أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا يَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنُوۡا خَيۡرًا مِّنۡهُمۡ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰٓى اَنۡ يَّكُنَّ خَيۡرًا مِّنۡهُنَّ‌ۚ وَلَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَلَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ‌ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِيۡمَانِ‌ ۚ وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پلائو، ایمان کے بعد فاسق کہلانا برا نام ہے اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پلائو، ایمان کے بعد فاسق کہلانا برا نام ہے اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔ اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو، بیشک بعض گمان گناہ ہیں اور نہ تم (کسی کے متعلق) تجسس کرو اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے سو تم اس کو ناپسند کرون گے، اور اللہ سے ڈرتے، بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ (الفتح : ١٢۔ ١١)

مذاق اڑانے کی ممانعت

اس آیت میں ” لایسخر “ کا لفظ ہے، اس کا مصدر ہے :” سخریہ “ اس کا معنی ہے : مذاق اڑانا اور کسی شخص کی تحقیر کرن اور اس کا استخفاف کرنا اور اس کو درجہ اعتبار سے ساقط قرار دینا، قوم کا معنی ہے : مردوں کی جماعت اور ان کا گروہ اور بعض اوقات اس سے مطلقاً گروہ مراد ہوتا ہے، خواہ اس میں مردہوں یا عورتیں۔

ضحاک نے بیان کیا کہ یہ آیت بنو تمیم کے متعلق نازل ہوئی ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فقراء صحابہ کا مذاق اڑانے تھے جب وہ حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت بلال، حضرت صہیب اور حضرت سلمان پر افلاس کے آثار دیکھتے تو ان کا مذاق اڑاتے تھے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

امام ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

جب حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رض) فتح مکہ کے بعد ہجرت کرکے مدینہ آئے، تو وہ انصار کی جس مجلس سے بھی گزرتے تو لوگ کہتے کہ یہ ابوجہل کا بیٹا ہے، تب حضرت عکرمہ (رض) نے رسول اللہ سے اس کی شکایت کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مردوں کو برا کہہ کر زندوں کو اذیت نہ پہنچائو۔ (تاریخِ دمشق الکبیر ج ٤٣ ص ١٨٥۔ رقم الحدیث : ٨٨٣٨)

علامہ قرطبی نے اس حدیث کا بھی اس آیت کے شان نزول میں ذکر کیا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ کسی آدمی میں فقر کے آثار دیکھ کر اس مذاق نہ اڑایا جائے۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کتنے ہی لوگوں کے بال بکھرے ہوئے، غبار آلود ہوتے ہیں ان کے پاس دو چادریں ہوتی ہیں اور ان کو کوئی پناہ نہیں دیتا، وہ اگر قسم کھا لیں کہ اللہ فلاں کام کرے گا تو اللہ وہ کام کرکے ان کو قسم میں سچا کردیتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥٤، مسند احمد ج ٣ ص ١٤٥ )

عورتوں کا خصوصیت کے ساتھ علیحدہ ذکر فرمایا کیونکہ عورتوں میں دوسری عورتوں کا مذاق اڑانے کی خسلت بہت زیادہ ہوتی ہے :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے متعلق نازل ہوئے ہے کیونکہ حضرت عائشہ نے حضرت ام سلمہ (رض) کے چھوٹے قد ہونے کی وجہ سے ان کو شرمندہ کیا، ایک قول یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے ہاتھ سے اشارہ کرکے بتایا کہ حضرت ام سلمہ کا قد چھوٹا ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت صفیہ بنت جی ابن اخطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور کہا : ازواج مجھے شرمندہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں : اے یہودیہ ! دو یہودیوں کی بیٹی ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا : آپ نے ان سے یہ کیوں نہیں کہا کہ میرے باپ حضرت ہاروں (علیہ السلام) اور میرے عم زاد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور میرے خاوند حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ (الکشف والبیان ج ٩ ص ٨١)

حضرت حسن (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو لوگ دنیا میں لوگوں کا مذاق اڑاتے تھے، آخرت میں ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولاجائے گا، اور ان سے کہا جائے گا : آئو ! آئو ! وہ اپنے غم اور پریشانی کے باوجود وہاں جائیں گے اور جب وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائے گا، پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا : آئو ! آئو ! وہ اپنے غم اور پریشانی کے باوجود وہاں جائیں گے اور جب وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بھی بند کردیا جائے گا اور یونہی ہوتا رہے گا حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا : ا ائو ! اور وہ مایوس ہو کر نہیں جائے گا۔ (الجامع لشعب الایمان رقم الحدیث : ٦٣٣٣)

ایک دوسرے کو طعنہ دینے اور عیب سے متصف کرنے کی ممانعت

اس کے بعد فرمایا : اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے بلائو۔

