كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّاَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوۡدُۙ ۞- سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 12
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
كَذَّبَتۡ قَبۡلَهُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّاَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَثَمُوۡدُۙ ۞
ترجمہ:
اس سے پہلے نوح کی قوم نے اور اندھے کنویں والوں نے اور ثمود نے جھٹلایا تھا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس سے پہلے نوح کی قوم نے اور اندھے کنویں والوں نے اور ثمود نے جھٹلایا تھا۔ اور عاد اور فرعون اور لوط کے علاقہ والوں نے۔ اور امریکہ (جنگل) والوں نے اور تبع کی قوم نے، ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا سو عذاب کی وعید برحق ہے۔ تو کیا ہم پہلی بار پیدا کر کے تھک گئے ہیں ؟ (نہیں) بلکہ وہ اپنے ازسر نو پیدا ہونے کے متعلق شک میں مبتلا ہیں۔ (قٓ:12-15)
” اصحاب الرس “ کے مصادیق
یعنی جس طرح کفار مکہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کی تکذیب کرر ہے ہیں اسی طرح اس سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم حضرت نوح کی تکذیب کرچکی ہے، اور اصحاب الرس بھی تکذیب کرچکے ہیں۔
” الرس “ کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں : (١) زمین میں جو بھی گڑھا ہو خواہ وہ قبر کا گڑھا ہو یا کنویں کا گڑھا ہو اس کو ” الرس “ کہتے ہیں (٢) وہ کنواں جس کو کسی چیز سے ڈھکا نہ گیا ہو اور نہ اس کے گرد منڈیر بنائی گئی اور اس میں لوگوں کے گرنے کا خطرہ ہو، اس کو اندھا کنواں بھی کہتے ہیں۔
” اصحاب الرس “ کے متعلق چار قول ہیں :
(١) ضحاک نے کہا : یہ وہ کنواں ہے جس میں صاحب یٰسین کو قتل کرکے ڈال دیا گیا تھا۔
(٢) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : فہ آذربائی جان کے لوگوں کا کنواں ہے۔
(٣) قتادہ اور زہیر نے کہا : اس سے مراد اہل یمامہ ہیں، انہوں نے بہت کنویں بنائے ہوئے تھے۔
(٤) اس سے مراد ” اصحاب الاخدود “ ہیں۔ (النکت والعیون ج 5 ص 344)
نیز اس آیت میں ثمود کا ذکر ہے، حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم کو ثمود کہتے ہیں، یہ عرب کے قدیم لوگ تھے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 12