مقدمہ : حدیث ضعیف کی تقویت
حدیث ضعیف کی تقویت
فضائل اعمال اور باب مناقب میں عمویا احادیث ضعیفہ کا اعتبار کیا جاتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر ان بعض قرائن کا ذکر کر دیا جائے جن کی بناء پر حدیث ضعیف قوی ہوجاتی ہے اور اس کا ضعف جاتا رہتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ جب حدیث ضعیف متعدد اسانید سے مروی ہو تو وہ حسن لغیرہ ہوجاتی ہے چنانچہ تمام مستند اصول حدیث کی کتابوں میں یہ مسئلہ مرقوم ہے
محقق على الاطلاق امام ابن ھمام نے بھی فتح القدیر جلد 1 ص248 مطبع مصر) میں اس کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے اور غلام شعرانی
لکھتیے ہیں:
وقد احتج جمهور المحدثين بالحدیث الضعيف اذا کثرت طرقه ولحقوه بالصحيح تارة وبالحسن أخرى. (کتاب الاذکار 877)
جب حدیث ضعیف متعدد اسانید سے مروی ہو تو جمہور محدثین اس سے استدلال کرتے ہیں اور اس کو گاہے صحیح کے ساتھ اور گاہے حسن کے ساتھ لاحق کرتے ہیں ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ جب کسی حدیث ضعیف کے موافق مجتہدین میں سے کسی کا قول مل جائے تو اس سے بھی حدیث ضعیف کی تقویت ہو جاتی ہے۔ چنانچہ علامہ شامی لکھتے ہیں:
ان المجتهد اذا استدل بحديث كان تصحيحا له كما في التحرير وغيره. ( ردالمختار ج ۴، طبع مصر)
مجتهد جب کسی حدیث سے استدلال کرے تو اس کا استدلال بھی حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے جس طرح تحریر وغیرہ میں (امام ابن حمام نے تحقیق فرمائی) ہے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ اگر کسی حدیث ضعیف کے موافق اہل علم میں سے کسی کا قول ہوتو اس سے بھی حدیث کی تقویت ہوجاتی ہے۔ چنانچہ امام ترمذی حدیث اذا اتى احدكم الصلوة والامام على حال الحديث‘‘ کے تحت لکھتے ہیں: “هذا حديث غريب لا نعرف احدا اسنده الا ماروی من ھذا الوجه و العمل على هذا عند أهل العلم ‘‘ملا علی قاری اس کی شرح میں ملا علی قاری اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
قال النووی اسناده ضعيف نقلبه میرک فکان الترمذي برید تقوية الحديث بعمل أهل العلم.(مرقات ج 2 ص ۹۸ کتبہ امدادیہ ملتان۱۳۹۰ھ)
علامہ نووی میرک سے نقل کر کے فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے اور امام ترمذی اہل علم کے عمل سے اس حدیث کی تقویت کا ارادہ کر رہے ہیں ۔