گرہن کی نماز
باب صلوۃ الخسوف
گرہن کی نماز کا باب ۱؎
الفصل الاول
پہلی فصل
۱؎ خسوفیا خسف کےمعنی ہیں دھنس جانا،اہل عرب کہتے ہیں”خَسَفَتِ الْعَیْنُ فِی الرَّاسِ”آنکھ سر میں دھنس گئی اور کہاجاتاہے”خَسَفَ الْقَارُوْنُ فِی الاَرْضِ”قارون زمین میں دھنس گیا،رب تعالٰی فرماتاہے:”فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ”۔اب اصطلاح میں چاندگرہن کو خسوف اورسورج گرہن کو کسوف کہتے ہیں کیونکہ اس وقت چاند،سورج دھنسا ہوا محسوس ہوتاہے۔خیال رہے کہ یہاں خسوف سے مطلقًاگرہن مراد ہے چاند کا ہویاسورج کا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز بھی پڑھی ہے اور چاندگرہن کی بھی کیونکہ ۵ھ میں چاندگرہن لگاتھاجمادی الآخرہ میں جیساکہ ابن حبان وغیرہ میں۔نماز کسوف باجماعت ہوگی اور چاندگرہن کی نمازعلیحدہ علیحدہ یہ دونوں نمازیں سنت ہیں،دو،دو رکعتیں ہیں عام نمازوں کی طرح پڑھی جائیں گی،ہاں ان میں قیام،رکوع وغیرہ بہت درازہوگا۔
حدیث نمبر 705
روایت ہے حضرت عائشہ سے فرماتی ہیں کہ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج کو گرہن لگا ۱؎ تو آپ نے اعلانچی بھیجا کہ نمازتیارہے پھر آپ امام ہوئے تو دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیئے۲؎ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس سے دراز رکوع و سجدے کبھی نہ کیئے۳؎(مسلم،بخاری)
شرح
۱؎ جس دن حضرت ابراہیم ابن رسول اﷲ کی وفات ہوئی،بعض علماء فرماتے ہیں کہ وہ چاندکی دس تاریخ تھی لہذا فلاسفہ کا یہ قول باطل ہے کہ سورج گرہن چاند کی بالکل آخری تاریخوں میں ہی لگ سکتا ہے۔خیال رہے کہ کفار عرب اور مشرکین ہند کے اس گرہن کے متعلق عجیب خیالات ہیں۔کفار عرب کہتے تھے کہ کسی برے آدمی کی پیدائش یا اچھے آدمی کی وفات پرگرہن لگتا ہے۔مشرکین ہند کا عقیدہ ہے کہ چاند اورسورج پہلے انسان تھے،انہوں نےبھنگیوں چماروں سے کچھ قرض لیا اور ادا نہ کیا اس سزا میں انہیں گرہن لگتا ہے۔چنانچہ ہندوگرہن کے وقت بھنگیوں کو خیرات دیتے ہیں اور مانگنے والےبھنگی بھی کہتے ہیں کہ سورج مہاراج کا قرض چکاؤ۔اسلام ان لغویات سے علیحدہ ہے،وہ فرماتاہے کہ یہ اﷲ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جب چاہے چاندسورج کو نورانی کردے اور جب چاہے ان کا نورچھین لے۔چونکہ یہ قہرخداوندی کے ظہور کا وقت ہے اس لیے اس وقت نماز پڑھو،دعائیں مانگو،صدقہ دو،غلام آزاد کرو تاکہ رحم کیے جاؤ ۔
۲؎ یعنی ہر رکعت میں دو رکوع اور دو سجدے۔اس حدیث کی بنا پر امام شافعی نماز کسوف میں ہر رکعت میں دو رکوع مانتے ہیں،ہمارے امام صاحب کے ہاں ہر رکعت میں ایک رکوع ہوگا اور دوسجدے اس لیے کہ حاکم نے باسنادصحیح جو مسلم،بخاری کی شرط پر ہے حضرت ابوبکر سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندسورج کے گرہن کے وقت دو رکعتیں پڑھیں جو عام نمازوں کی طرح تھیں،نیزحضرت عبداﷲ ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازگرہن پڑھی،پھر کچھ خطبہ فرمایا جس کے آخری الفاظ یہ ہیں”فَاِذَارَءَیْتُمُوْھَا فَصَلُّوْا صَلَاۃَ کَمَا صَلَّیْتُمُوْھَا مِنَ الْمَکْتُوْبَۃِ”یعنی جب تم گرہن دیکھو تو جیسے اورفرض نمازیں پڑھتے ہو اسی طرح اس وقت بھی نفل پڑھ لیا کرو۔حدیث قولی اورفعلی سے معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز اورنمازوں کی طرح ہے،زیادہ رکوع والی احادیث سخت مضطرب ہیں۔چنانچہ فی رکعت دو رکوع،تین رکوع،چار رکوع،پانچ رکوع احادیث میں آئے ہیں،لہذا ان میں سےکوئی حدیث قابل عمل نہیں،نیز زیادہ رکوع کی اکثر احادیث یاحضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہیں یا حضرت عبداﷲ ابن عباس سے،حضرت عائشہ صدیقہ بی بی ہیں اورحضرت ابن عباس بچے تھے یہ دونوں نماز میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بہت دور رہتے تھے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع سجدے جیسے اگلی صف والوں پر ظاہر ہوں گے ویسے ان پرنہیں ہوسکتے اورمردوں کی روایت ایک رکوع کی ہے،لہذا تعارض کے وقت ان کی روایت قوی ہوگی،نیز چند رکوع والی حدیثیں قیاس شرعی کےبھی خلاف ہیں اور ایک رکوع والی حدیث قیاس کے مطابق اس لیے تعارض کے وقت ایک رکوع والی حدیث کو ترجیح ہوگی،اس بناء پر امام صاحب نے ان روایتوں پرعمل نہ کیا۔
۳؎ آپ کا فرمان اپنے متعلق ہے یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نمازباجماعت بہت دراز فرمائی ورنہ خودحضورصلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد اس سےبھی دراز پڑھتے تھے۔