بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿﴾

اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف۱)

(ف1)

سورۂ قصص مکّیہ ہے ۔ سوائے چار آیتوں کے جو ” اَلَّذِیْنَ اٰ تَیْنَا ھُمُ الْکِتَابَ ”سے شروع ہو کر ” لَانَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ” پر ختم ہوتی ہیں اور اس سورت میں ایک آیت ” اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ” ایسی ہے جو مکّہ مکرّمہ اور مدینہ طیّبہ کے درمیان نازِل ہوئی اس سورت میں نو رکوع اٹھاسی ۸۸ آیتیں چار سو اکتالیس ۴۴۱ کلمے اور پانچ ہزار آٹھ سو حرف ہیں ۔

طٰسٓمّٓ(۱)

تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ(۲)

یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی(ف۲)

(ف2)

جو حق کو باطل سے ممتاز کرتی ہے ۔

نَتْلُوْا عَلَیْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۳)

ہم تم پر پڑھیں موسیٰ اور فرعون کی سچی خبر اُن لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں

اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآىٕفَةً مِّنْهُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ یَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ(۴)

بےشک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا (ف۳) اور اس(زمین) کے لوگوں کو اپنا تابع بنا لیا ان میں ایک گروہ کو (ف۴) کمزور دیکھتا اُن کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا (ف۵) بےشک وہ فسادی تھا

(ف3)

یعنی سرزمینِ مِصر میں اس کا تسلّط تھا اور وہ ظلم و تکبُّر میں انتہا کو پہنچ گیا تھا حتی کہ اس نے اپنی عبدیت اور بندہ ہونا بھی بھلا دیا تھا ۔

(ف4)

یعنی بنی اسرائیل کو ۔

(ف5)

یعنی لڑکیوں کو خدمت گاری کے لئے زندہ چھوڑ دیتا اور بیٹوں کو ذبح کرنے کا سبب یہ تھا کہ کاہنوں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچّہ پیدا ہو گا جو تیرے مُلک کے زوال کا باعث ہو گا اس لئے وہ ایسا کرتا تھا اور یہ اس کی نہایت حماقت تھی کیونکہ وہ اگر اپنے خیال میں کاہنوں کو سچّا سمجھتا تھا تو یہ بات ہونی ہی تھی لڑکوں کے قتل کر دینے سے کیا نتیجہ تھا اور اگر سچّا نہیں جانتا تھا تو ایسی لغو بات کا کیا لحاظ تھا اور قتل کرنا کیا معنی رکھتا تھا ۔

وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَىٕمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ(۵)

اور ہم چاہتے تھے کہ ان کمزوروں پر احسان فرمائیں اور اُن کو پیشوا بنائیں (ف۶) اور ان کے ملک و مال کا اُنہیں کو وارث بنائیں (ف۷)

(ف6)

کہ وہ لوگوں کو نیکی کی راہ بتائیں اور لوگ نیکی میں ان کی اقتدا کریں ۔

(ف7)

یعنی فرعون اور اس کی قوم کے اَملاک و اَموال ان ضعیف بنی اسرائیل کو دے دیں ۔

وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ نُرِیَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَحْذَرُوْنَ(۶)

اور انہیں (ف۸) زمین میں قبضہ دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی دکھادیں جس کا انہیں ان کی طرف سے خطرہ ہے (ف۹)

(ف8)

مِصر اور شام کی ۔

(ف9)

کہ بنی اسرائیل کے ایک فرزند کے ہاتھ سے ان کے مُلک کا زوال اور ان کا ہلاک ہو ۔

وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِۚ-فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْۚ-اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(۷)

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام فرمایا(ف۱۰)کہ اُسے دودھ پلا (ف۱۱) پھر جب تجھے اس سے اندیشہ ہو (ف۱۲) تو اُسے دریا میں ڈال دے اور نہ ڈر (ف۱۳) اور نہ غم کر (ف۱۴) بےشک ہم اسے تیری طرف پھیر لائیں گے اور اسے رسول بنائیں گے (ف۱۵)

