حدیث نمبر 717

روایت ہے حضرت نعمان ابن بشیر سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گھر گیا تو دو دو رکعتیں پڑھتے رہے اورسورج کے بارے میں پوچھتے جاتے تھے حتی کہ سورج کھل گیا ۱؎(ابوداؤد)اور نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ جب سورج گہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری تمام نمازوں کی طرح نماز پڑھی کہ رکوع اورسجدہ کرتے تھے۲؎ اور اس کی دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن جلدی جلدی مسجد کی طرف آئے سورج گہہ گیا تھا تو نماز پڑھی حتی کہ کھل گیا پھر فرمایا کہ جاہلیت والے کہتے تھے کہ سورج اور چاند زمین کےکسی بڑے آدمی کے مرنے پر گہتے ہیں۳؎ حالانکہ سورج چاند نہ کسی کی موت گہیں نہ کسی کی زندگی پر یہ تو خلق الٰہی میں سے دومخلوق ہیں اﷲ اپنی مخلوق پر جو چاہے حادثہ کرے۴؎ لہذا تم نماز پڑھاکروحتی کہ سورج کھل جائے یا اﷲ کوئی واقعہ پیدا کردے ۵؎

شرح

۱؎ شارحین نے اس کی شرح میں بہت دشواری محسوس کی ہے کیونکہ گزشتہ احادیث میں صرف دو رکعتوں کا ذکر تھا اور یہاں زیادہ کا،بعض نے فرمایا کہ جب گرہن جلدی کھل گیا تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور جب دیر میں کھلا تو زیادہ پڑھیں مگر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف ایک ہی دفعہ سورج گرہن ہوا ہے اس لیے توجیہ نہیں بنتی،بس اب یہی کہا جاسکتا ہےیہ ایک روایت بے شمار مذکورہ روایتوں کے خلاف ہے یہ ناقابل قبول ہے۔

۲؎ یعنی جیسے اورنفل پڑھے جاتے ہیں کہ ہر رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدے ایسے ہی یہ نماز گرہن بھی پڑھی گئی،یہ حدیث امام اعظم کی دلیل ہے کہ نماز گرہن میں ہر رکعت میں ایک رکوع اور دوسجدے ہیں۔اس کی پوری بحث ہم اس باب میں پہلے کرچکے ہیں۔اس حدیث کی تائید دوسری بہت سی احادیث سے ہورہی ہے اورقیاس شرعی بھی اس کےموافق ہے،لہذا یہی قابل عمل ہے۔

۳؎ اور اتفاقًا آج حضرت ابراہیم کا انتقال بھی ہوا ہے تو اس واقعہ سے ان کے خیال اورپختہ ہوجانے کا اندیشہ ہے اس لیے کان کھول کر سن لو۔

۴؎ جیسے بارشوں اور آندھیوں کا آنا زمین پر زلزلے کسی کے مرنے جینے سےنہیں بلکہ رب کی قدرت کے اظہار کے لیے ہیں ایسے ہی چاندسورج کا گہناکسی کی موت زندگی کی وجہ سے نہیں۔

۵؎ اس طرح نصف النہار کا وقت آجائے یا سورج گہنے کی حالت میں غروب ہوجائے یاچاند کے گہنے کی حالت میں سویرا ہوجائے تو نماز چھوڑدو کیونکہ دقتوں میں نماز منع ہے،یہ مطلب نہیں کہ قیامت آجائےکیونکہ اس وقت دنیا میں کوئی مسلمان نہیں ہوگا،پھرنمازکیسی اور ذکر اﷲ کیسا،لہذا حدیث پرکوئی اعتراض نہیں۔