وَ جَآءَتۡ سَكۡرَةُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَـقِّؕ ذٰلِكَ مَا كُنۡتَ مِنۡهُ تَحِيۡدُ ۞- سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 19
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَ جَآءَتۡ سَكۡرَةُ الۡمَوۡتِ بِالۡحَـقِّؕ ذٰلِكَ مَا كُنۡتَ مِنۡهُ تَحِيۡدُ ۞
ترجمہ:
اور موت کی سختی حق کے ساتھ آپہنچی، یہی وہچیز ہے جس سے تو انحراف کرتا تھا
موت کی سختیاں
قٓ:19 میں نے فرمایا : اور موت کی سختی حق کے ساتھ آپہنچی، یہی وہ چیز ہے جس سے تو انحراف کرتا تھا۔
” سکرۃ الموت “ کا معنی ہے : موت کی شدت اور سختی حق کے ساتھ آپہنچی، اس کا معنی ہے : اللہ تعالیٰ نے زبان رسالت سے جو وعدے کیے تھے اور قیامت، حساب و کتاب اور جنت اور دوزخ کی جو خبریں دی تھیں ان کی صداقت ظاہر ہوجاتی ہے اور اس میں ” تحید “ کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے : تو جس چیز سے اعراض اور انحراف کرتا تھا اور بھاگتا اور بدکتا تھا۔ موت کی سختیوں کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک برتن تھا جس میں پانی تھا، آپ اس پانی میں ہاتھ ڈالتے پھر اس ہاتھ کو اپنے چہرے پر پھیرتے، پھر فرماتے : ” لا الہ الا اللہ “ (اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے) ، بیشک موت کے لیے شدتیں اور سختیاں ہیں، پھر آپ نے ہاتھ کھڑا کر کے فرمایا : ” فی الرفیق الاعلیٰ “ (مجھے رفیقِ اعلیٰ یعنی انبیاء اور مرسلین کی معیت میں رکھنا) ، پھر آپ کا ہاتھ گرگیا ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6510، صحیح مسلم رقم الحدیث :2443)
حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن جب مرتا ہے تو اس کی پیشانی پر پسینہ آتا ہے۔ (سنن الترمذی، رقم الحدیث :982، المستدرک ج 1 ص 361)
اس حدیث کے دو محمل ہیں : ایک یہ کہ موت کے وقت اس کو اس قدر تکلیف ہوتی ہے کہ وہ پسینہ پسینہ ہوجاتا ہے اس پر یہ سختی اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے گناہ مٹ جائیں اور اس کے درجات بلند ہوجائیں اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ مومن پر موت کے وقت زیادہ سختی نہیں ہوتی، صرف اتنی سختی ہوتی ہے کہ اس کے ماتھے پر پسینہ آتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 19