قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ مِنۡهُمۡۚ وَعِنۡدَنَا كِتٰبٌ حَفِيۡظٌ ۞- سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 4
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ مِنۡهُمۡۚ وَعِنۡدَنَا كِتٰبٌ حَفِيۡظٌ ۞
ترجمہ:
بیشک ہم جانتے ہیں کہ زمین ان سے کتنا کم کرتی ہے اور ہمارے پاس (ان کے اعمال کو) محفوظ رکھنے والا صحیفہ ہے
مردوں کے ذرات مختلطہ کے باہم ممیز ہونے پر دلیل
قٓ: ٤ میں فرمایا : بیشک ہم جانتے ہیں کہ زمین ان سے کتنا کم کرتی ہے اور ہمارے پاس (ان کے اعمال کو) محفوظ رکھنے والا صحیفہ ہے۔
اس آیت میں زمین کے کم کرنے سے مراد انسانوں کی موت ہے، اللہ کو علم ہے کہ زمین پر رہنے والوں میں سے کتنے لوگ مرجائیں گے اور کتنے باقی رہ جائیں گے، اس کا علم کامل ہے لہٰذا مرنے کے بعد جب انسان مٹی ہوجائے گا اور اس کے ذرات ایک دوسرے کے ساتھ مختلط ہو کر زمین میں بکھر جائیں گے اور منتشر ہوجائیں گے تو اس کو ان کی الگ الگ شناخت کا علم ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلائل قٓ : ٦٢ سے شروع ہو رہے ہیں۔
اور فرمایا : ہمارے پاس (ان کے اعمال کو) محفوظ رکھنے والا صحیفہ ہے۔ یعنی اس صحیفہ میں تمام انسانوں کی تعداد اور ان کے اسمائ، ان کی مدت حیات اور ان کا جنتی یا دوزخی ہونا مذکور ہے، اللہ تعالیٰ نے ” کتاب حفیظ “ فرمایا ہے اور ” حفیظ “ بہ معنی محفوظ ہے اور اس سے مراد لوح محفوظ ہے، اس کو محفوظ اس لیے فرمایا کہ یہ شیطان سے محفوظ ہے یا ردو بدل سے اور کاٹ چھانٹ سے محفوظ ہے اور اس سے مراد تقدیر مبرم ہے کیونکہ تقدیر معلق میں ردو بدل ہوتا رہتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 4