے جسموں کے کھانے کو زمین پر حرام کردیا ہے۔ (سنن ابوداؤد رقم الحدیث : 1047، سنن نسائی رقم الحدیث :1373، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1085، مسند احمد ج 4 ص 8، المستدرک ج 1 ص 278، شعب الایمان رقم الحدیث :2768)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
یہ بات ثابت ہے کہ انبیائ، اولیاء اور شہداء کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی۔
(الجامع لاحکام القرآن جز 17 ص 6، دارالفکر، بیروت، 1415 ھ)
مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر کفار کے اشکال کا جواب
کفار نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو عقل سے بعید اس لیے کہا تھا کہ مرنے کے کچھ عرصہ کے بعد انسان کا جسم گل سڑ کر مٹی ہوجاتا ہے، پھر مٹی مٹی میں مل جاتی ہے اور گردش ایام سے اور مردوں کی مٹی اس مٹی میں مل جاتی ہے اور یہ ذرات مختلط ہوجاتے ہیں، پھر کیسے پتا چلے گا کہ یہ ذرہ کس جسم کا ہے اور وہ ذرّہ کس جسم کا ہے ؟ اور ان مختلط ذرات کو متمیز کرنا پھر ان کو الگ الگ جمع کرنا، پھر ان جمع شدہ ممیز اور ممتاز ذرات کو اسی دنیاوی صورت کے مطابق جیتا جاگتا انسان بنا کر لاکھڑا کرنا عقل سے بعید ہے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے بعد آنے والی آیات میں اس اشکال کا جواب دیا ہے کہ اگر کسی انسان نے یہ کام کرنا ہو تو پھر یقینا یہ عقل سے بعید ہے لیکن یہ کام اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے جو تمام جہانوں کا خالق ہے، اس کا علم کامل ہے اور ہر چیز کو محیط ہے اس کو علم ہے کہ کون سا ذرہ کس جسم کا ہے اور کون سا ذرہ کس جسم کا ہے اور یہ ذرات کہاں کہاں ہیں اور اس کی قدرت بھی کامل ہے وہ ان ذرات کو جوڑ کر پھر ویسا ہی انسان بنانے پر قادر ہے اور وہ ایسا ضرور کرے گا، لہٰذا اس نے فرمایا۔
القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 3