امام بخاری کی تعلیم کی ابتداء اور اپنے استاذ کی تصحیح کرنا

خطيب البغدادی المتوفی 463 ھ حافظ ابن عساکر متوفی 571 ھ حافظ ذہبی متوفی 748 ھ تاج الدین سبکی متوفی 771 ھ اور

حافظ یوسف المزی متوفی ۷۴۲ ھ لکھتے ہیں:

ابوجعفر محمد بن ابی حاتم وراق النحوی لکھتے ہیں: میں نے ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری سے کہا: آپ کی طلب حدیث کا معامله  کس طرح تھا؟ انہوں نے کہا: میں ابھی مکتب میں تھا کہ میرے دل میں حدیث کو حفظ کرنے کا شوق ڈالا گیا انہوں نے پوچھا: اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی ؟ امام بخاری نے کہا: دس سال یا اس سے کم پھر دس سال کی عمر کے بعد میں مکتب سے نکلا اور استاذ داخلی وغیرہ کے پاس جانے لگا ایک دن جب وہ لوگوں کو حدیث پڑھارہے تھے تو انہوں نے ایک حدیث کی سند بیان کی : از سفیان از ابی االزبیر از ابراہیم میں نے کہا: اے ابو فلاں تحقیق یہ ہے کہ ابراہیم نے ابوالزبیر سے حدیث روایت نہیں کی انہوں نے مجھ کو ڈانٹ دیا۔میں نے ان سے کہا: اگر آپ کے پاس اصل ہے تو اس کی طرف رجوع کر لیں پس وہ گھر میں داخل ہوئے اصل کا مطالعہ کیا پھر آئے پھر مجھ سے کہا: اے لڑکے! بتاؤ وہ سند کس طرح ہے؟ میں نے کہا: وہ زبیر بن عدی بن ابراہیم ہے انہوں نے مجھ سے قلم لے کر اپنی کتاب میں اس طرح لکھا پھر کہا تم نے سچ کہا۔ امام بخاری کے بعض احباب نے ان سے پوچھا: جب آپ نے استاذ دخلی کی اصلاح کی تھی اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟ امام بخاری نے کہا: اس وقت میں گیارہ سال کا تھا اور جب میں سولہ سال کا ہوا تو میں نے ابن المبارک اور الوکیع کی کتابوں کو حفظ کرلیا تھا اور ان کے کلام کی معرفت حاصل کرلی تھی پھر میں اپنی والدہ اور اپنے بھائی احمد کے ساتھ مکه مکرمه روانہ ہوا پھر جب میں نے حج کر لیا تو میرا بھائی میری والدہ کے ساتھ واپس آگیا اور میں حدیث کی طلب میں وہیں رہ گیا اور جب میں اٹھارہ سال کا ہو گیا تو میں فضائل صحابہ و تابعین اور ان کے اقوال کے متعلق ایک کتاب تصنیف کرنے لگا یہ عبید اللہ بن موسی کی حکومت نے ایام تھے اور میں نے چاندنی راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے قریب بیٹھ کر کتاب التاريخ ، لکھی اور میں نے تاریخ میں جس کا نام بھی لکھا ہے مجھے اس کا کوئی نہ کوئی قصہ معلوم ہے مگر میں نے کتاب کے طول دینے کو ناپسند کیا ۔ (تاریخ بغدادج 2 ص 7 تاریخ دمشق الکبیر ج 55 ص 43 سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 278 طبقات الشافعیہ الکبری ج 1 ص 425 تہذیب الکمال ج 16 ص 89)