حدیث نمبر 709

روایت ہے حضرت ابوموسیٰ سے فرماتے ہیں کہ سورج گھر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے کھڑے ہوئے اس خوف سے کہ قیامت آگئی ۱؎ مسجدمیں تشریف لائے بہت دراز قیام و رکوع اور سجدے سے نماز پڑھی کہ ایساکرتے میں نے آپ کوکبھی نہ دیکھا۲؎ اور فرمایا یہ وہ نشانیاں ہیں جن کو اﷲبھیجتا ہےکسی کی موت و زندگی کی وجہ سے نہیں ہوتیں لیکن اﷲ اس سے اپنے بندوں کو ڈراتاہے۳؎ تو جب تم ان میں سے کچھ دیکھو اﷲ کے ذکر،دعا و استغفار کی طرف گھبراکر آجاؤ ۴؎(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ یہ بطورتمثیل حضرت ابوموسیٰ نے فرمایا یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کا ساخوف ہوا ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ ابھی قیامت کا وقت نہیں خود ہی تو علامات قیامت بے شمار بیان فرمائی ہیں۔رب تعالٰی نے سارے جہان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے پھیلانے کا وعدہ کیا ہےجن کی اطلاع اس سے پہلے سرکار بار بار دے چکے ہیں کیونکہ حضرت موسیٰ اشعری فتح خیبر کے سال ایمان لائے اور سورۃ فتح اس سے کہیں پہلے نازل ہوچکی تھیں جس میں یہ تمام وعدے ہیں،نیز ڈرخوف دل کے حالات ہیں۔دوسرا شخص علامات ہی سے معلوم کرسکتا ہےحقیقت حال سے خبردارنہیں ہوسکتا۔حضرت ابوموسیٰ نے اندازًا یہ بیان کیا۔(لمعات)لہذا اس حدیث سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم قیامت سے بالکل بے خبرتھے۔

۲؎ اس سےمعلوم ہورہا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کی ہر رکعت میں ایک رکوع دو سجدے کیے مگر بہت دراز کئے،چونکہ ابوموسیٰ اشعری اس وقت بچے نہ تھے اس لیے آپ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس نماز سے بہت ہی خبردار تھے،لہذا آپ کی یہ روایت حضرت ابن عباس وعائشہ صدیقہ کی احادیث پر راجح ہے اور یہ حدیث امام اعظم کی دلیل ہے۔

۳؎ اس میں کفارعرب کے مذکورہ بالاعقیدہ کی تردیدہے اور آج کل کے فلاسفہ کا رد ہے کیونکہ خسوف و کسوف محض چاندسورج کی حرکات سے ہوتے ہیں،نہیں بلکہ قیامت یاد دلاتے اور رب کی قدرت ظاہر کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔

۴؎ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ گرہن پرحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا گھبرانا ہماری تعلیم کے لیے تھااور خدا کی ہیبت سے نہ کہ اپنی بے علمی یا خدا کے وعدوں پر بے اعتمادی کی وجہ سے گرہن میں جیسےنمازپڑھنا سنت اختیاری ہے ایسے ہی دل کی گھبراہٹ بے اختیاری سنت ہے۔