(ف10)

حضرت موسٰی علیہ السلام کی والدہ کا نام یوحانِذ ہے آپ لاوی بن یعقوب کی نسل سے ہیں اللہ تعالٰی نے ان کو خواب کے یا فرشتے کے ذریعہ یا ان کے دل میں ڈال کر الہام فرمایا ۔

(ف11)

چنانچہ وہ چند روز آپ کو دودھ پلاتی رہیں اس عرصہ میں نہ آپ روتے تھے نہ ان کی گود میں کوئی حرکت کرتے تھے نہ آپ کی ہمشیر کے سوا اور کسی کو آپ کی ولادت کی اطلاع تھی ۔

(ف12)

کہ ہمسایہ واقف ہو گئے ہیں وہ غمازی اور چغل خوری کریں گے اور فرعون اس فرزندِ ارجمند کے قتل کے درپے ہو جائے گا ۔

(ف13)

یعنی نیلِ مِصر میں بے خوف و خطر ڈ ال دے اور اس کے غرق و ہلاک کا اندیشہ نہ کر ۔

(ف14)

اس کی جدائی کا ۔

(ف15)

تو انہوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو تین ماہ دودھ پلایا اور جب آپ کو فرعون کی طرف سے اندیشہ ہوا تو ایک صندوق میں رکھ کر (جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا) شب کے وقت دریائے نیل میں بہا دیا ۔

فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًاؕ-اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـٕیْنَ(۸)

تو اُسے اٹھالیا فرعون کے گھر والوں نے (ف۱۶) کہ وہ ان کا دشمن اور اُن پر غم ہو (ف۱۷) بےشک فرعون اور ہامان (ف۱۸) اور ان کے لشکر خطا کار تھے (ف۱۹)

(ف16)

اس شب کی صبح کو اور اس صندوق کو فرعون کے سامنے رکھا اور وہ کھولا گیا اور حضرت موسٰی علیہ السلام برآمد ہوئے جو اپنے انگوٹھے سے دودھ چوستے تھے ۔

(ف17)

آخر کار ۔

(ف18)

جو اس کا وزیر تھا ۔

(ف19)

یعنی نافرمان تو اللہ تعالٰی نے انہیں یہ سزا دی کہ ان کے ہلاک کرنے والے دشمن کی انہیں سے پر ورش کرائی ۔

وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَكَؕ-لَا تَقْتُلُوْهُ ﳓ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ(۹)

اور فرعون کی بی بی نے کہا (ف۲۰) یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو شاید یہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا بنالیں (ف۲۱) اور وہ بے خبر تھے (ف۲۲)

(ف20)

جب کہ فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں کے ورغلانے سے موسٰی علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا ۔

(ف21)

کیونکہ یہ اسی قابل ہے ۔ فرعون کی بی بی آسیہ بہت نیک بی بی تھیں انبیاء کی نسل سے تھیں غریبوں اور مسکینوں پر رحم و کرم کرتی تھیں انہوں نے فرعون سے کہا کہ یہ بچہ سال بھر سے زیادہ عمر کا معلوم ہوتا ہے اور تو نے اس سال کے اندر پیدا ہونے والے بچّوں کے قتل کا حکم دیا ہے علاوہ بریں معلوم نہیں یہ بچّہ دریا میں کس سرزمین سے آیا تجھے جس بچّہ کا اندیشہ ہے وہ اسی مُلک کے بنی اسرائیل سے بتایا گیا ہے آسیہ کی یہ بات ان لوگوں نے مان لی ۔

(ف22)

اس سے جو انجام ہونے والا تھا ۔

وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًاؕ-اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِیْ بِهٖ لَوْ لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۰)

اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے صبر ہوگیا (ف۲۳) ضرو ر قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی (ف۲۴) اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے اس کے دل پر کہ اُسے ہمارے وعدہ پر یقین رہے (ف۲۵)

(ف23)

