امام بخاری کا کرم اور ان کی سخاوت

محمد بن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری کا ایک قطعه زمین تھا جس کا وہ ہر سال سات سو درھم کرایہ لیا کرتے تھے۔کرایہ دار بعض اوقات امام بخاری کے لیے ایک ککڑی یا دو ککڑیاں لایا کرتا تھا کیونکہ امام بخاری کو ککڑی بہت پسند تھی وہ اس کو خربوزے پر ترجیح دیتے تھے امام بخاری اس شخص کو ککڑری لانے کے معاوضہ میں ہر سال سو درہم دیا کرتے تھے۔

امام بخاری فرماتے تھے: مجھے ہر ماہ پانچ سو درہم آمدنی ہوتی تھی اور میں وہ سب کی سب علم دین کے طلبہ پر خرچ کردیتا تھا میں نے کہا ۔ ان دو شحصوں میں کتنا فرق ہے جو مال کو اس طرح خرچ کرتا ہے اور جو مال کو اپنے لیے جمع کرتا ہے امام بخارینےکہا: جواللہ کے پاس ہے وہ زیادہ اچھا ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔

امام بخاری پورے دن میں روٹی نہیں کھاتے تھے صرف دو یا تین بادام کھا تے ( یعنی کسی وجہ سے بعض ایام میں ان کا یہ معمول تھا) اور وہ چنے وغیرہ پکانے سے پرہیز کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا:اے ابوجعفر ہمیں سال میں زیادہ خرچ کی ضرورت ہوتی ہے میں نے پوچھا: کتنے خرچ کی؟ امام بخاری نے کہا: چار یا پانچ ہزار درہم کی اور بہت زیادہ: صدقه کرتے تھے وہ حدیث پڑھنے والوں کی مدد کرتے تھے وہ بیس یا تیس درہم یا اس سے کم یا زیادہ اس طرح دیتے تھے کہ کسی کو پتا نہیں چلتا تھا انہوں نے کئی مرتبہ ایک شخص کو تین سو درہم سے بھری ہوئی تھیلی دی مجھے بعد میں اس شخص نے بتایا .. وہ دعادینا چاہتا تو امام بخاری منع کرديتے اور کسی اور کام میں لگ جاتے تا کہ کسی کو پتا نہ چلے۔

محمد بن ابی حاتم بیان کرتے ہیں کہ میں نے نو سو بیس درہم میں ایک گھر خرید، امام بخاری نے کہا: مجھے تم سے ایک کام ہے کرو گے؟ میں نے کہا: جی ہاں امام بخاری نے کہا: نوح بن ابی شداد ایک صراف ہے اس سے میرے ایک ہزاردرھم لے کر آئو، میں وہ لےکر تو امام بخاری نے کہا: یہ درہم تم لے لو اور ان کو مکان کی قیمت میں رکھ لو میں نے کہا: میں نے ان کو قبول کرلیا .. میں آپ کا شکر ادا کرتا ہوں پھر ہم دونوں الجامع الصحيح ‘‘ کی تصنیف کرنے بیٹھ گئے کچھ دیر بعد میں نے کہا: میرا ایک کام ہے اور میرا گمان ہے کہ آپ کے سوا میرا وہ کام اور کوئی نہیں کر سکتا۔ امام بخاری نے سوچا شاید میں زیادہ پیسوں کی طمع کر رہا ہوں انہوں نے کہا: تمہارا جو بھی کام ہے وہ میں کروں گا میں نے کہا: آپ نے جو ایک ہزار درہم مجھے عطا کیے تھے وہ میں آپ کی نذر کرنا چاہتا ہوں بس میرایہی کام ہے چونکہ امام بخاری وعدہ کر چکے تھے اس لیے انہوں نے وہ ایک ہزار درہم لے لیے پھر ہم دو دن تک بیٹھ کر الجامع الصحيح کی تصنیف کا کام کرتے رہے اس دن ہم نے ظہر تک بہت کام کیا ظہر کی نماز کے بعد پھر لکھنے بیٹھ گئے اس وقت تک ہم نے کچھ نہیں کھایا تھا، عصر کے بعد امام بخاری نے میری طرف دیکھا میر انقاہت سے برا حال تھا پھر امام بخاری نے میری طرف ایک کاغذ بڑھایا جس میں تین سو درہم تھے اور کہا: جب تم نے مکان کی قیمت نہیں لی تو ان دراہم کو اپنی دوسری ضروریات میں صرف کرو پھر دوسرے دن مجھے سبزی وغیرہ خریدنے کے لیے پھر بیس درہم دیئے میں نے امام بخاری سے کہا: آپ نے دنیا اور آخرت کی خیر جمع کر لی ہے دنیا میں ایسا کون شخص ہو گا جو اپنے خادم کے ساتھ ایسا سلوک کرے جیسا سلوک آپ میرے ساتھ کرتے ہیں!

عبد الله بن محمد الصارفی بیان کرتے ہیں کہ میں امام بخاری کے ساتھ ان کے گھر میں تھا ان کی باندی آئی اور ان کے سامنے لڑکھڑاکر گرگئی امام بخاری نے کہا: تم کس طرح چلتی ہو؟ اس نے تنک کر کہا: جب راستہ نہ ہو تو کیسے چلوں امام بخاری نے ہاتھ اٹھا کر گیا: جاؤ میں نے تمہیں آزاد کر دیا بعد میں امام بخاری سے کہا گیا: اس باندی نے تو آپ کو بدتمیزی سے جواب دیا تھا امام بخاری نے کہا: میں نے جو کچھ کیا اس سے میں نے اپنے نفس (مطمئنہ ) کو راضی کیا۔ (سیر اعلام النبلاء ج 10 ص ۳۱۰- ۳۰۸)