امام بخاری کے متعلق ائمہ حدیث کے کلمات تحسین

ابو جعفر بیان کرتے ہیں کہ مجھے سلیم بن مجاہد نے بتایا ک محمد بن سلام بیکندی میرے پاس آئے میں نے ان سے کہا: اگر آپ تھوڑی دیر پہلے آتے تو میں آپ کو وہ بچہ دکھاتا جس کو ستر ہزار احادیث حفظ ہیں پھر میں امام بخاری کو تلاش کرنے کے لیے نکلاحتی کہ وہ مل گئے البیکندی نے کہا: تم ہی وہ ہو جو کہتے ہو مجھے ستر ہزار احادیث حفظ ہیں؟ امام بخاری نے کہا: ہاں! اور مجھے اس سے زیادہ احادیث حفظ ہیں اور میں آپ کو صحابہ اور تابعین سے جو حدیث بھی روایت کروں گا میں ان میں سے اکثر کی جائے ولادت جائے وفات اور ان کے مساکن کو جانتا ہوں اور میں صحابہ اور تابعین کی جس حدیث کو بھی روایت کرتا ہوں میرے پاس قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اس کی اصل محفوظ ہوتی ہے۔

یحیی بن جعفر کہتے تھے اگر میں اس پر قادر ہوتا کہ میں اپنی عمر میں سے امام بخاری کی عمر میں اضافہ کر دوں تو میں کر دیتا کیونکہ میری موت ایک آدمی کی موت ہوگی اور امام بخاری کی موت سے علم رخصت ہو جائے گا۔

نعیم بن حماد کہتے تھے کہ امام بخاری اس امت کے فقیہ ہیں۔

محمد بن ابوحاتم بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری نے بتایا کہ عمرو بن علی الفلاس کے اصحاب نے ایک حدیث میں مجھ سے مذاکرہ کیا میں نے کہا: میں اس حدیث کو نہیں پہچانتا وہ لوگ اس سے بہت خوش ہوئے اور جا کر عمرو بن علی کو بتایا انہوں نے کہا: جس حدیث کو محمد بن اسماعیل نہیں پہچانتے وہ حدیث نہیں ہے۔

حاشد بن عبدالله بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے مصعب الزہری نے کہا: ہمارے نزدیک محمد بن اسماعیل امام احمد بن حنبل سے زیادہ فقیہ اور بصیر ہیں ان سے کہا گیا تم نے حد سے تجاوز کیا ہے مصعب نے اس شخص سے کہا: اگرتم امام مالک کا زمانہ پاتے اور ان کا چہرہ دیکھتے اور محمد بن اسماعیل کا چہرہ دیکھتے تو تم کہتے : یہ دونوں فقہ اور حدیث میں واحد ہیں۔

علی بن حجر نے کہا: خراسان نے تین مرد پیدا کیے : ابوزرعه محمد بن اسماعیل بخاری اور عبد الله بن عبد الرحمان دارمی اور محمد بن اسماعیل میرے نزدیک ان سب سے زیادہ بصیر سب سے بڑے عالم اور سب سے کامل فقیہ ہیں۔

عبدالله بن احمد بن حنبل بیان کرتے ہیں : میں نے اپنے والد سے سنا ہے: خراسان نے محمد بن اسماعیل کی مثل پیدا نہیں کی۔

احمد بن المنصور بیان کرتے ہیں: میں نے ابوبکر بن ابی شیبہ اور محمد بن عبد الله بن نمیر سے سنا کہ ہم نے محمد بن اسماعیل کی مثل نہیں دیکھی۔

حاشد بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ میں بصرہ میں تھا تو میں نے محمد بن اسماعیل کی آمد کے متعلق سنا تو بندار نے کہا: آج سید الفقہاء داخل ہوا۔

ابراہیم بن خالد المروزی بیان کرتے ہیں کہ ابوعمار حسین بن خرث نے امام بخاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا: میں نے ان کی مثل نہیں دیکھی گویا کہ ان کو صرف حدیث کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔

محمود بن المنضر بیان کرتے ہیں کہ میں بصرہ شام کوفہ اور حجاز میں گیا اور میں نے ان کے علماء کو دیکھا جب بھی ان کے سامنے امام محمد بن اسماعیل کا ذکر ہوتا تو وہ امام بخاری کو اپنے اوپر فضیلت دیتے۔

