حدیث نمبر 707

روایت ہےحضرت عبداﷲ ابن عباس سے فرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گھر گیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی آپ نے درازقیام کیاسورۂ بقرکی قرأت کے بقدر ۱؎ پھر دراز رکوع کیا پھر اٹھےتو بہت دراز قومہ کیا جو پہلے قیام سے کچھ کم تھا پھر دراز رکوع کیا جو پہلے رکوع سے کم تھا پھر اٹھے پھر سجدہ کیا پھر قیام کیا تو بہت درازقیام فرمایا جوپہلےقیام سےکم تھا پھر دراز رکوع کیا جوپہلے رکوع سے کم تھا پھرسر اٹھایا تو درازقیام فرمایاجوپہلے قیام سےکم تھا پھر دراز رکوع کیا جوپہلے رکوع سےکم تھا پھر سر اٹھایا پھر سجدہ کیا ۲؎ پھر فارغ ہوئے جب کہ سورج صاف ہوچکا تھا۳؎ پھر فرمایا کہ سورج چاند اﷲ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں نہ توکسی کی موت کی وجہ سے گھٹتے ہیں نہ کسی کی زندگی کی وجہ سے۴؎ جب تم یہ دیکھو تو اﷲ کا ذکر کرو۵؎ لوگوں نےعرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی اس جگہ میں کچھ لیا پھر دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹے فرمایا میں نے جنت ملاحظہ کی تو اس سے خوشہ لینا چاہا اگر لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک کھاتے رہتے۶؎ اورمیں نے آگ دیکھی تو آج کی طرح گھبراہٹ والا منظرکبھی نہ دیکھا میں نے زیادہ دوزخی عورتیں دیکھیں۷؎ لوگوں نے عرض کیا یارسول اﷲ یہ کیوں فرمایاان کے کفر کی وجہ سے عرض کیا گیا کہ کیا اﷲ کی کافرہ ہیں فرمایا خاوند کی ناشکری ہیں احسان کی منکرہیں اگر تم ان سے زمانہ بھر تک بھلائی کرو،پھر تمہاری طرف سے کچھ ذرا سی بات دیکھ لیں تو کہیں کہ میں نے تجھ سے کبھی بھلائی نہ دیکھی ۸؎(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ یعنی اندازًا اتنا قیام۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرأت آہستہ تھی ورنہ آپ قیام کا اندازہ نہ لگاتےکسی صحابی سے پوچھ لیتے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کون سی سورۃ پڑھی۔

۲؎ یہاں دونوں جگہ سجدے مراد ہیں جو عام طور پرنماز کی ہر رکعت میں کئے جاتے ہیں لہذا اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے ایک سجدہ کیا یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور ہر رکعت میں دو رکوع اور دوسجدے کیے،دو رکوع کی بحث ابھی گزرچکی۔

۳؎یعنی گرہن کا پورا وقت لمبی نماز میں گزار دیا اگر وقت کچھ بچ رہتا تو دعا میں گزارتے۔

۴؎ اس کلام شریف میں اس جہالت کے عقیدہ کا رد ہے جو اہلِ عرب میں پھیلا ہوا تھا اور اتفاقًا اس دن حضرت ابراہیم کا انتقال بھی ہوا تھا اس سے ان کے خیالات میں اورپختگی ہونے کا اندیشہ تھا اس لیےحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشادفرمایا۔

۵؎ کہ اگر نصف النہار کا وقت نہ ہو تو نمازگرہن پڑھو ورنہ تسبیح،تکبیر،استغفار اور باقی ذکر کرو۔سبحان اﷲ! کیا جامع کلام ہے۔

۶؎ یعنی جنت میرے سامنے آگئی یاجنت کے پاس ہم پہنچ گئے اور اسکے انگور کے خوشہ کو ہاتھ بھی لگادیا،قریبًا توڑ ہی لیا تھا،ارادہ یہ تھاکہ اس کا خوشہ تمہیں اورقیامت تک کے مسلمانوں کو دکھادیں اورکھلادیں مگر خیال یہ آگیا کہ پھر جنت غائب نہ رہے گی اور ایمان بالغیب نہ رہے گا۔خیال رہے کہ جنت کے پھلوں کوفنانہیں،رب تعالٰی فرماتا ہے:”اُکُلُہَا دَآئِمٌ”لہذا اگر وہ خوشہ دنیا میں آجاتا تو تمام دنیا کھاتی رہتی وہ ویسا ہی رہتا۔دیکھو چاندسورج کا نور،سمندر کاپانی،ہوا لاکھوں سال سے استعمال میں آرہے ہیں کچھ کمی نہیں آئی۔اس حدیث سے دو مسئلےمعلوم ہوئے:ایک یہ کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم جنت اور وہاں کے پھلوں وغیرہ کے مالک ہیں کہ خوشہ توڑنے سے رب نے منع نہ کیا خود نہ توڑا،کیوں نہ ہو کہ رب تعالٰی فرماتا ہے:”اِنَّاۤ اَعْطَیۡنٰکَ الْکَوْثَرَ”اسی لیے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو کوثر کا پانی بارہا پلایا۔دوسرے یہ کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو رب تعالٰی نے وہ طاقت دی ہے کہ مدینہ میں کھڑے ہوکر جنت میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور وہاں تصرف کرسکتے ہیں،جن کا ہاتھ مدینہ سے جنت میں پہنچ سکتا ہے کیا ان کا ہاتھ ہم جیسے گنہگاروں کی دستگیری کے واسطے نہیں پہنچ سکتا اور اگر یہ کہو کہ جنت قریب آگئی تھی تو جنت اور وہاں کی نعمتیں ہر جگہ حاضرہوئیں۔بہرحال اس حدیث سےیاحضورصلی اللہ علیہ وسلم کوحاضرماننا پڑے گا یا جنت کو۔

۷؎ یعنی ہم نے یہیں سے دوزخ کو بھی ملاحظہ فرمایااور وہاں کے عذابوں اور عذاب پانے والے بندوں کوبھی۔اس سےمعلوم ہوا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ آیندہ واقعات کو دیکھ لیتی ہےکیونکہ دوزخیوں کا دوزخ میں جانا قیامت کے بعدہوگا جسےحضورصلی اللہ علیہ وسلم آج ہی دیکھ رہے ہیں،جیسے ہم خواب وخیال میں آیندہ واقعات کو دیکھ لیتے ہیں۔خیال رہے کہ پہلے دوزخ میں عورتیں زیادہ ہوں گی اور جنت میں مرد زیادہ مگر بعدمیں عورتیں زیادہ ہوجائیں گی،اس طرح کہ دوزخی عورتیں معافی سے یا سزا بھگت کر جنت میں پہنچ جائیں گی اگرچہ مرد معافی پاکر آئیں گے مگر ان کی تعداد عورتوں سے تھوڑی ہوگی،لہذا یہ حدیث اس کے خلاف نہیں جس میں فرمایا گیا کہ جنت میں ادنےٰ جنتی کے نکاح میں دنیا کی عورتیں ہوں گی۔(طبرانی)کیونکہ یہاں ابتداء کا ذکرہے اور اس حدیث میں انتہا کا۔(ازمرقاۃ)

۸؎ یعنی عورت کی فطرت میں یہ بات ہے کہ کسی کا احسان یادنہیں رکھتی برائی یاد رکھتی ہے،یہ اسلام کے خلاف ہے۔شکریہ کا حکم قرآن شریف میں دیا گیا ہے جو بندوں کا شکر نہیں کرسکتا وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرسکتا۔