کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 20 رکوع 5 سورہ القصص آیت نمبر 14 تا 21
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)
اور جب اپنی جوانی کو پہنچا اور پورے زور پر آیا (ف۳۱) ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا (ف۳۲) اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو
(ف31)
عمر شریف تیس سال سے زیادہ ہو گئی ۔
(ف32)
یعنی مصالحِ دین و دنیا کا علم ۔
وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَةَ عَلٰى حِیْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا فَوَجَدَ فِیْهَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ ﱪ هٰذَا مِنْ شِیْعَتِهٖ وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖۚ-فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِهٖ عَلَى الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّهٖۙ-فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَیْهِ ﱪ قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ(۱۵)
اور اس شہر میں داخل ہوا (ف۳۳) جس وقت شہر والے دوپہر کے خواب میں بے خبر تھے (ف۳۴) تو اس میں دو مرد لڑتے پائے ایک موسیٰ کے گروہ سے تھا (ف۳۵) اور دوسرا اُس کے دشمنوں سے (ف۳۶) تو وہ جو اُس کے گروہ سے تھا (ف۳۷) اُس نے موسیٰ سے مدد مانگی اس پر جو اس کے دشمنوں سے تھا تو موسیٰ نے اس کے گھونسا مارا(ف۳۸) تو اس کا کام تمام کردیا (ف۳۹) کہا یہ کام شیطان کی طرف سے ہوا (ف۴۰) بےشک وہ دشمن ہے کھلا گمراہ کرنے والا
(ف33)
وہ شہر یا تو منف تھا جو حدودِ مِصر میں ہے ، اصل اس کی مافہ ہے زبانِ قبطی میں اس لفظ کے معنی ہیں تیس ۳۰ یہ پہلا شہر ہے جو طوفانِ حضرتِ نوح علیہ السلام کے بعد آباد ہوا اس سرزمین میں مِصر بن حام نے اقامت کی یہ اقامت کرنے والے کل تیس ۳۰ تھے اس لئے اس کا نام مافہ ہوا پھر اس کی عربی منف ہوئی یا وہ شہر حابین تھا جو مِصر سے دو فرسنگ کے فاصلہ پر تھا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ شہر عینِ شمس تھا ۔ (جمل و خازن )
(ف34)
اور حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پوشیدہ طور پر داخل ہونے کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت موسٰی علیہ السلام جوان ہوئے تو آپ نے حق کا بیان اور فرعون اور فرعونیوں کی گمراہی کا رد شروع کیا بنی اسرائیل کے لوگ آپ کی بات سنتے اور آپ کا اِتّباع کرتے آپ فرعونیوں کے دین کی ممانعت فرماتے شدہ شدہ اس کا چرچا ہوا اور فرعونی جستجو میں ہوئے اس لئے آپ جس بستی میں داخل ہوتے ایسے وقت داخل ہوتے جب وہاں کے لوگ غفلت میں ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ وہ دن عید کا تھا لوگ اپنے لہو و لعب میں مشغول تھے ۔ (مدارک و خازن)
(ف35)
بنی اسرائیل میں سے ۔
(ف36)
یعنی قبطی قومِ فرعون سے ۔ یہ اسرائیلی پر جبر کر رہا تھا تاکہ اس پر لکڑیوں کا انبار لاد کر فرعون کے مطبخ میں لے جائے ۔
(ف37)
یعنی حضرت موسٰی علیہ السلام کے ۔
(ف38)
پہلے آپ نے قبطی سے کہا کہ اسرائیلی پر ظلم نہ کر اس کو چھوڑ دے لیکن وہ باز نہ آیا اور بدزبانی کرنے لگا تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس کو اس ظلم سے روکنے کے لئے گھونسا مارا ۔
(ف39)
یعنی وہ مر گیا اور آپ نے اس کو ریت میں دفن کر دیا آپ کا ارادہ قتل کرنے کا نہ تھا ۔
(ف40)
یعنی اس قبطی کا اسرائیلی پر ظلم کرنا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوا ۔ (خازن)
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۱۶)
عرض کی اے میرے رب میں نے اپنی جان پر زیادتی کی (ف۴۱) تو مجھے بخش دے تو رب نے اُسے بخش دیا بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے
(ف41)
یہ کلام حضرت موسٰی علیہ السلام کا بطریقِ تواضُع ہے کیونکہ آپ سے کوئی معصیت سرزد نہیں ہوئی اور انبیاء معصوم ہیں ان سے گناہ نہیں ہوتے ۔ قطبی کا مارنا آپ کا دفعِ ظلم اور امدادِ مظلوم تھی یہ کسی ملّت میں بھی گناہ نہیں پھر بھی اپنی طرف تقصیر کی نسبت کرنا اور استغفار چاہنا یہ مقربین کا دستور ہی ہے ۔ بعض مفسِّرین نے فرمایاکہ اس میں تاخیر اولٰی تھی اس لئے حضرت موسٰی علیہ السلام نے ترکِ اولٰی کو زیادتی فرمایا اور اس پر حق تعالٰی سے مغفرت طلب کی ۔