اس آیت میں فرمایا ہے :”……“ یعنی تم اپنے آپ کو عیب نہ لگایا کرو، اس پر یہ اشکال ہے کہ اپنے آپ کو تو کوئی عیب نہیں لگاتا، اس کا جواب یہ ہے کہ جب انسان کسی دوسرے پر عیب لگائے گا اور اس کو طعنہ دے گا تو وہ بھی اس پر عیب لگائے گا، سو کسی پر عیب لگانا خود پر عیب لگانے کا سبب ہے، اس لئے فرمایا کہ تم اپنے آپ کو عیب نہ لگائو، جیسے کسی کے ماں باپ کو گالی دینا اپنے ماں باپ کو گالی دینے کا سبب ہے، حدیث میں ہے :

حضرت عبد اللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کبیرہ گناہوں میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے، صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! یہ کسی کے باپ کو گالی دے گا تو وہ اس کے باپ کو گالی دے گا، یہ کسی کی ماں کو گالی دے گا تو وہ اس کی ماں کو گالی دے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٦٢٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٩٠٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥١٤٢، مسند احمد ج ٢ ص ١٦٣ )

فاسق معلن کا فسق بیان کرنے کا جواز

کسی شخص کو عیب سے متصف کرنا اس وقت جائز نہیں ہے جس اس کو عیب لگانے سے س کی تحقیر کرنا اور لوگوں کی نظروں میں اس کو ذلیل اور رسوا کرنا مقصود ہو اور جب فاسق کے ضرر سے لوگوں کو بچانا مقصود ہو تو پھر اس کے فسق کو بیان کرنا جائز ہے، مثلاً ایک شخص خائن ہو اور لوگ اس کو امانت دار سمجھ کر اس کے پاس بری رقم امانت رکھوانا چاہتے ہوں اور انکو اس کے خائن ہونے کا علم نہ ہو تو پھر اس کی خیانت کو بیان کرنا جائز ہے، تاکہ لوگ اس کے ضرر سے بچیں یا کوئی متقی اور پرہیز گار شخص کسی شخص کو نیک اور نمازی سمجھ کر اسے اپنی بیٹی اس کے ضرر سے بچ سکیں، حدیب میں ہے :

بہزبن حکیم اپنے باپ سے اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم فاسق (کے فسق) کو بیان کرنے سے ڈرے ہو ؟ اس کے فسق کو بیان کرو تاکہ لوگ اس کو پہچان لیں، نیز اسی سند سے مروی ہے، فاسق کے فسق کا ذکر کرنا غیبت نہیں ہے ( اس سے مراد فاسق معلن ہے) ۔

(المعج الکبیر ج ١٩۔ رقم الحدیث : ١٠١١۔ ١٠١٠، الکامل لابن عدی ج ٢ س ٤٣٠، تاریخِ بغداد ج ا ص ٣٨٢، سنن بیہقی ج ١٠ ص ٢١٠ )

امام غزالی نے اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے :

کیا تم فاسق کے ذکر سے اعراض کرتے ہو، پھر لوگ اس کو کیسے پہنچانیں گے ؟ اس میں جو فسق ہے اس کو بیان کرو تاکہ لوگ اس کو پہنچان کر اس (کے ضرر) سے بچیں۔ ٠ احیاء علوم الدین ج ٣ س ١٣٦، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)

امام محمد بن محمد سید محمد بن محمد حسینی زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

یعنی فاسق کا پردہ چاک کرو اور اس کے مذموم اوصاف کو کھول کر بیان کرو تاکہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں اور فاسق معلن کے مذموم اوصاف کو بیان کیے بغیر اس کا ذکر کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے صرف لوگوں کی خیر خواہی مقصود ہو، ہاں ! جس شخص نے اپنے غصہ کو تھنڈا کرنے کے لئے اور اپنے نفس کا انتقام لینے کے لئے فاسق معلن کی مذموم صفات کو بیان کیا وہ گناہ گار ہوگا۔ (اتھاف السادۃ المتقین ج ٧ ص ٥٥٦۔ ٥٥٥، دار احیاء التراث العربی، ١٤١٤ ھ)

ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنے کی ممانعت

نیز فرمایا : اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے بلائو۔

اس آیت میں ” تنابزوا “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : کسی شخص کو کوئی لقب دینا عام زیں کہ وہ لقب اچھا ہو یا برا، لیکن عرب میں یہ لفظ برے لقب دینے کے ساتھ مخصوص ہوگیا۔

عکرمہ نے کہا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی مسلمان کو کہے یا فاسق، یا کہے یا کافر، تو یہ ممنوع ہے۔

حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی برے کام کو چھوڑ کر اس سے توبہ کرچکا ہو اور حق کی طرف رجوع کرچکا ہوتا اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے پچھلے کاموں پر عار دلانے سے منع فرمایا۔ (جامع البیان ج ٢٦ ص ١٧٢، دار الفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو اس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا (امام احمد نے کہا : اس سے مراد ایسا گناہ ہے جس سے وہ توبہ کرچکا ہو) تو وہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥٠٥)

القرآن – سورۃ نمبر 49 الحجرات آیت نمبر 11