محمد بن یوسف بیان کرتے ہیں کہ امام محمد بن اسماعیل نے بتایا کہ میں جب بصرہ میں گیا تو میں بندار کی مجلس میں پہنچا جب ان کی نظر مجھ پر پڑی تو مجھ سے پوچھا: نوجوان تم کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا: بخاری سے، انہوں نے کہا: وہاں ابوعبداللہ کیسے ہیں؟ میں خاموش رہا ان کو لوگوں نے بتایا کہ یہی ابو عبد اللہ ہیں پس وہ کھڑے ہوگئے انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گلے لگایا اور کہا: مرحبا! میں اس شخص پر کئی سالوں سے فخر کر رہا تھا۔

محمد بن عمر بن الاشعث البیکندی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد الله بن احمد بن حنبل سے سنا وہ کہتے تھے کہ میرے والد نے کہا: اہل خراسان میں سے چار حفاظ حدیث ہیں : ابوزرعہ الرازی محمد بن اسماعیل البخاری: عبد الله بن عبد الرحمان السمرقندی اور الحسن بن شجاع البلخی۔

یعقوب بن ابراہیم الدورتی کہتے تھے کہ امام محمد بن اسماعیل اس امت کے فقیہ ہیں ۔

الفربری بیان کرتے ہیں کہ عبد الله بن منیر کے اصحاب میں سے ایک شخص کسی کام سے بخاری گیا جب وہ واپس آیا تو ابن منیر نے اس سے پوچھا: تم ابوعبد اللہ سے ملے تھے؟ اس نے کہا نہیں انہوں نے اس کو دھتکار دیا اور کہا: تیرے اندر کوئی خیر نہیں ہے تو بخاری میں گیا اور ابوعبدالله محمد بن اسماعیل سے مل کر نہیں آیا۔

الوراق بیان کرتے ہیں کہ میں نے علماء مکہ سے سنا وہ کہتے تھے: محمد بن اسامیل ہمارے امام اور فقیہ ہیں اور خراسان کے فقیه ہیں ۔ صالح بن یونس بیان کرتے ہیں کہ امام عبدالله بن عبد الرحمان داری سے سالم بن ابی حفصہ کی حدیث کے متعلق سوال کیا گیا۔ انہوں نے کہا: اس حدیث کو میں نے محمد بن اسماعیل کے ساتھ لکھا تھا اور وہ کہتے تھے کہ سالم ضعیف ہے ان سے کہا گیا: آپ کیا کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا:محمد بن اسماعیل مجھ سے زیادہ بصیرت رکھنے والے ہیں۔

الوراق بیان کرتے ہیں کہ ابو الطيب حاتم بن منصور الکیسی کہتے تھے کہ بصرہ میں علم کے نفاذ میں امام بخاری اللہ کی آیات میں سے ایک آیت ہیں۔

رجاء الحافظ کہتے تھے کہ امام محمد بن اسماعیل کی علماء پر اس طرح فضیلت ہے جیسے مردوں کی عورتوں پر فضیلت ہے ایک شخص نے کہا: کیا ہر ایک پر؟ انہوں نے کہا: وہ اللہ تعالی کی آیات میں سے ایک آیت ہیں جو زمین پر چلتے ہیں ۔

محمد بن يوسف بیان کرتے ہیں کہ ہم امام بخاری کے ساتھ محمد بن بشار کے پاس تھے انہوں نے امام بخاری سے ایک حدیث کے متعلق دریافت کیا امام بخاری نے فی الفور جواب دیا محمد بن بشار نے امام بخاری کی طرف اشارہ کر کے کہا: یہ ہمارے زمانے میں اللہ کی مخلوق میں سب سے بڑے فقیہ ہیں۔

سلیم بن مجاہد کہتے تھے ، اگر وکیع ابن عیینہ اور ابن المبارک اس وقت زندہ ہوتے تو محمد بن اسماعیل کی طر ف محتاج ہوتے۔

محمد بن يوسف بیان کرتے ہیں کہ ہم قتیبہ بن سعید کے پاس بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اس کا نام ابویعقوب تھا قتیبہ بن سعید نے اس سے محمد بن اسماعیل کے متعلق دریافت کیا۔ پہلے اس نے اپنا سر جھکایا پھر آسمان کی طرف سراٹهایا اور کہا: اے لوگو! میں نے حدیث میں غور کیا ہے اور رائے میں بھی غور کیا ہے میں فقہا لء زہاد اور عباد کی مجلس میں رہا ہوں اور جب سے میں نے ہوش سنجالا ہے میں نے محمد بن اسماعیل کی مثل نہیں دیکھی۔

حاشد بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ قتیبہ کہتے ہیں کہ امام بخاری اپنے اصحاب میں صدق اور تقوی میں ایسے ہیں، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ میں تھے۔ .

ابوبکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ کہتے تھے کہ میں نے محمد بن اسماعیل سے بڑھ کر آسمان سے نیچے احادیث کا عالم اور حافظ نہیں دیکھا۔

محمد بن حمدون بن رستم بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ امام مسلم بن حجاج امام بخاری کے پاس آئے اور کہا: اے استاذین سید المحدثین اور و ملل حدیث کے طبیب اپنے پیر بڑھائیں تاکہ میں ان پر بوسہ دوں۔

امام ابوعیسی ترمذی نے کہا

: میں نے علل تاریخ اور معرفت الاسانید کے معنی میں محمد بن اسماعیل سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا عراق میں نہ خراسان میں ۔

امام ابوعیسی ترمذی نے کہا : امام محمد بن اسماعیل، عبد اللہ بن منیر کے پاس تھے جب وہ ان کے پاس سے کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا: اے ابو عبد الله الله تعالی نے آپ کو اس امت کی زینت بنادیا ہے امام ترمذی نے کہا: ان کے کلمات قبول ہو گئے۔

احمد بن نصر الخفاف نے کہا: امام محمد بن اسماعیل اسحاق بن راھویہ اور احمد بن حنبل سے بیس درجہ زیادہ بڑے عالم تھے اور جو امام بخاری کی مذمت کر میری طرف سے اس پر ایک بارلعنت ہو۔

بغیر کفر یا فسق کے کسی پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ (سعیدی غفرلد)

احمد بن حمدون القصار بیان کرتے ہیں کہ امام مسلم بن حجاج امام بخاری کے پاس گئے اور ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور کہا: مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے قدموں کو بوسہ دوں پھر کہا: آپ کو محمد بن سلام نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا ہمیں مخلد بن یزید الحرانی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابن جریج نے خبر دی از موسی بن عقبہ از سہیل از والد خود از حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ از نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ حدیث کفارہ مجلس میں ہے۔ (المستدرک ج 1 ص 546) اس حدیث کی علت کیا ہے؟ امام بخاری نے کہا: یہ حدیث ملیح ہے اور اس باب میں اس حدیث واحد کے سوا دنیا میں اور کوئی حدیث میرے علم میں نہیں ہے مگر یہ حدیث معلول ہے۔ ہمیں یہ حدیث موسی بن اسماعیل نے بیان کی، انہوں نے کہا: ہم سے وہیب نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہمیں سہیل نے حدیث بیان کی از عون بن عبداللہ امام محمد نے کہا اور یہ سند اولی ہے کیونکہ موسی بن عقبہ کا سہیل سے سماع نہیم بیان کیا جاتا تب امام مسلم نے کہا آپ سے صرف حاسد ہی بغض رکھے گا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ دنیا میں آپ کی کوئی مثل نہیں ہے۔

کفار مجلس کی حدیث درج ذیل ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جہاں بہت شور وشغب ہو پھر مجلس سے اٹھنے سے پہلے وہ یہ دعا پڑھ لے:”سبحانك اللهم وبحمدك اشهد ان لا اله الا انت استغفرك واتوب اليك ‘‘ تو اس مجلس میں جو غلط باتیں ہوئی تھیں ان پر اس شخص کو معاف کر دیا جائے گا۔ (سنن ترمذی: 3433، مسند احمد ج۲ ص۳۴۹)

ابوسہل محمد بن احمد المروزی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوزید المروزی الفقیہ سے یہ سنا ہے کہ میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان سویا ہوا تھا اس وقت مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا: اے ابوزید! کب تک امام شافعی کی کتابیں پڑھتے رہو گئے؟ تم میری کتاب نہیں پڑھتے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کی کتاب کونسی ہے؟ آپ نے فرمایا: محمد بن اسماعیل کی “الجامع”۔ (سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 290-303 ملخصا تاریخ بغداد ج ۲ ص ۲۹-۱۲ تاریخ دمشق ج55، ص۶۱.۲۵ تہذیب الکمال ج 16 ص 103 – طبقات الشافعیہ الکبری ج ا ص 427-432 تہذیب التہذیب ج۹ص41-42 ھدی الساری ص 476-478 مع فتح الباری ج 1 دار المعرفہ بیروت)