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ(۱۷)
عرض کی اے میرے رب جیسا تو نے مجھ پر احسان کیا تو اب(ف۴۲) ہرگز میں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا
(ف42)
یہ کرم بھی کر کہ مجھے فرعون کی صحبت اور اس کے یہاں رہنے سے بھی بچا کہ اس زمرہ میں شمار کیا جانا یہ بھی ایک طرح کا مدد گار ہونا ہے ۔
فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَةِ خَآىٕفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُهٗؕ-قَالَ لَهٗ مُوْسٰۤى اِنَّكَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۸)
تو صبح کی اس شہر میں ڈرتے ہوئے اس انتظار میں کہ کیا ہوتا ہے (ف۴۳) جبھی دیکھا کہ وہ جس نے کل ان سے مدد چاہی تھی فریاد کررہا ہے (ف۴۴) موسیٰ نے اس سے فرمایا بےشک تو کھلا گمراہ ہے (ف۴۵)
(ف43)
کہ خدا جانے اس قبطی کے مارے جانے کا کیا نتیجہ نکلے اور اس کی قوم کے لوگ کیا کریں ۔
(ف44)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ فرعون کی قوم کے لوگوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ کسی بنی اسرائیل نے ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا ہے اس پر فرعون نے کہا کہ قاتل اور گواہوں کو تلاش کرو فرعونی گشت کرتے پھرتے تھے اور انہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا تھا دوسرے روز جب حضرت موسٰی علیہ السلام کو پھر ایسا اتفاق پیش آیا کہ وہی بنی اسرائیل جس نے ایک روز پہلے ان سے مدد چاہی تھی آج پھر ایک فرعونی سے لڑ رہا ہے اور حضرت موسٰی علیہ السلام کو دیکھ کر ان سے فریاد کرنے لگا تب حضرت ۔
(ف45)
مراد یہ تھی کہ روز لوگوں سے لڑتا ہے اپنے آپ کو بھی مصیبت و پریشانی میں ڈالتا ہے اور اپنے مددگاروں کو بھی کیوں ایسے موقعوں سے نہیں بچتا اور کیوں احتیاط نہیں کرتا پھر حضرت موسٰی علیہ السلام کو رحم آیا اور آپ نے چاہا کہ اس کو فرعونی کے پنجۂ ظلم سے رہائی دلائیں ۔
فَلَمَّاۤ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ بِالَّذِیْ هُوَ عَدُوٌّ لَّهُمَاۙ-قَالَ یٰمُوْسٰۤى اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ ﳓ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَا تُرِیْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ(۱۹)
تو جب موسیٰ نے چاہا کہ اس پر گرفت کرے جو ان دونوں کا دشمن ہے (ف۴۶) وہ بولا اے موسیٰ کیا تم مجھے ویسا ہی قتل کرنا چاہتے ہو جیسا تم نے کل ایک شخص کو قتل کردیا تم تو یہی چاہتے ہو کہ زمین میں سخت گیر بنو اور اصلاح کرنا نہیں چاہتے (ف۴۷)
(ف46)
یعنی فرعونی پر ۔ تو اسرائیلی غلطی سے یہ سمجھا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام مجھ سے خفا ہیں مجھے پکڑنا چاہتے ہیں یہ سمجھ کر ۔
(ف47)
فرعونی نے یہ بات سنی اور جا کر فرعون کو اطلاع دی کہ کل کے فرعونی مقتول کے قاتل حضرت موسٰی علیہ السلام ہیں فرعون نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا اور لوگ حضرت موسٰی علیہ السلام کو ڈھونڈھنے نکلے ۔
وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰى٘-قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِیَقْتُلُوْكَ فَاخْرُ جْ اِنِّیْ لَكَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ(۲۰)
اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص (ف۴۸) دوڑتا آیا کہا اے موسیٰ !بےشک دربار والے (ف۴۹) آپ کے قتل کا مشورہ کررہے ہیں تو نکل جائیے (ف۵۰) میں آپ کا خیر خواہ ہوں (ف۵۱)
(ف48)
جس کو مومنِ آلِ فرعون کہتے ہیں یہ خبر سن کر قریب کی راہ سے ۔
(ف49)
فرعون کے ۔
(ف50)
شہر سے ۔
(ف51)
یہ بات خیر خواہی اور مصلحت اندیشی سے کہتا ہوں ۔
فَخَرَ جَ مِنْهَا خَآىٕفًا یَّتَرَقَّبُ٘-قَالَ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠(۲۱)
تو اس شہر سے نکلا ڈرتا ہوا اس انتظار میں کہ اب کیا ہوتا ہے عرض کی اے میرے رب مجھے ستم گاروں سے بچالے (ف۵۲)
(ف52)
یعنی قومِ فرعون سے ۔