أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قٓ ۚ وَالۡقُرۡاٰنِ الۡمَجِيۡدِۚ ۞

ترجمہ:

قاف، قرآن مجید کی قسم

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قاف، قرآن مجید کی قسم۔ (اور کوئی بات نہیں) بلکہ اس پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس ان ہی میں سے ایک عذاب سے ڈرانے والا آگیا، پس کافروں نے کہا : یہ عجیب بات ہے۔ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی ہوجائیں گے (تو پھر زندہ ہوں گے ! ) بیشک یہ لوٹنا (عقل سے) بعید ہے۔ بیشک ہم جانتے ہیں کہ زمین ان سے کتنا کم کرتی ہے اور ہمارے پاس (ان کے اعمال کو) محفوظ رکھنے والا صحیفہ ہے۔ بلکہ انہوں نے حق کو جھٹلایا جب وہ ان کے پاس آیا سو وہ الجھن میں ہیں۔ (قٓ :1-5)

قٓ کے معانی

قٓ حروفِ مقطعات میں سے ہے، جس طرح نٓ اور صٓ حروف مقطعات میں سے ہیں، ان حروف کے معانی قطعی طور پر معلوم نہیں ہیں، ان پر اس طرح ایمان لانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ان حروف سے جو بھی مراد ہے وہ برحق ہے، جس طرح ہمیں بعض احکامِ شرعیہ کی عقلی توجیہ معلوم نہیں ہوتی، لیکن ہم ان پر عمل کرتے ہیں مثلاً جب پانی نہ ملے تو تیمم کرنے کا حکم ہے، حالانکہ وضو کرنے سے اعضاء وضو پانی سے دھل کر صاف ہوجاتے ہیں اور تیمم کرنے سے چہرہ اور ہاتھ صاف ہونے کے بجائے خاک آلودہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب چمڑے کے موزے پہنے ہوئے ہوں اور ان سر مسح کرنا ہو تو موزوں کے اوپر والی سطح پر مسح کرنے کا حکم ہے۔ حالانکہ گندگی لگنے کا احتمال تو موزوں کی نچلی سطح پر ہوتا ہے، اسی طرح دوزخ میں درخت زقوم کا ذکر ہے، پل صراط کا ذکر ہے جو بال سے باریک اور تلوار سے تیز ہے، اعمال کے وزن کرنے کا ذکر ہے اور ان امور کی عقلی توجیہ مشکل ہے اور ہمارا ان سب چیزوں پر ایمان ہے، سو اسی طرح ہمیں ان حروفِ مقطعات کے معانی قطعی طور پر معلوم نہیں ہیں تب بھی ہمارا اس پر ایمان ہے کہ ان حروف سے اللہ تعالیٰ کی جو بھی مراد ہے وہ برحق ہے، تاہم صحابہء کرام، فقہاء تابعین اور قدیم مفسرین نے ظنی طور پر ان حروف کے معانی بیان کیے ہیں :

امام ابو اسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی متوفی 427 ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ قٓ اللہ عزوجل کے اسماء میں سے ایک اسم ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس اسم کی قسم کھائی ہے۔

قتادہ نے کہا۔ قٓ قرآن مجید کے اسماء میں ایک اسم ہے۔

قرظی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس سورت کا افتاح اپنے اسم سے کیا ہے، اور قٓ سے مراد قدیر، قادر، قاہر، قاضی اور قابض ہے۔

عکرمہ اور ضحاک نے کہا : یہ سبز زمرد کا پہاڑ ہے اور لوگوں کو جو زمرد ملتا ہے، وہ اسی پہاڑ سے جھڑنے والے زمرد کے ٹکڑے ہیں۔

فراء نے کہا : قٓ سے مراد ہے : ” قضیٰ ماہو کائن “ یعنی جو کچھ پیدا ہونے وال تھا اس کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ابوبکر ورّاق نے کہا : اس کا معنی ہے : ” قف عند امرنا ونھینا ولا تعدھما “ یعنی ہم جو حکم دیں اور جس کام سے منع کریں اس پر توقف کرو اور اس پر عمل کرو اور اس سے تجاوز نہ کرو۔

ابن عطاء نے کہا : اللہ نے اپنے حبیب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب کی قوت کی قسم کھائی جس قلب نے قرآن مجید کے نزول کے ثقل کو برداشت کیا، حالانکہ جب اس کے ثقل کو بڑے بڑے پہاڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے اور اللہ نے قرآن مجید کی قسم کھائی ہے۔ (الکشف والخفاء ج 9 ص 92-93، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1422 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 1