جب انہوں نے سنا کہ ان کے فرزند فرعون کے ہاتھ میں پہنچ گئے ۔

(ف24)

اور جوشِ مَحبتِ مادری میں واِبناہ واِبناہ (ہائے بیٹے ہائے بیٹے) پکار اٹھتیں ۔

(ف25)

جو وعدہ ہم کر چکے ہیں کہ تیرے اس فرزند کو تیری طرف پھیر لائیں گے ۔

وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ٘-فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۱۱)

اور( اس کی ماں نے) اس کی بہن سے کہا (ف۲۶) اُس کے پیچھے چلی جا تو وہ اسے دُور سے دیکھتی رہی اور ان کو خبر نہ تھی (ف۲۷)

(ف26)

جن کا نام مریم تھا کہ حال معلوم کرنے کے لئے ۔

(ف27)

کہ یہ اس بچہ کی بہن ہے اور اس کی نگرانی کرتی ہے ۔

وَ حَرَّمْنَا عَلَیْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتٍ یَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ نٰصِحُوْنَ(۱۲)

اور ہم نے پہلے ہی سب دائیاں اس پر حرام کردی تھیں (ف۲۸) تو بولی کیا میں تمہیں بتادوں ایسے گھر والے کہ تمہارے اس بچہ کو پال دیں اور وہ اس کے خیر خواہ ہیں (ف۲۹)

(ف28)

چنانچہ جس قدر دائیاں حاضر کی گئیں ان میں سے کسی کی چھاتی آپ نے مُنہ میں نہ لی اس سے ان لوگوں کو بہت فکر ہوئی کہ کہیں سے کوئی ایسی دائی میسّر آئے جس کا دودھ آپ پی لیں دائیوں کے ساتھ آپ کی ہمشیر بھی یہ حال دیکھنے چلی گئی تھیں اب انہوں نے موقع پایا ۔

(ف29)

چنانچہ وہ ان کی خواہش پر اپنی والدہ کو بلا لائیں حضرت موسٰی علیہ السلام فرعون کی گود میں تھے اور دودھ کے لئے روتے تھے فرعون آپ کو شفقت کے ساتھ بہلاتا تھا جب آپ کی والدہ آئیں اور آپ نے ان کی خوشبو پائی تو آپ کو قرار آیا اور آپ نے ان کا دودھ منہ میں لیا ، فرعون نے کہا تو اس بچہ کی کون ہے کہ اس نے تیرے سوا کسی کے دودھ کو مُنہ بھی نہ لگایا ؟ انہوں نے کہا میں ایک عورت ہوں پاک صاف رہتی ہوں ، میرا دودھ خوشگوار ہے ، جسم خوشبودار ہے اس لئے جن بچوں کے مزاج میں نفاست ہوتی ہے وہ اور عورتوں کا دودھ نہیں لیتے ہیں ، میرا دودھ پی لیتے ہیں ، فرعون نے بچہ انہیں دیا اور دودھ پلانے پر انہیں مقرر کر کے فرزند کو اپنے گھر لے جانے کی اجازت دی چنانچہ آپ اپنے مکان پر لے آئیں اور اللہ تعالٰی کا وعدہ پورا ہوا ، اس وقت انہیں اطمینانِ کامل ہو گیا کہ یہ فرزندِ ارجمند ضرور نبی ہوں گے ۔ اللہ تعالٰی اس وعدہ کا ذکر فرماتا ہے ۔

فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَیْ تَقَرَّ عَیْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۱۳)

تو ہم نے اُسے اس کی ماں کی طرف پھیرا کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور غم نہ کھائے اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (ف۳۰)

(ف30)

اور شک میں رہتے ہیں ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام اپنی والدہ کے پاس دودھ پینے کے زمانہ تک رہے اور اس زمانہ میں فرعون انہیں ایک اشرفی روز دیتا رہا دودھ چھوٹنے کے بعد آپ حضرت موسٰی علیہ السلام کو فرعون کے پاس لے آئیں اور آپ وہاں پرورش پاتے رہے ۔