مقدمہ : احادیث سے ثابت ہونے والے امور کی تفصیل
احادیث سے ثابت ہونے والے امور کی تفصیل
احادیث سے جو مسائل اور احکام ثابت ہوتے ہیں جن کاتعلق حلت اور حرمت کے ساتھ ہوا وہ چار قسم پر ہیں:
(1) عقائد قطعی جیے توحید و رسالت اور مبدأ و معاد
(۲) عقائدظنیہ جیسے انبیاء کی ملائکہ پر فضیلت اور قبر کے احوال۔
(1) عقائد قطعیہ : ان کے اثبات کے لیے حدیث متواتر ہونی چا ہے عام ازیں کہ تواترلفظی ہو یا معنوی۔
(۲) عقائدظنیہ: ان کے اثبات کے لیے اخبار آحاد کافی ہیں۔
(۳) احکام : ان کے اثبات کے لیے حدیث صحیح ہونی چاہیے یا کم از کم یہ کہ وہ حدیث حسن لغیرہ سے کم نہ ہو۔
(۴) فضائل ومناقب : اس باب میں بالاتفاق احادیث ضعیفہ کا بھی اعتبار کر لیا جاتا ہے۔
چنانچہ علامہ نووی فرماتے ہیں:
انهم قد يروون عنهم احادیث الترغيب والترهیب و فضائل الاعمال و القصص و احادیث الزهد و مکارم الاخلاق ونحو ذلك مما لا يتعلق بالحلال والحرام وسائر الاحكام وهذا الضرب من الحديث يجوز عند اهل الحديث و غيرهم التساهل فيه ورواية ما سوى الموضوع منه والعمل به لان اصول ذلك صحيحة مقررة في الشرع معروفة عند اهله وعلى كل حال فان الائمة لا يروون عن الضعفاء شينا يحتجون به على انفراده في الأحكام. (شرح صحیح مسلم للنووی ج 1 ص 21 نور محمد اصح المطابع کراچی)
حضرات محدثین ضعیف راویوں سے ترغیب ترہبیب فضائل اعمال قصص زہد اور مکارم اخلاق میں احادیث روایت کرتے ہیں اور حلال و حرام کے احکام میں ان سے اصلا روایت نہیں کرتے اور اس قسم کی احادیث میں ضعیف راویوں سے روایت کرنا اور ان پر عمل کرنا صحیح اور شرع میں ثابت ہے اور احکام سے متعلق حدیث میں جب کوئی ضعیف راوی متفرد ہو تو اس کی روایت سے ہرگز استدلال نہیں کیا جاتا۔
علامہ نووی کی اس عبارت سے ظاہر ہو گیا کہ فضائل اور مناقب میں ضعیف روایات کو قبول کیا جاتا ہے اور ان کے متقضی پرعمل بھی ہوتا ہے البتہ احکام میں ضعاف کا اعتبار نہیں ہوتا لیکن بعض صورتوں میں احتیاط کے پیش نظر احکام میں بھی ضعیف روایات کا اعتبار کر لیا جاتا ہے نیز علامہ نووی لکھتے ہیں:
قال العلماء من المحدثين والفقهاء و غيرهم يجوز ويستحب العمل في الفضائل والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعا واما الاحكام كالحلال والحرام والبيع و النكاح. الكتاب الاذکار للنووی ج 1 ص 10-11 مکتبہ نزار مصطفٰی مکہ مکرمہ)
حضرات محدثین فقہاء اور دیگر علماء کرام فرماتے ہیں کہ فضائل اعمال اور ترغیب و ترہیب میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا مستحب ہے جب کہ وہ موضوع نہ ہولیکن حلال اور حرام کے احکام مثلا بیع نکاح وغیر ہ میں اس سے استدلال نہیں کیا جاتا’ صرف ۱حدیث صحیح یا حسن پر عمل کیا جاتا ہے۔
چوتھی صورت یہ ہے کہ بعض اوقات صالحین کے عمل سے بھی حدیث کی تقویت ہوجاتی ہے چنانچہ صلوتہ التسبیح جس روایت سے ثابت ہے وہ حدیث ضعیف ہے اور حاکم اور بیہقی کے عمل سے بھی تقویت کی وجہ بتلائی ہے کہ عبد الله بن المبارک کے عمل کی وجہ تو حدیث تقویت پا گئی چنانچہ مولانا عبدالحئی لکھتے ہیں:
قال البيهقي كان عبد الله بن المبارك يصليها وتداولها الصالحون بعضهم عن بعض وفي ذلك تقوية للحديث المرفوع. (الآثار المرفوعہ ۲۳)
علامہ بیہقی لکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک صلوتہ التسبیح پڑھا کرتے تھے اور بعد کے تمام علماء اس کو ایک دوسرے سے نقل کرکے پڑھتے رہے اس وجہ سے اس حدیث مرفوع کو تقویت حاصل ہوگئی۔
اس کے علاوہ تجربہ اور کشف سے بھی حدیث ضعیف کی تقویت ہوجاتی ہے چنانچہ ملا علی قاری نے اسی بحث میں ابن عربی کے کشف سے ایک حدیث کی تقویت کا واقعہ بیان کیا ہے۔
شیخ قاسم نانوتوی متوفی ۱۲۹۷ھ لکھتے ہیں:
نقل حضرت جنید رضی اللہ عنہ کے کسی مرید کا رنگ یکایک متغیر ہو گیا ۔ آپ نے سبب پوچھا تو بروئے مکاشفہ اس نے یه کہا کہ اپنی اماں کو دوزخ میں دیکھتا ہوں حضرت جنید رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک لاکھ چھہتر ہزار بار کبھی کلمہ پڑھا تھا یوں سمجھ کر کہ بعض روایتوں میں اس قدر. کلمہ کے ثواب پر وعدہ مغفرت ہے اپنے جی ہی جی میں اس مرید کی ماں کو پیش دیا اور اس کو اطلاع نہ کی مگر بخشتے ہی کیا دیکھتے ہیں کہ وہ جوان بشاش بشاش ہے آپ نے پر سب پوچھا اس نے عرض کیا کہ اب اپنی والد کو جنت میں دیکھتا ہوں سو آپ نے سو آپ نے اس پر یہ عمل فرمیا کہ اس جو کے مکاشفہ کی صحت تو مجھ کو حدیث معلوم ہوئی اور حدیث کی تصحیح اس کے مکاشفہ سے ہوگئی ۔ (تحذیر الناس ص 44-45,دارالاشاعت کراچی)