امام بخاری کے والد کے مفصل حالات

علامه شهاب الدین احمد القسطلانی متوفی ۹۱۱ھ لکھتے ہیں:

امام بخاری کے دادا کے والد المغیره الیمان الجعفی والی بخاری کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے اسی وجہ سے امام بخاری کوجعفی کہا جاتا ہے اور بسبت ولاء ہے کیونکہ جوشخص کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہو اس کی ولا، اس کے لیے ہوتی ہے ولا کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمان ہونے والے شخص کا اور کوئی نسبی وارث نہ ہو تو اس کی وراثت اسے مسلمان کرنے والے کو ملے گی اس وجہ سے یمان جعفی کی نسبت سے امام بخاری کے دادا کے والد المغیرہ جعفی کہلائے پھر ان کی نسبت سے امام بخاری جعفی کہلائے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ امام بخاری کے دادا ابراہیم بن المغیرہ کے حالات میں سے ہم کسی چیز پر مطلع نہیں ہوئے اور امام بخاری کے والد اسماعیل بن ابراہیم کا تذکرہ امام ابن حبان نے کتاب الثقات” کے طبقہ رابعہ میں کیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ اسماعیل بن ابراہیم عمار بن زید اور امام مالک سے روایت کرتے ہیں، خود امام بخاری نے بھی اپنے والد کا تذکرہ کیا ہے وہ لکھتے :ہیں

اسماعیل بن ابراہیم بن المغيرہ الجعفی ۔ ابوالحسن نے کہا انہوں نے عمار بن زید کی زیارت کی اور اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ

امام ابن المبارک سے مصافحہ کیا اور امام مالک سے سماع کیا۔ (التاریخ الکبیرج1 ص ۳۲۳، رقم الحدیث: ۱۰۸۴ دار الکتب العلمیہ بیروت 1422ھ)

اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد علامہ قسطلانی لکھتے ہیں:

امام ذہبی نے تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ امام بخاری کے والد علماء متقین میں سے تھے انہوں نے ابو معاویہ اور ایک جماعت سے احادیث کی روایت کی ہے اور ان سے احمد بن جعفر اور نصر بن الحسین نے روایت کی ہے۔

علامہ تاج الدین عبد الوہاب بن علی السبکی التوفی 771ھ نے لکھا ہے:

احمد بن حفص نے کہا: میں ابوالحسن اسماعیل بن ابراہیم کے پاس ان کی موت کے وقت گیا تو انہوں نے کہا: مجھے اپنے تمام اموال میں ایک درہم کے بھی مشتبہ ہونے کا علم نہیں ہے احمد نے کہا: اس وقت میں نے اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں بہت کم تر اور حقیر جانا۔ (ارشاد الساری ج 1 ص 55 دار الفکر بیروت طبقات الشافعیہ الکبری ج 1 ص 422 دارالکتب العلمیہ، بیروت، 1420ھ)