لَهُمۡ مَّا يَشَآءُوۡنَ فِيۡهَا وَلَدَيۡنَا مَزِيۡدٌ ۞- سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 35
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَهُمۡ مَّا يَشَآءُوۡنَ فِيۡهَا وَلَدَيۡنَا مَزِيۡدٌ ۞
ترجمہ:
متقین کے لیے جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی وہ خواہش کریں گے اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے
اہل جنت کے لیے غیر مترقبہ نعمتیں
قٓ:35 میں فرمایا : متقین کے لیے جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی وہ خواہش کریں گے اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ ہے۔
جو نعمتیں ان کو اچھی اور لذیذ لگیں گی اور وہ نعمتیں جن کا کبھی ان کے دل میں خیال بھی نہیں آیا ہوگا وہ نعمتیں ان کو جنت میں ملیں گی، احادیث میں ہے :
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب مومن کو جنت میں اولاد کی خواہش ہوگی تو اس کا حمل اور وضع حمل اور اس کا سن ایک ساعت میں ہوجائے گا جس طرح اس کی خواہش ہوگی (اس حدیث کی سند حسن ہے) ۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث :2563، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4338، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث :1051، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :7404، البعث والنثور للبیہقی رقم الحدیث :440، مسند احمد ج 3 ص 9 طبع قدیم، مسند احمد ج 17 ص 116-117 رقم الحدیث :11063، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، 1420 ھ)
متقین کے لیے غیر مترقبہ نعمتوں کے علاوہ خصوصی مزید انعام
نیز اس آیت میں فرمایا ہے : ” ولدینا مزید “ یعنی متقین جنت میں جو چاہیں گے وہ ان کو مل جائے گا اور ہمارے پاس مزید انعام بھی ہے، وہ مزید انعام کیا ہے، اس کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا : اے اہل جنت ! وہ کہیں گے : ” لبیک ربنا وسعدیک “ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تم راضی ہوگئے ؟ وہ کہیں گے : ہم کیوں راضی نہیں ہوں گے، حالانکہ تو نے ہمیں وہ نعمتیں عطا کی ہیں جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں عطا کیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم کو اس سے بھی افضل چیز عطا کروں گا، وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! ان نعمتوں سے افضل اور کون سی نعمت ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم پر اپنی رضا حلال کر دوں گا اور تم پر کبھی ناراض نہیں ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6549، صحیح مسلم رقم الحدیث : 2829، سنن الترمذی رقم الحدیث :2555، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :7749، مسند احمد ج 3 ص 88)
حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تفسیم میں فرمایا : ” للذین احسنوا الحسنی وزیادۃٌ“ (یونس :16) نیک کام کرنے والوں کے لیے اچھا اجر ہے اور ایک زائد انعام ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا وہ زائد انعام کیا ہے ؟ فرمایا جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی نداء کرے گا : بیشک تمہارے لیے اللہ کا ایک وعدہ ہے، اہل جنت کہیں گے : کیا اللہ نے ہمارے چہرے سفید نہیں کیے، کیا اللہ نے ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی ؟ وہ کہیں گے : کیوں ہیں ! “ پر اللہ ! اپنے چہرے سے حجاب کھول دے گا، آپ نے فرمایا : پس اللہ کی قسم ! اللہ نے ان کو اس سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں دی کہ وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھیں۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث المسلسل :448-449، سنن ترمذی رقم الحدیث : 2552، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 187، مسند احمد ج 4 ص 332)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میرے پاس حضرت جبریل (علیہ السلام) آئے، ان کے پاس ایک سفید آئینہ تھا جس میں ایک سیاہ نکتہ تھا، میں نے کہا : اے جبریل ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ جمعہ ہے جو آپ کے اوپر آپ کا رب پیش فرمائے گا، تاکہ وہ آپ کے لیے اور آپ کے بعد آپ کی امت کے لیے عید ہوجائے اور آپ اول رہیں اور یہود اور نصاریٰ آپ کے بعد رہیں (کیونکہ یہود نے اپنے لیے ہفتہ کا دن رکھا اور نصاریٰ نے اتوار کا) ، آپ نے پوچھا : ہمارے لیے اس میں کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : آپ کے لیے اس میں خیر ہے، اس میں آپ کے لیے ایک ایسی ساعت ہے کہ جو شخص بھی اس میں خیر کی دعا مانگے گا اللہ تعالیٰ اس کو عطا فرما دے گا یا اس سے زیادہ عظیم چیز کو اس کے لیے ذخیرہ کر دے گا، یا وہ کسی شر سے پناہ طلب کرے گا تو اس بڑے شر سے اس کو پناہ میں رکھے گا۔ میں نے پوچھا : اس میں یہ سیاہ نکتہ کیسا ہے ؟ انہوں نے کہا : یہ وہ ساعت ہے جس میں جمعہ قائم ہوتا ہے، ہمارے نزدیک جمعہ سیدالایام ہے اور ہم آخرت میں اس کو یوم المزید کہیں گے، میں نے کہا : تم اس کو یوم المزید کیوں کہو گے ؟ انہوں نے کہا : بیشک آپ کے رب عزوجل نے جنت میں ایک وادی بنائی ہے جو مشک سے زیادہ خوشبودار اور سفید ہے، جب جمعہ کا دن ہوگا تو اللہ تبارک و تعالیٰ علیین سے اپنی کرسی پر جلوہ فرما ہوگا، اسی کرسی کے گرد نور کے منبر ہوں گے اور انبیاء آ کر ان منبروں پر بیٹھ جائیں گے، پھر ان منبروں کے گرد سونے کی کرسیاں ہوں گے، پھر صدیقین اور شہداء آ کر ان کرسیوں پر بیٹھ جائیں گے، پھر اہل جنت آئیں گے اور وہ ٹیلوں پر بیٹھ جائیں گے، پھر ان کے اوپر ان کا رب تبارک و تعالیٰ تجلی فرمائے گا، حتیٰ کہ سب اس کے چہرے کی طرف دیکھیں گے اور وہ فرمائے گا : میں وہ ہوں جس نے اپنے وعدہ کو سچا کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت کو پورا کردیا، یہ میری عزت کی جگہ ہے، تم مجھ سے سوال کرو، پس اہل جنت اس سے رضا کا سوال کریں گے حتیٰ کہ ان کی رغبت ختم ہوجائے گی، پھر ان کے لیے وہ نعمتیں کھولی جائیں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ کسی دل میں ان کا خیال آیا ہوگا، یہ مجلس اتنی دیر رہے گیجتنی دیر میں لوگ جمعہ سے فارغ ہوتے ہیں، پھر اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی کرسی پر چڑھے گا اور اس کے ساتھ ہی صدیقین اور شہداء بھی (اپنی اپنی) کرسیوں پر چڑھیں گے اور بالاخانے والے اپنے بالاخانوں کی طرف لوٹ جائیں گے، وہ بالاخانے سفید موتی کے ہوں گے جن میں کوئی کاٹ پیٹ اور توڑ پھوڑ نہیں ہوگی یا سرخ یاقوت کے ہوں گے یا سبز زمرد کے ہوں گے، ان کے دروازے ایک جیسے ہوں گے، ان میں ان کے دریا ہوں گے، ان میں پھل لٹکے ہوئے ہوں گے، ان میں ان کی بیویاں اور ان کے خدام ہوں گے، پھر ان کو جمعہ کے دن کے سوا اور کسی دن کی احتیاج نہیں ہوگی تاکہ اس دن ان کو زیادہ کرامت حاصل ہو اور اس دن ان کو اللہ تعالیٰ کے چہرے کی طرف دیکھنے کی زیادہ سعادت ملے اور اسی وجہ سے اس دن کا نام یوم المزید ہے۔ (مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث 4228، المعجم الاوسط رقم الحدیث :6713، مسند البزار رقم الحدیث :3519، حافظ الہیثمی نے کہا ہے کہ امام ابویعلیٰ کی سند کے تمام راوی صحیح ہیں، امام طبرانی کی حدیث دو سندوں سے مروی ہے، ایک سند کے تمام راوی صحیح ہیں اور دوسری سند کے ایک راوی عبدالرحمان بن ثابت بن ثوبان کی توثیق میں اختلاف ہے اور امام بزار کی سند میں خلاف ہے۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث :18771)
القرآن – سورۃ نمبر 50 ق آیت نمبر 35